بے نظیر: ایسا کہاں سے لائیں

زاہدہ حنا  اتوار 27 دسمبر 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بے نظیر بھٹو جیسے رہنما کہنے کو کسی ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ملک کا اور بعض حالات میں ساری دنیا کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ نصرت بھٹو کی رہنمائی میں بے نظیر نے پیپلزپارٹی کا پرچم سنبھالا۔ اس وقت ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور بے نظیر بھٹو اس کڑے امتحان میں کامیاب ہوں گی یا نہیں، جس سے نہایت بے رحم وقت نے انھیں دوچار کردیا تھا۔

1988 میں مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم منتخب ہونے سے اپنی رخصت تک وہ سنگین حالات سے گزریں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 1979 میں بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد سے اپنی آخری سانس تک ایک سیاست دان، ایک مدبر اور رہنما کا مشکل سفر انھوں نے حوصلے اور استقامت سے طے کیا۔ مسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیراعظم ہونے کی بنا پر انھوں نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی تھی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ سیاست کے عالمی منظرنامے میں اہمیت اختیار کرتی گئیں۔ جمہوریت کے لیے ان کی استقامت نے ان کے مخالفوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ایشیا اور عالمی سیاست میں ان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کریں۔

ان پر کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں کرسٹینا لیمب کی ’ویٹنگ فار اللہ‘ اور ’الوداع شہزادی‘ کو بہت شہرت ملی۔ پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کیے جانے کے بعد پیپلزپارٹی نے ان کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران کی جانے والی تقریروں کو مرتب کرکے شائع کیا۔ یہ تقریریں مختلف موقعوں پر کی گئیں۔ بہ ظاہر یہ وزیراعظم کی تقریر لکھنے والوں کے جملے ہیں لیکن بے نظیر جیسی خودمختار اور ایک آزاد ذہن رکھنے والی وزیراعظم کے ذاتی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے پہلے دور وزارت میں بھی ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ رٹو طوطے کی طرح تقریر نویس کے لفظ دہراتی جائیں اور بیورو کریسی کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔

پیدائش کے بعد سے انھیں وہ ماحول اور تعلیم ملی جو ہمارے طبقہ اعلیٰ کے بچوں کے لیے ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔ انھوں نے انگلستان کے کھلے ہوئے اور جمہوری ماحول میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ادارے جن میں پڑھنا لوگوں کے لیے خواب کی بات ہے، بے نظیر ان تعلیمی اداروں سے وابستہ رہیں۔ وزیراعظم باپ ذوالفقار علی بھٹو، ہندوستانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے ایک نہایت مشکل سمجھوتے کے لیے ہندوستان گیا تو وہ باپ کے ساتھ تھیں۔ انھیں مسز گاندھی جیسی نامی گرامی اور عالمی شہرت یافتہ سیاست دان کو دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا اور انھوں نے شملہ معاہدہ ہوتے دیکھا۔

باپ گرفتار ہوئے، ان پر ایک جھوٹا مقدمہ چلا تو وہ نصرت بھٹو کی ہمراہی میں باپ سے ملنے جاتی رہیں اور یہ بھی ان پر گزری کہ باپ کو پھانسی ہوئی، ان کی میت راولپنڈی سے نوڈیرو لے جائی گئی لیکن ان کی ماں اور وہ خود اس شخص کے آخری دیدار سے بھی محروم رکھی گئیں جو بیسویں صدی کے نصف آخر کی عالمی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتا تھا۔ انھوں نے قید اور قید تنہائی گزاری ، جلاوطنی کے دنوں میں انھوں نے اپنے جوان اور چہیتے بھائی کو دیکھا جس کا بدن زہر سے نیلا پڑگیا تھا۔ وہ اس کی میت لے کر پاکستان آئیں اور اسے تنہا سپرد خاک کرنا ان کا مقدر ٹھہرا۔

ان کی تقدیر میں یہ صدمہ سہنا بھی لکھا تھا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے پر ہوں اور ان کا کڑیل جوان بھائی اپنے گھر کی دہلیز پر گولیوں سے چھلنی کردیا جائے اور اس کے چاہنے والوں میں سے بہت سے اس کا قتل نامہ ان کے نام لکھیں۔ اس کے بچے اپنی پھوپھی سے نفرت کریں اور یوں بھٹو خاندان کے دشمنوں کی یہ سازش کامیاب رہی کہ یہ خانوادہ ایک نہ ہونے پائے اور اس کا شیرازہ بکھر جائے۔

بھٹو خاندان کی زندگی کو دیکھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی یونانی المیے کو دیکھ رہے ہیں۔ تقدیر کی وہی سفاکی اور ہولناکی اور اس کے شانہ بہ شانہ ہاتھ ملتی ہوئی تدبیر جو بے اثر رہتی ہے۔

بے نظیر نے وہ صدمات سہے جن میں سے کچھ ہم سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں اور ان کے سینے میں ایسے خنجر بھی اترے جن سے خود انھوں نے بھی آنکھیں چرائیں۔ وہ ایک ایسی سیاستدان تھیں جو کڑی صعوبتیں سہنے کے بعد عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آئیں۔ عورتوں کے لیے پاکستان جیسے بند سماج میں ان کے ووٹروں نے معجزہ کر دکھایا اور وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پہنچیں۔ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی اور پاکستان ایک ایسا جزیرہ تھا جس کے گرد اقتدار کے بھوکے مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے گھومتے تھے۔ ان کی پہلی حکومت دسمبر 1988ء سے اگست 1990ء تک چلی اس کے بعد وہ معزول کردی گئیں۔

19 مہینے کی یہ مدت ایسی تھی جب بے نظیر اقتدار کی غلام گردشوں میں چلنا اور حکومت کرنا سیکھ رہی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان کے اندر انقلاب کا اور غریبوں کی زندگیاں بدل دینے کا رومان زندہ تھا۔ اس دور کی ان کی تقریریں پڑھئے تو لطف آتا ہے۔ عذاب اور اذیتیں سہنے والی بے نظیر کا انقلابی وفور ضلع اسلام آباد کے گاؤں پڈھانا کلاں میں نظر آتا ہے جہاں وہ 26 اپریل 1989ء کو ساڑھے تین میل کی ایک سڑک کا افتتاح کرنے گئی ہیں۔

وہاں وہ لوگوں سے کہتی ہیں کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہ چھوٹا سا گاؤں اسلام آباد کا حصہ ہے۔ اسلام آباد جس میں زندگی کی تمام سہولتیں مہیا ہیں۔ شاہانہ عمارتیں، بڑے بڑے نجی اور سرکاری اسکول ، شاندار دکانیں اور ڈپارٹمنٹل اسٹور ۔ یہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی شان و شوکت اور چکاچوندکا مقابلہ کرتے ہیں۔ ایسے میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے ان تمام سہولتوں سے مستفید ہوتے ہوں اور اپنے ان بھائیوں کی تقدیر کے بارے میں غور بھی نہ کریں جو تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

پیپلزپارٹی قائم ہوئی اور بھٹو صاحب ’روٹی کپڑا اور مکان، مانگ رہا ہے ہر انسان ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے لیاری پہنچے تو وہ اور ان کی پارٹی لیاری والوں کو جان سے عزیز ہوگئی۔ لیاری والے ذوالفقار علی بھٹو اور بھٹو خاندان کے جاں نثار بن گئے۔ اپنے پہلے دور حکومت میں بے نظیر 27 اپریل 1989ء کو لیاری نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھنے گئیں تو انھوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لیاری کے لوگ ، ہمیشہ جمہوری جدوجہد کا ہر اول دستہ رہے اور انھیں لاٹھیاں اور گولیاں کبھی نہیں ڈرا سکیں۔

لیاری کے غریب لوگوں نے انسانی حقوق کے لیے جو جدوجہد کی ، ساری دنیا اس سے واقف ہے۔ لیاری کی تنگ گلیاں ہماری شاندار تاریخ کی گواہی دیتی ہیں۔ اس کے صحن جمہوری تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور اس کے نوجوانوں نے ہمیشہ سچ کا سامنا کیا ہے۔ لیاری وہ واحد جگہ تھی جہاں لوگوں کو اس بنیاد پر قتل نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ مختلف زبان بولتا ہے، یا کسی دوسرے صوبے یا نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ لیاری کے لوگوں نے اس طرح کی نفرت کو کبھی اپنے علاقے میں آنے کی اجازت نہ دی۔ اس روز بے نظیر نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔ ان کے سادہ جملے دل سے نکلے تھے اور لیاری والوں کے دل میں اترے تھے۔

اپنے پہلے دور حکومت میں ان کی تقریریں ان کے خوابوں کی جھلک دکھاتی ہیں۔ کبھی وہ اکیسویں صدی کے آغاز سے 10 برس پہلے لوگوں سے کہتی ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑے ہیں اور ہمیں اس کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے انیسویں صدی کے فرسودہ خیالات اور رویوں کو ترک کرنا ہوگا۔ اپنی ان تقریروں میں کبھی وہ کراچی میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مضطرب نظر آتی ہیں اور کبھی گوادر فش ہاربر پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس یقین کا اظہار کرتی ہیں کہ اپنی تکمیل کے بعد یہ پروجیکٹ گوادر کے لوگوں کی زندگی میں قابل رشک تبدیلی لائے گا۔

جلاوطنی کا ایک طویل دور گزار کر جب وہ وطن واپس آئیں تو ایک بدلی ہوئی انسان تھیں۔ میثاق جمہوریت تخلیق کرنے کے بعد وہ سیاستدان سے زیادہ ایک مدبر، ایک رہنما بن چکی تھیں۔ ان کے خیالات میں انقلابی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ وہ جس شان سے لوگوں کو جمہوری جدوجہد سے جوڑنے کے لیے نکلی تھیں اس کے بعد اسٹیٹس کو کی طاقتیں بھلا انھیں کیوں کر برداشت کرسکتی تھیں۔

وہ جس سفاکی سے قتل کی گئیں اسے پاکستان کی تاریخ میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ان کا یوں بھری محفل سے اٹھ جانا صرف پیپلزپارٹی کا نہیں، پاکستان کے ہر اس شخص کا نقصان تھا جو پاکستان کو جمہوری راستے پر گامزن دیکھنا چاہتا تھا۔ آج کے دن ان کو یاد کرتے ہوئے اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ’’ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔