جب بھارتیوں نے گایا۔۔۔ ’’پاک سرزمین شاد باد‘‘

تابان ظفر  اتوار 27 دسمبر 2015
 بلغاریہ کا سہما سہما میخائل اور معرکے مارتا گیورگی، دلی والے کی فارسی پر ایرانی ہکّابکّا ۔  فوٹو : فائل

بلغاریہ کا سہما سہما میخائل اور معرکے مارتا گیورگی، دلی والے کی فارسی پر ایرانی ہکّابکّا ۔ فوٹو : فائل

دبلی پتلی لمبی، بانس جیسی، اچھی خاصی سانولی، سر پر کَس کر دوپٹا، سادہ اور سستا سا کاٹن کا سوٹ۔۔۔اوپر پھیکے رنگ کا کوٹ۔۔۔ اس میں کچھ بھی تو پُرکشش نہیں تھا۔۔۔۔ باتوں میں چمک، تیکھا پن نہ شرارت۔۔۔ بالکل گھرگھسی، دبو دبو سی۔ بس ہنسی بہت بھرپور تھی۔ پورے وجود سے ہنسی پھوٹتی۔ آنکھیں ہیرے کی طرح چمکتیں۔ وہ بریلی کی نشاط فاطمہ تھی۔

ہم فارسی کے مہینے بھرکے کورس پر تہران کی شہید بہشتی یونیورسٹی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہندوستان سے آنے والے آٹھ دس لڑکوں اور بزرگوں میں تنہا لڑکی تھی۔ عمر ہوگی کوئی بیس بائیس۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم اے فارسی کا پہلا سال تھا۔

تہران میں فارسی شناسی کا امتحان ہوا۔ تو نشاط فاطمہ بالکل پھسڈی نکلی، 50 فیصد سے بھی کم نمبر لیے، ابتدائی درجے میں جگہ ملی، میں ایک درجے اوپر، یعنی متوسط میں تھا۔

کلاسوں کے بعد تمام درجوں کے طلبا شہر گھومنے نکلتے۔ پاکستان سے ہم چار پانچ لوگ، عموماً ایک ہی بس میں بیٹھتے اور ساتھ ساتھ رہتے۔ میرے کمرے میں دو بلغاری لڑکے بھی تھے، ایک میخائل دوسرا گیورگی۔ ان دونوں کا قصہ بھی عجب ہے۔ مجھے ہاسٹل پہنچے دوروز ہوچکے تھے، ہر کمرے میں چار افراد تھے، لیکن میں اکیلا۔ کلاسیں شروع نہیں ہوئی تھیں، شہر جانے کی اجازت نہیں تھی، دن بھر کمرے میں پڑا سوکھتا رہتا۔

سخت بیزار ہوچکا تھا۔ ایک رات کوئی گیارہ بارہ بجے دستک پر آنکھ کھلی، دروازے پر ہاسٹل کے انچارج تھے اور ساتھ دو گورے لڑکے۔ آقای احمد! آپ کے روم میٹ آگئے۔‘‘ شیرازی شیرازی نے دونوں کا تعارف کرایا۔ خوش آمدین خوش آمدین، میں کِھل اٹھا۔ اب بھی کوئی نہ آتا تو میں خود سامان اٹھاکر کسی اور کمرے میں چلا جاتا۔ شیرازی میری بات پر ہنس پڑے۔۔ دونوں لڑکے سامان اٹھائے کمرے میں آگئے، کچھ الجھے الجھے سے لگ رہے تھے۔

خاص طور پر چھوٹے والا یعنی میخائل۔ ’’خیلی خوب آقایان، فردا صبح معرفی می کنیم، ان دوتاتخت مال تان ہستند‘‘ میں نے خالی بستروں کی طرف اشارہ کیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔

صبح خاصی خوش گوار تھی۔ نیند بھی اچھی آئی، سو موڈ بھی اچھا تھا، اور اب میں تنہا بھی نہیں تھا۔ پنجرے میں دو پنچھی اور آگئے تھے۔ ورزش کے لیے باہر نکلا تو دونوں بلغاری گدھے بیچ کر سو رہے تھے۔ واپسی پر ملاقات ہوئی۔ میں نے بتایا کہ پاکستان سے ہوں تو دونوں کے چہروں پر رنگ کی تبدیلی چھپی نہ رہ سکی۔ کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ خوف دور ہوجائے گا۔ میں دل ہی دل میں مسکرایا۔

گیورگی کی فارسی بہت اچھی تھی۔ تبلیسی یونیورسٹی میں سال آخر میں تھا۔ حافظ اور خاص طور پر عمرخیام کا حافظ۔ میخائل چُپ چُپ، ڈرا سہما، فارسی میں زیرو بٹا زیرو۔ کم ازکم ابتدائی تاثر یہی تھا۔ گیورگی نے بتایا میخائل سال اول میں ہے، والدین کا اکلوتا ہے اور پہلی دفعہ پردیس آیا ہے۔ اس لیے ذرا پریشان ہے۔

’’اور اب ایک پاکستانی کے ساتھ رہنا پڑرہا ہے۔‘‘ میں ہنس پڑا۔ گیورگی جھینپ گیا، جیسے میں نے اس کے دل کی بات پکڑلی ہو۔

پھر کلاسیں شروع ہوگئیں اور ہم اچھے خاصے مصروف ہوگئے، اسمارٹ، گڈ لُکنگ اور فارسی میں ماہرگیورگی تیزی سے لڑکیوں میں مقبول ہونے لگا۔ مقبول تو کیا وہ تو خود ہی شکاری نکلا۔ چھے فٹ کا گیورگی سچ مچ کا شکاری بھی تھا۔ والد کے ساتھ بلغاریہ میں خوب شکار کھیلے۔ اب بھی جب موقع ملتا رائفل اٹھ کر نکل جاتا۔ اس نے مجھے اپنے شکاری کارناموں کی کئی تصویریں بھی دکھائیں۔

دوسری طرف جھینپا جھینپا، سہماسہما میخائل، جس کا نام ہم پاکستانیوں ہندوستانیوں نے میخو رکھ چھوڑا تھا۔ ایران میں مسلسل رہنے اور پڑھنے سے اس کی زبان کھل گئی تھی۔ فارسی بولنے لگا تھا۔ اٹک اٹک کر سہی لیکن اپنی بات پہنچا دیتا۔ مجھ سے بہت دوستی ہوگئی تھی۔ بھائی بھائی کرتے زبان سوکھتی، جہاں میں وہاں میخو میاں۔ لیکن میں تو آپ کو نشاط فاطمہ کی کہانی سنارہا تھا۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ ذرا واپس دشمن دیش چلتے ہیں۔

ہندوستانی گروپ میں دو کشمیری بھی تھے۔ دونوں ہی چلتے پرزے، فارسی میں بہت جاری، خصوصاً خسرو، بیدل اور غنی کاشمیری کے درجنوں شعر نوک زبان پر۔ ایرانیوں سے خوب مقابلے بازی ہوتی۔ اُدھر سے حافظ، رومی اور سعدی آتے تو اِدھر سے خسرو، بیدل اور اقبال نکلتے۔ دلی سے ایک نوجوان وکیل صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ ان کی فارسی کا تو یہ عالم تھا کہ ایرانی بھی ہکا بکا رہ جاتے۔ ادبی تو چھوڑیے زبانِ کوچہ یعنی فارسی سلینگ میں بھی ایرانیوں کے کان کُترتے۔ ان سب جغادریوں میں بے چاری نشاط فاطمہ بالکل صُم بُکم۔ ہاں جب ہنستی تو درو بام ہنستے۔

دونوں کشمیری لڑکے، خصوصاً الطاف بھارت کا شدید مخالف۔ پاکستانیوں سے پہلی بار ملے تو ایک ایک کو پکڑ کر گلے لگایا، کہنے لگے خدا کی قسم زندگی سپھل ہوگئی آپ پاکستانیوں سے مل کر۔ آنکھوں میں نور اور دل میں سرور بھرگیا آپ حضرات کی زیارت سے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے لڑکوں نے دونوں کشمیریوں کو خوب خوب جپھیاں ڈالیں۔

الطاف میاں جب جب بولتے دُکھڑے روتے، بھارت سرکار کے مظالم گنواتے۔ بین شروع ہوتا، تَبّرے کا باب کُھلتا تو بس مولا دے اور بندہ لے۔ الطاف کشمیری کو چپ کرانا، نشاط فاطمہ کو فارسی بلوانا تھا۔ جب بھی الطاف میاں ہندوستان کے خلاف تَبّرے بازی کرتے نشاط فاطمہ پہلے تو جزبز ہوتی اور پھر ترکی بہ ترکی جواب دینے لگتی، ’’الطاف بھائی! بھارت اتنا ہی برا ہے تو آپ سرکاری نوکری کیوں کررہے ہیں؟ کشمیر کے بجائے چندی گڑھ میں کیوں رہ رہے ہیں؟ بھارت کے پاسپورٹ پر وظیفے پر ایران کیوں آئے ہیں۔‘‘

میرے لیے نشاط فاطمہ کا یہ روپ بالکل ہٹ کر تھا۔ ہنسی ہی نہیں اس کا تو غصہ بھی بڑا بھرپور تھا۔ آستینیں چڑھائے ہندوستان کی حمایت میں وہ وہ دلیلیں لاتی کہ کچھ دیر کو تو الطاف میاں بھی دم بخود رہ جاتے یا شاید یہ سوچ کر چپ ہوجاتے کہ جا! بچی سمجھ کر چھوڑ دیا، لیکن نشاط فاطمہ کا جوش ختم نہ ہوتا۔ وہ ’’میرا بھارت مہان‘‘ کا راگ الاپتی رہتی۔

چودہ اگست تھی۔ لاہوری مُنڈوں نے سفید شلوار قمیص، سیاہ واسکٹ زیب تن کیے، پاکستانی پرچم کے بیج نہ صرف خود لگائے بل کہ تُرکوں، چینیوں، بلغاریوں، جرمنوں، امریکیوں یہاں تک کہ ہندوستانیوں میں بھی بانٹے۔ جی ہاں! ان سب قوموں کے لوگ شہید بہشتی یونی ورسٹی میں جمع تھے۔

میں شاید بتانا بھول گیا۔ چوالیس ملکوں کے ڈھائی سو طالب علم تھے۔ یعنی تقریباً پوری دنیا کی نمائندگی۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ لاہوری مُنڈے کوئی دو تین درجن بیج لائے تھے۔ تُرکوں اور چینیوں نے تو فوراً بیج لگالیے۔ ہندوستانی لڑکوں نے لے کر رکھ لیے۔ کشمیریوں کے علاوہ باقی ہندوستانی لڑکے پاک بھارت معاملات پر ذرا کم ہی بولتے تھے۔ لاہوریوں نے ہندوستانی گروپ کو تیار کرلیا کہ آج برصغیر ایک ہی بس میں سفر کرے گا۔ ایرانی اساتذہ سے درخواست کی تو اجازت بھی مل گئی۔ آج ہمارا سفر تھا امام خمینی کی آرام گاہ کی طرف۔

بس چلی اور لڑکے شروع ہوگئے،’’پاک سرزمین شاد باد۔‘‘ پھر جس کو جو مِلّی نغمہ یاد تھا گایا گیا۔ ایرانی ٹی وی کے کیمرا مین اور رپورٹر بھی اسی بس میں تھے۔ سب کچھ ریکارڈ ہورہا تھا۔ اچانک الطاف کشمیری کو جوش آگیا۔ نعرۂ تکبیراﷲ اکبر، نعرہ رسالت، نعرہ حیدری۔۔۔۔ یہاں تک سب نے آواز میں آواز ملائی۔ پھر لاہوری لڑکوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تو الطاف کی رگ پھڑک اٹھی،’’ہم لے کے رہیں گے آزادی۔۔۔ تمہیں دینی پڑے گی آزادی۔۔۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی۔ بھارت سرکار مُردہ باد، ہندوستانی فوج مردہ باد۔‘‘

اب صرف الطاف کی آواز گونج رہی تھی۔ لاہوری مُنڈوں کو بھی ماحول میں تناؤ کا احساس ہوا اور وہ خاموش ہوگئے۔ ہندوستانی لڑکے سہمے سہمے، چُپ چُپ۔ نشاط فاطمہ کا چہرہ غصے اور دُکھ سے بھرگیا، آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اچانک وہ کھڑی ہوئی اور الطاف پر برس پڑی، ’’الطاف بھائی! آپ کو کچھ احساس ہے یا نہیں۔ دیکھیں یہ سب ریکارڈ ہورہا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ ہم سب پر پابندی لگ جائے! دلی ایئرپورٹ پہنچتے ہی گرفتار ہوجائیں؟ آپ کشمیریوں نے تو ہمارا جینا بھی دوبھر کردیا ہے۔ آخر ہندوستان نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘

چیختے چیختے نشاط فاطمہ کی آواز بھراگئی۔ بس میں سناٹا چھا گیا۔ اس سے پہلے کہ نشاط اپنی سیٹ پر گرجاتی۔ میں کھڑا ہوا۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے لاہوری منڈے کھڑے ہوگئے۔ میری آواز میں آواز ملانے لگے۔ پھر ہندوستانی لڑکوں کی آواز ابھری،’’ہم بُلبُلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا۔‘‘ نشاط فاطمہ ہنس پڑی۔ سارا ماحول بدل گیا۔ پوری بس مسکرانے لگی۔

ادھر گیورگی معرکے پر معرکے مار رہا تھا۔ دو تین حسین ترین لڑکیوں سے دوستی۔ ایک سے باقاعدہ ڈیٹ۔ شہید بہشتی یونی ورسٹی میں لڑکے لڑکیوں کے ہاسٹل الگ تھے۔ لیکن کلاسوں یا ریستوراں آتے جاتے ملاقات ہوجاتی۔ راستے میں چھوٹے بڑے چمن زار بھی تھے۔ کوئی کہیں مل بیٹھے تو کسی کو اعتراض نہیں۔ بس اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، لیکن گیورگی شکاری کے لیے پھول پھلواری میں اونچی نیچی باڑھیں بھی تھیں۔ وہ کچھ نہ کچھ کام چلاہی لیتا۔ میخائل فطرتاً شرمیلا تھا۔

کسی لڑکی سے دوستی نہ کرسکا۔ اس کے لیے پاکستانی بڑے بھیا کی پناہ ہی کافی تھی۔ میں بھی چھوٹے بھائی کی طرح خیال رکھتا۔ جو کھاتا پہلے اس سے پوچھتا۔ اسے کبھی بِل چُکانے نہ دیتا۔ اپنے گروپ کے ساتھ باہر جاتا تو میخو میاں بھی ساتھ ساتھ۔ مجھے ایک دوروز کے لیے مشہد جانا تھا۔ فلائٹ تھی رات تین بجے۔۔ سوچا سوگیا تو مس نہ ہوجائے۔۔ میں جاگ رہا تھا کہ دیکھا میخو بھی گیلری میں ٹہل رہا ہے۔ ’’میخو چرا بیدار ای‘‘ میں نے جاگنے کا سبب پوچھا تو اس نے بہانہ بنادیا کہ نیند نہیں آرہی، لیکن راز اس وقت کھلا جب وہ لاکھ منع کرنے کے باوجود ڈیڑھ بجے میرا بیگ اٹھا ئے نیچے تک آیا اور آنسو بھری آنکھوں سے الوداع کہا۔ میخو کو بھائی سے دو دن کی جدائی بھی شاق تھی۔ اس کی محبت پر میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔

تہران واپسی پر پھر کلاسیں شروع ہوگئیں۔ اب نشاط فاطمہ سے میری اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ خوب گپیں لگتیں۔ ہندوستان پاکستان کے قصے بھی ہوتے اور قضیے بھی۔ گھروالوں کی باتیں بھی ہوتیں، کھانوں کی بھی، کپڑوں کی بھی، اور کبھی کبھار سیاست بازی بھی۔ نشاط کو بھی ہندوستانی سرکار سے شکایتیں تھیں، مسلمانوں سے رویے پر اسے بھی غصہ آتا، لیکن تھی پکی محب وطن، ہندوستان کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتی تھی۔میرا ویزا ختم ہورہا تھا اور کل مجھے واپس جانا تھا۔ ہندوستانی پاکستانی گروپس نے فیصلہ کیا کہ رات کو الوداعی پارٹی ہوگی۔ پارٹی وارٹی تو کیا ہونا تھی یونیورسٹی کے ریستوراں سے کھانا کھایا اور بیٹھ گئے ایک باغیچے میں۔

’’چلو بھائی انتاکشری ہوجائے۔‘‘ تجویز میری ہی تھی۔ پہلے میری باری۔ الطاف میاں کھڑے ہوگئے۔ رات کا سناٹا، دانش گاہ کی دبیز خاموشی۔ الطاف نے کشمیری گانا چھیڑدیا۔ موصوف کے سُر تو نہیں لگ رہے تھے، لیکن آواز میں درد بہت تھا۔ الاپ اتنا اونچا کہ سناٹے کی چادر چٹخ گئی۔ باغیچے میں بیٹھے کئی لوگ متوجہ ہوگئے۔ ایک جرمن لڑکی تو موبائل سے ویڈیو بنانے لگی۔ میں نے لاہوری مُنڈے کے کان میں کہا،’’اب روک کے دکھاؤ کشمیری کو۔‘‘

الطاف کی آواز اور بلند، لہجہ اور پُرسوز ہوگیا۔ ’’چلو بھئی اب نشاط فاطمہ کی باری۔‘‘ میں نے مہمان خصوصی کا استحقاق استعمال کرتے ہوئے الطاف کو روکا۔ ہاں ہاں چلو نشاط شروع ہوجاؤ۔ سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ہاں بھائی نشاط کی آواز تو بہت شان دار ہے۔ وہی گانا سناؤ جو ہاسٹل میں گایا تھا۔ ثمینہ آپی نے پرزور فرمائش کرڈالی۔ نشاط شرماتے لجاتے رضامند ہوگئی۔ اب جو اس نے تان بھری تو میں حیران رہ گیا۔ اتنی مدھرآواز، اتنا سوز اتنا سُر۔ یوں لگا جیسے چھوٹی لتا گارہی ہے۔ نشاط کی آواز حیران کُن تھی۔

ارد گرد جتنے ملکوں کے لوگ بیٹھے تھے سب جمع ہوگئے۔ پاک وہند کی محفل اقوام متحدہ بن گئی۔ نشاط سے ایک کے بعد ایک فرمائشیں ہونے لگیں، اور وہ گاتی رہی۔۔ اسے بہت گانے یاد تھے۔ فلمی بھی غزلیں بھی۔ ثمینہ آپی کی فرمائش پر اس نے فیض بھی سنایا۔ تُرک لڑکیوں نے بھی کئی فلمی گانوں کی فرمائش کی۔ نشاط نے وہ بھی سنائے۔

رات بھیگتی جارہی تھی۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن جانا بھی تھا۔ نشاط کی آواز میں بھی تھکن نمایاں تھی۔ ’’چلو بھئی محفل برخواست۔‘‘ میں نے اعلان کیا۔ سب نہ چاہتے ہوئے اٹھے۔ مجھ سے بڑھ بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ گلے ملے۔ رابطے میں رہنے کے وعدے ہوئے۔

رات کی تاریکی میں ہم سب کو پیدل اپنے اپنے ہاسٹل جانا تھا۔ اب صرف ہندوستان پاکستان کا گروپ رہ گیا تھا۔ لطیفے ہورہے تھے۔ قہقہے لگ رہے تھے۔ اچانک لاہوری لڑکوں نے ’’پاک سرزمین شادباد‘‘ شروع کردیا۔ سب نے آواز میں آواز ملائی۔ شہید بہشتی کی فضا گونج اٹھی۔

ہندوستانی پاکستانی سب گارہے تھے اور سب سے بلند آواز بریلی کی نشاط فاطمہ کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔