مبارک ہو! آپ کا 25ہزار روپے کا انعام نکل آیا

رحمت علی رازی  اتوار 27 دسمبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ابتداء کیونکر ہوئی یہ بھی ایک سربستہ راز ہے۔ ظاہراً تو یہ پروگرام پاکستان کے آفریدئہ غربت کی استعانت کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن اس کے درپردہ حقائق چشمِ عوام سے اب تک پوشیدہ وپنہاں ہیں۔فی الحقیقت یہ ورلڈ بینک کا پاورٹی اسکور منصوبہ ہے جس کی فنڈنگ امریکا، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے کی گئی۔

اس منصوبے کا ٹھیکہ بھی اسمارٹ کارڈ کی طرح نادرا کو دیا گیا جس کی فرنچائزنگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر پاکستان کے یکتا زیرک سیاستدان آصف علی زرداری بھٹو کو بطورِ تحفۂ خاص تفویض کی گئی ‘ بی آئی ایس پی کے ذریعے ہر مفلوک الحال پاکستانی کی غربت کا بھاؤ صرف اور صرف 12 ڈالر مقرر کیا گیا۔

اِس مرتبہ بائیو میٹرک اسمارٹ شناختی کارڈ اور ایسے ہی متعدد پراجیکٹس کی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سہولت کار رحمان ملک نہیں بلکہ زرداری دورِ حکومت کے وزیرخزانہ سینیٹر اسحق ڈار تھے جنھوں نے ورلڈ بینک کے ایماء پر بی آئی ایس پی کا دائرئہ عمل وضع کیا اور (بمطابق سرکاری اعدادوشمار) خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ملک کی 22 فیصد غریب الغرباء آبادی کو ایک ہزار روپے کی ماہانہ سرکاری بھیک دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو بھی اِس بل کی پارلیمان میں قانونی حمایت پر راضی برضا کر لیا۔یہاں یہ واضح کردیں کہ 22 فیصد سرکاری شماریات ہیں جب کہ صحیح معنوں میں خط ِ غربت سے نیچے کی آبادی 65 فیصد ہے۔

اس ساری حقیقت کی اصل جزئیات کو محدب عدسہ سے دیکھا جائے تو اسحق ڈار زرداری اور نوازحکومت کے مالیاتی عامل کے طور پر عالمی بینک کے نقدی گماشتہ کے کردار میں ملبوس نظرآئینگے۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پسِ پردہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ امریکا اور یورپین یونین نے 2007ء میں تیسری دنیا ‘ بطورِ خاص مسلمان ممالک کے لیے ایک امیگریشن پالیسی مرتب کی تھی ۔

جسکے ذریعے فقط مالدار اور صاحبِ حیثیت لوگوں کو مغربی ملکوں میں انٹری دینے اور مفلس، پسماندہ، بیروزگار، ناخواندہ اور مجموعی طور پر خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے افراد کا امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ اور مغربی دُنیا میں مستقل طور پر داخلہ بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ صلیبی سماج کو دس برس پہلے یہ فکر لاحق ہوئی تھی کہ غریب دیسوں کی ناکارہ افرادی قوت جعلی کاغذات، بوگس اسٹیٹ منٹس اور انسانی اسمگلروں کی کاریگری کی بدولت امریکا اور مغرب تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔

اس کا راستہ روکنے کے لیے اس نے ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ اور مختلف غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے ایسے متعدد پروگرام شروع کروائے جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ ترقی پذیر ممالک کی مفلوک الحال آبادی سے ہے۔ ایسے افراد کا ڈیجیٹل ڈیٹا بیس اکٹھا کر کے ان ہی کے ملکوں میں قائم مغربی سفارتخانوں کو فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ جب بھی ان ممالک کے ویزا کے لیے درخواست دیں تو ویزا سیکشن کو فوراً معلوم پڑ جائے کہ یہ وہی غریب لوگ ہیں جو انکم سپورٹ فنڈ سے مستفیض ہو رہے ہیں۔

ماضی میں جتنی بھی فلاحی اسکیمیں پاکستان کے اندر لانچ کی گئیں اور جو آج بھی جاری وساری ہیں ان کے پیچھے صرف پاکستان کے نچلے طبقہ کے اعدادوشمار اکٹھے کرنے کا مقصد کارفرما رہا ہے۔ پنجاب اور پختونخوا میں جو سستی روٹی اسکیم شروع کی گئی وہ بھی کچھ ایسا ہی پروگرام تھا مگر یہ پروگرام اسلیے بند کروا دیے گئے کہ جن غریب عوام کو سستی روٹیاں فراہم کی گئیں ان کا ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیاتھا۔اس مد میں پنجاب نے جو 28 ارب روپے کی سبسڈی تندوروں میںجھونک دی اس کا بھی کسی کو فائدہ نہ ہوا۔

کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ جو اربوں روپے کی سبسڈی سستے آٹا کی مد میں دی گئی وہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے خزانہ سے اٹھی تو یہ جناب کی بھول ہے‘ صداقت یہ ہے کہ یہ سارا پیسہ عالمی بینک نے فراہم کیا اور یہاں تاثر یہ دیا گیا کہ حکومت نے یہ سبسڈی اپنے پلے سے ملک کے اغربان کے لیے دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پیسہ حکومت نے اپنے پلے سے دیا مگر اس کام کے لیے جو فنڈز اسے ورلڈ بینک کی طرف سے ملے تھے وہ وزیروں مشیروں کی جیب میں چلے گئے‘ اس طرح ورلڈ بینک والے بھی شاداں ہوگئے کہ ان کا پروگرام روبہ عمل ہوا اور کسی کو تشکیک بھی نہ ہوئی کہ ایسی اسکیموں کے لیے مال کس نے فراہم کیاتھا۔

انکم سپورٹ اور سستی روٹی کی اسکیمیں صرف پاکستان ہی میں نہیں چلائی گئیں بلکہ ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں آج بھی چل رہی ہیں۔ مصر میں سستی روٹی پروگرام امریکا کی مدد سے پچاس سال پہلے شروع کیا گیا تھا مگر حسنی مبارک کے دور میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب فوجی پس منظر کے حامل صدر عبدالفتاح السیسی نے اس نیکی کے کارے کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔

مصر کے اب تک 17صوبوں کے نئے غریبوں کو سستی روٹی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح اسمارٹ کارڈ جاری کیے گئے جن کے حاملین کے خاندان کی ساری معلومات مصر میں قائم امریکن اور مغربی سفارتخانوں کے پاس محفوظ ہیں‘ اب یقینا یہ سستی روٹیاں پھاڑنے والے مصری مغربی ممالک کا ویزاکبھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔

بینظیر انکم سپورٹ فنڈ بھی ایک گرینڈ مدر پلان کی حیثیت رکھتا ہے جو بذاتِ خود بھی ایک ہزار روپے کی بھیک دیتا ہوا روٹی، کپڑا اور مکان کے ایک کروڑ متلاشیوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے اور اس کے زیرشِدہ شروع کیے گئے وسیلۂ حق، وسیلۂ روزگار، وسیلۂ تعلیم ار وسیلۂ صحت جیسے پروگرام بھی پچاسوں لاکھ غریب گھرانوں کو اپنے دام میں پھانس چکے ہیں۔ یہ حلقۂ صیاد اگر اسی طرح رواں بہ وقت رہا تو کوئی بعید نہیں کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی اس خفیہ تدبیر کے طوق میں جکڑ بند نہ کر لی جائے۔

جن خوش نصیبوں کے بی آئی ایس پی یا دیگر کسی وسیلہ کے ضمن میں اسمارٹ کارڈ بن چکے ہیں ان کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ وہ خواب میں بھی کسی عیسائی اقلیم کے ویزا کے لیے اپلائی نہ کریں کیونکہ ان کی آیندہ نسلوں کا ویزہ بھی بلاک ہو چکا ہے۔

بی آئی ایس پی کے بینر تلے مزید کئی منصوبے آیندہ دوسالوں میں حکومت کی طرف سے سامنے آسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ ان منصوبوں کے کلیدی سرمایہ کارامریکا، برطانیہ اور جرمنی ہیں‘ وزیر مملکت برائے قومی صحت سائرہ افضل تارڑ کی سربراہی میں ترتیب دیا گیا وسیلۂ صحت پروگرام بھی ان ہی تینوں ممالک کے فنڈز پر منحصر ہے‘ اس پروگرام سے شروعات میں ایسے 30لاکھ خاندانوں کو مستفید کیا جائے گا جن کی یومیہ آمدنی 200 روپے سے کم ہے۔

ان غریب اور مستحق خاندانوں کا ریکارڈ نادرا فراہم کریگا۔ اس پروگرام کے مشیر‘ چیئرمین نجکاری کمیشن محمدزبیر ہیں جن کی مفید تجاویز پر وزیراعظم کے نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے‘ جس کے لیے اسٹیٹ لائف کارپوریشن کو منتخب کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام جرمنی کے اشتراک سے چلایا جائے گا‘ اب تک اس کے جتنے بھی اجلاس ہوئے ہیں ان میں وزارتِ صحت، قانون اور خزانہ کے سیکرٹریوں کے ساتھ ساتھ جرمن سفارتخانہ کے نمایندوں نے بھی بطور خاص شرکت کی ہے۔

وسیلۂ صحت پروگرام کی ابتداء آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے 23 اضلاع سے کی جائے گی اور اس پروگرام کے تحت خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے مریضوں کا مفت علاج ہو گا اور انہیں چھوٹی بیماریوں کے لیے سالانہ 50 ہزار اور بڑی بیماریوں کے لیے 2 لاکھ 50 ہزار روپے دان کیے جائینگے۔ نئی لانچ ہونے والی متوقع اسکیموں میں ایک منصوبہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی سٹرٹیجی کابھی ہے جو غذائی عدم تحفظ سے متعلق ہو گا۔

ولایت کے لیے کام کرنیوالی ایک مقامی این جی او نے 2010ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے تعاون سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جسکے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 48.6 فیصد حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور ملک کے 131اضلاع میں سے 80 اس بیماری کا شکار ہیں جب کہ ان میں سے بھی 45 اضلاع کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے نمایندے وولف گانگ نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا منصوبہ بی آئی ایس پی کے تحت آگے بڑھانا چاہتے تھے جو آج تک التوا کا شکار ہے تاہم اب اسے گرین سگنل مل چکا ہے۔

پاکستان میں چل رہی حالیہ اور مستقبل کی جملہ اسکیمیں ورلڈ بینک کے پاورٹی اسکور منصوبے کا حصہ ہیں جس کے لیے ڈیٹا بیس اکٹھے کرنے اور اسمارٹ کارڈز جاری کرنے کے لیے نادرا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ان منصوبوں پر اسلام آباد میں بیٹھی کچھ خاص ممالک کی ایمبیسیاں کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ انھیں جو اعداد وشمار فراہم کیے جائیں ان میں کوئی مبالغہ شامل نہ ہو۔

ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ نے اپنے کچھ منصوبوں کے کارڈز کا ٹھیکہ تو نادرا کو دیا ہے‘ بہ ایں ہمہ اسے کینیا کے لیے پاسپورٹ اجراء کے نظام، بنگلہ دیش کے لیے ہائی سیکیورٹی ڈرائیونگ لائسنس، سوڈان کے لیے سول رجسٹریشن مینجمنٹ سسٹم، یو این ایچ سی آر کے لیے سکیور کارڈ پراجیکٹ برائے افغان پناہ گزین، سسٹم انٹیگریشن سروسز اور نائیجیریا کے لیے شناختی دستاویز وغیرہ کے منصوبوں کے ٹھیکے بھی دلوا دیئے ہیں تاکہ ایک طرف تو یہ تاثر جائے کہ نادرا بطورِ خاص ورلڈ بینک یا اقوام متحدہ کے لیے کام نہیں کر رہا بلکہ دوسرے کئی ممالک کے پراجیکٹس بھی کر رہا ہے‘ دوسرے یہ کہ ان ممالک کو ورلڈ بینک اپنے نیٹ میں لانا چاہتا ہے مگر وہاں بائیومیٹرک شناخت کا نظام موجود نہیں ہے۔

بینظیرانکم سپورٹ پروگرام اب کوئی عام منصوبہ نہیں رہا‘ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے سال 2015-16ء کے بجٹ میں اس کی کل زر کا حجم 102 ارب کر دیا ہے۔ جب یہ منصوبہ پاکستان میں داخل ہوا براں وقت امریکی ڈالر کی پاکستانی قیمت 76.93 روپے تھی اور جب اسے نیابتاً عملی جامہ پہنایا گیا تب ڈالر 86.34 روپے پر پہنچ چکا تھا۔ 10 ارب روپے سے شروع کیے جانے والے اس غربت کشا پروگرام کو بعدازاں35اور پھر 40 ارب روپے کی اسکیم میں بدل دیا گیا اور اس کا اولین تخمینہ فی مفلس خاندان 13 ڈالر لگایا گیا جو ایک ہزار روپے کی مالیت کے برابر بنتا تھا تاہم بی آئی ایس پی بِل کے اسمبلی سے پاس ہونے تک ڈالر کی قیمت 7 روپے مزید چڑھ گئی۔

اس طرح فی خاندان مختص خیرات 13ڈالر کے بجائے 12ڈالر کر دی گئی۔ 2013ء میں نوازلیگ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد وفاقی وزیرخزانہ نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر وزیراعظم نے انھیں بینظیر شہید کے نام سے ہی اس پروگرام کو جاری رکھنے پر زور دیا۔

اسحق ڈار کو اس بات کا رنج تھا کہ 2008ء میں جب نون لیگ زرداری حکومت کا حصہ تھی تو اس وقت انھوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے انکم سپورٹ فنڈ کا منصوبہ اصحابِ حاجت کی غیرسیاسی بنیادوں پر اضافی مدد کے لیے تیار کیا تھا مگر بدقسمتی سے بعد میں یہ پروگرام اپنی اصل روح سے ہٹ گیا اور اس میںسیاسی آلودگی شامل ہو گئی۔ اسحق ڈار نے عوام کی سرنوشت بدلنے کے لیے بلندوبانگ دعویٰ تو کیا کہ اس پروگرام میں پیدا ہونیوالے بگاڑ کو دُور کر کے اس میں سدھار لایا جائے گا اور اس کی تنظیم اور ڈیزائن میں تبدیلیاں کر کے اسے مزید موثر بنایا جائے گا تاکہ لوگ ہمیشہ اس پر انحصار کرنے کے بجائے اس کی مدد سے اپنی تنگدستی دور کرسکیں مگر افسوس کہ وزیرخزانہ صاحب اس میں صرف اتنی ہی تبدیلی لاپائے کہ 40ارب کی رقم کو بڑھا کر 75 ارب کر دیا اور مستحقین کو1 ہزار کے بجائے 12سو روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا۔

آصف علی زرداری نے جب صدارت کا عہدہ سنبھالا تو اپنے جیالوں کو نوازنے کے لیے بی آئی ایس پی کا افتتاح ایسے انداز میں کیا اور ایسا تاثر دیا کہ جیسے اب پاکستان میں کوئی غریب نہیں رہیگا اور اس 1 ہزار روپے کی ماہانہ بھیک سے ہر بھوکا پیٹ بھر کر کھانا کھائے گا، ہر ننگا تن ڈھانپ سکے گا اور ہر بے گھر کو اپنی چھت نصیب ہو جائے گی۔ ابتداء میں خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے افراد میں سے 30لاکھ صاحبانِ خانہ کا بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے کا ٹارگٹ رکھا گیا جس کے لیے 2008ء کے مالی سال میں 35 ارب روپے مختص کیے گئے۔

یہ 30لاکھ افراد پاکستان کے ہر صوبہ کے علاوہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات سے منتخب کیے جانے کا دعویٰ تھا مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ ان میں زیادہ تر اندرون سندھ کے وہ ووٹر تھے جن کا ووٹ ہر الیکشن میں پیپلزپارٹی کے مخالف امیدواروں کو پڑتا تھا۔ سب سے بڑی شعبدہ بازی اس پروگرام کے ذریعے یہ کی گئی کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا اور پارلیمنٹ کے ہررکن کو آٹھ ہزار فارم دینے کا وعدہ بھی کیا گیا مگر بعد میں یہ فارم خفیہ طور پر صرف پیپلزپارٹی کے ارکانِ پارلیمان ہی کوبانٹے گئے۔

بی آئی ایس پی سے پیپلزپارٹی نے دہرا فائدہ اٹھایا‘ ایک تو اس سپورٹ فنڈ کا نام بینظیر کے نام پر رکھا گیا اور اگر اتحادی جماعتیں (نون لیگ اور قاف لیگ) اس کے فارم اپنے ارکان کے ذریعے اپنے ووٹروں میں بانٹتیں تو بھی اس کا زیادہ تر فائدہ زرداری ہی کو ہوتا‘ دوسرے یہ کہ زرداری نے بھی ان فارمز کو اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کے لیے ہی استعمال کیا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بہت سے ارکان نے اپنے اپنے حلقوں اور یونین کونسل کی سطح پر ایسے متعدد افراد کی نشاندہی کی جو اس امداد کے لیے مستحق نہیں ٹھہرتے تھے لیکن بعد میں ان لوگوں کے بی آئی ایس پی کارڈ بھی بن گئے۔

جس طمطراق سے یہ اسکیم شروع ہوئی تھی اس روح کے ساتھ جاری نہ رہ سکی‘ اس پر تنقیدی نظر ڈالنے سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ پروگرام کافی حد تک پیچیدہ اور غیرشفاف ہے اور آج تک سیاسی شعبدہ بازی کا شکار ہے۔ آصف زرداری نے بی آئی ایس پی کا افتتاح کرتے ہوئے جو وعدہ کیا تھا وہ بھی سیاسی بیان ہی ثابت ہوا کیونکہ کہا تو یہ گیا تھا کہ یہ پروگرام غیرسیاسی بنیاد پر ہو گا اور تمام سیاست سے بالاتر اور بلاتفریق وامتیاز ہر ایک مستحق خاندان کے لیے ہو گا مگر وقت نا وقت بھی ایسا نہیں ہو سکا‘ اس کے کرتا دھرتا سب کے سب پیپلزپارٹی کے اربابِ اختیار تھے جو اپنی پارٹی کے لوگوں کو اس سے جی بھر کے فائدہ پہنچاتے رہے۔

2013ء کے عام انتخابات میںبھی پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا سب سے اچھوتا اشتہار بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کا تھا جسکے نمایاں خواص تھے: ’’پاکستان پیپلزپارٹی کے 5سال‘ روٹی کپڑا اور مکان ‘بھٹو کا وعدہ‘ جسے ہم نے نبھایا‘ 70لاکھ غریب خاندانوں کے لیے‘ روٹی کپڑا اور مکان کا وسیلہ‘ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ مستحق گھرانوں کے لیے ماہانہ 1000 روپے مالی معاونت‘ جو آیندہ ان شاء اللہ 2000 روپے کردی جائے گی‘ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور عوام کی خدمت کو جاری رکھنے کے لیے ووٹ صرف عوام کی پارٹی کا‘ پیپلزپارٹی کا! جیت کا نشان، تیر کا نشان‘‘۔ زرداری تو زرداری نوازشریف ان سے دو قدم اور بھی آگے بڑھ گئے جنھوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

انھوں نے اس کا لوگو تبدیل کرکے اس پر اپنی تصویر چسپاں کردی ہے‘ یعنی نام بی بی کا اور تصویر نوازشریف کی۔ سبحان اللہ! کیا سیاسی عاقبت اندیشی ہے! ایک وقت تھا جب بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر کی نیم برہنہ تصاویر لاہور اور اس کے مضافات میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے گرائی گئی تھیں اور اب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لوگو میں باپردہ بی بی کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے ’’بی آئی ایس پی، عزتِ نفس، بااختیار، مقصدِ حیات‘‘ اور اوپر گورنمنٹ آف پاکستان کے ٹیگ کے ساتھ قومی پرچم کے پس منظر والی نوازشریف کی بڑی سی تصویر۔ کیا کہنے!  بقولِ شاعر:

اب کے شکاری اور ہیں ان کے نشانے اور ہیں
ہتھیار وہ ہی ہیں مگر ہاتھ اور شانے اور ہیں

غیرسیاسی انکم سپورٹ پروگرام کو سیاسی رنگ میں رنگنے کے لیے پہلے پانچ سال فرزانہ راجہ نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور کمال فنکاری سے بوگس اور گھوسٹ خاندانوں کا ریکارڈ تخلیق کیا جسے بے نقاب کرنے کے لیے نیب یا آڈیٹر جنرل آفس کے بدست ایک گرینڈ آڈٹ کی ضرورت ہے۔

بی آئی ایس پی جب مسلم لیگ (ن) کے ہتھے چڑھا تو انور بیگ کے استعفیٰ کے بعد مریم نوازشریف کو بھی اس پروگرام سے ایک شہری کی ہائیکورٹ میں دائر کردہ رٹ کے نتیجہ میں الگ ہونا پڑا جس میں  موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اقرباء پروری کی اس سے بڑی مثال اورکیاہوسکتی ہے کہ نوازشریف نے 100 ارب روپے کے پبلک سپورٹ فنڈ پر اپنی بیٹی کو بٹھا رکھا ہے۔ اب یہ پروگرام نون لیگ کی رہنما ماروی میمن کے ہاتھ میں ہے‘ ان کا بھی ابھی تک کوئی مثالی کارنامہ سامنے نہیں آیا جسے سراہا جا سکے۔ بی آئی ایس پی تو اپنی جگہ ‘بینظیر وسیلۂ تعلیم پروگرام کا نام بھی تبدیل کر کے ’’نوازشریف وسیلۂ تعلیم پروگرام‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔

وسیلۂ تعلیم پروگرام بھی بی آئی ایس پی کے تحت شروع کیا گیا تھا جسکے ذریعے معاشرے کے نادار طبقہ کے بچوں اور ان پڑھ خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرکے غربت کے دائرہ سے باہر نکالنا تھا۔ بی آئی ایس پی کی طرح اس پروگرام کو بھی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے بی آئی ایس پی کو ملک کا فلیگ شپ سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام قراردیا گیا ہے اور اس کی وساطت سے اربوں روپے کے مختلف النوع سوشل ویلفیئر کے منصوبے تیار کیے گئے ہیں ۔ماضی میں بھی غرباء ومساکین کی مالی سپورٹ کے لیے بجٹ میں اربوں کھربوں روپے رکھے گئے اور ان پروگراموں کی آڑ میں مزاج کے مارے حکمرانوں نے بدعنوانیوں کے پہاڑ کھڑے کیے۔

اپنے درباری حلقے کو نوازنے کے لیے اس طرح کی بوگس اسکیمیں شروع کرنا مسلم لیگ (نون) کی پرانی روِش ہے۔ پیلو کیب ٹیکسی اسکیم سے لے کر لیپ ٹاپ اسکیم، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم، دانش اسکول اسکیم، سستی روٹی اور سستا آٹا اسکیم، وزیراعظم یوتھ لون اسکیم اور اب بی آئی ایس پی کے تحت نجانے کون کون سی اسکیمیں متعارف کروائی جارہی ہیں‘ ایسی اسکیموں سے متعلقہ اور متاثرہ افراد کوتو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جب کہ بوگس لوگوں کو بوگس کیسز کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

ذرا ان کے قول وفعل کا تضاد تو دیکھئے کہ ایک طرف تو یہ کہا گیا ہے کہ جن افراد کی تنخواہ 6ہزار روپے تک ہے وہی بی آئی ایس پی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے مزدور یا گھریلو ملازم کی کم ازکم تنخواہ 13 ہزار روپے طے کر رکھی ہے۔ یہ 6ہزار 2008ء کے طے ہیں اور اب تک برقرار ہیں۔ جن افراد کے لیے اس پروگرام سے فیضیاب ہونے کی بندش ہے ان میں پینشنرز اور بیت المال وعشرزکوٰۃ سے مستفید ہونیوالوں کے علاوہ ایسے خاندان جن کے اکاؤنٹ غیرملکی کرنسیوں میں ہیں یا جنھوں نے نادرا کے اوورسیز کارڈ بنارکھے ہیں‘ یا پھر وہ اصحاب جو کم ازکم تین ایکڑ اراضی کے مالک ہوں۔

فرزانہ راجہ کی چیئرمینی میں بینظیرانکم سپورٹ کی رقم اللّے تللّوں میں لٹائی گئی ۔ ایف آئی اے نے جو چند خرابیاں پکڑیں ان کے مطابق فنڈز کے گھپلوں، غیرقانونی طور پر گاڑیوں کی خریداری، رقوم کے زیاں، متنازعہ کنٹریکٹس دیئے جانے، زائد رقوم کی ادائیگی اور غیرقانونی تقرریوں کے تقریباً 20 کیسز سامنے آئے ہیں اور مزید 20ہزار کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ بی آئی ایس پی کے فنڈ سے سیلاب زدگان کے لیے جو 34 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے وہ بھی خوردبرد ہو گئے۔ ایک کروڑ 70 لاکھ روپے نادرا کو ڈیٹا انٹری اور شناخت کے ساتھ ساتھ غربت سروے کی مد میںمیڈیا مہم کے لیے جاری کیے گئے۔

2کروڑ 79 لاکھ روپے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ فرم کو سروے کے لیے جاری کیے گئے۔ بی آئی ایس پی کی انتظامیہ مستحقین کے شناختی کارڈز کی رجسٹریشن کے لیے نادرا کی موبائل گاڑیوں کی مد میں بھی 1 ارب 4 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں میں ملوث پائی گئی۔ بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے لاڑکانہ میں بینظیر کی تیسری برسی کے موقع پر سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر بعض افراد کو ایک ہزار کے بجائے نو نو ہزار روپے نوازے۔ اسکیم کے سیکریٹری کے محض زبانی احکامات پر ہی 3 لاکھ 81 ہزار روپے صوبائی ڈائریکٹر جنرل اور 9 کروڑ روپے ڈی جی بلوچستان کے اکاؤنٹ میں وسیلۂ حق پروگرام کے تحت ٹرانسفر کیے گئے۔

اسمارٹ کارڈ کے ذریعے رقوم کی منتقلی میں زائد ادائیگیاں بھی جابہ جا ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس کو بغیر نیلامی کے مستحقین کو خطوط لکھنے، بینرز اور دیگر تحریری مواد شایع کرنے کے لیے قواعد کی خلاف ورزی بھی کی۔ بی آئی ایس پی گزشتہ کئی برسوں سے اپنے قواعد تک تیار نہیں کرپائی جس کی وجہ سے چیئرمین اور سیکریٹری کے درمیان نزاع کا ماحول طے شدہ بات ہے۔

نون لیگ کے انور بیگ نے بھی بی آئی ایس پی کے عہدے سے اسی لیے استعفیٰ دیا تھاکہ انھیں ایک طاقتور سیکریٹری (ڈی ایم جی افسر) کا سامنا تھا‘ اس طاقتور بیوروکریٹ کے ماضی کا ریکارڈ کبھی مثالی نہیں رہا‘ اس نے تقرر کے کچھ روز بعد ہی 26لاکھ کی رقم ایک امریکی این جی او کو جاری کی اور ایک ایماندار انٹرل آڈیٹر کو 2.63 ارب روپے کے مشاورتی ٹھیکے میں 15کروڑ روپے کی بدعنوانی کا انکشاف کرنے پر فی الفور برطرف کر دیا۔ مریم نواز اور ماروی میمن کے ساتھ اگر اس مہاکلاکار کی نہیں ٹھنی تو اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ فرزانہ راجہ کی طرح ان محترمات کو بھی ایسا ہی ایک نابغۂ فن سیکریٹری چاہیے تھا جو ہر موبائل رکھنے والے کا آئے روز ہزاروں کاانعام نکلواتا رہے ‘اور ہم ایسوں کو بھی ہر ہفتے حسبِ معمول ایک برقی پیغام موصول ہوتا رہے: ’’مبارک ہو! بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کے تحت آپکا 25ہزار روپے کا انعام نکل آیا‘‘۔

یہ انعام نکالنے والا گروہ آج بھی متحرک ہے اور نجانے کتنے لالچی کم سادہ لوح اس گروہ کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں اور پی ٹی اے اور وزارتِ داخلہ اسے محض ایک منورنجن سمجھے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بی آئی ایس پی اور اس کے چائلڈ وینچرز کو فوری بند کیا جائے اوراپنے ملک کے غرباء کی معلومات کا مزید سودا نہ کیا جائے‘ ان 12 سو روپوں سے کسی غریب کا ٹھنڈا پڑا چولہا گرم نہیں ہوسکتا‘ اگر واقعی ان پروگراموں پر اٹھنے والے کھربوں روپے قومی خزانے سے جارہے ہیں تو اسی بجٹ کو توانائی کے قومی منصوبوں پر صرف کیا جائے تاکہ کاروبار کا پہیہ بھی چل سکے اور ہر گھر کا بلب بھی جل سکے اور بیروزگاروں کو روزگار بھی فراہم ہو سکے‘ ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جو قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے باوقار بنانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔

اس بات کی تحقیق کی جائے کہ جعلی انعام نکالنے والے بھی کہیں اسی محکمے کے مہاکلاکار ہی تو نہیں۔ چیئرمین اور سیکریٹری کو آئے روز سیکڑوں ایس شکایات موصول ہو رہی ہونگی لیکن انھوں نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سادہ لوح عوام کو لوٹنے کے لیے ان فراڈیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایسے لوگوں کو پکڑ کر عبرت کا نشان بنایا جاتا اور عوام کو خبردار کرنے کے لیے کوئی خصوصی مہم چلائی جاتی لیکن لگتا ہے کہ اس ادارے کے سب ذمے دار بے مقصد کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں، توقع تھی کہ اس پروگرام کے ہردلعزیز سیکریٹری سلیم رانجھا کی غیرمعمولی صلاحیتیں اس ادارے کو مثالی بنائیں گی لیکن وہ بھی ابھی تک اپنی چیئرپرسنی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ اللہ خیر کرے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔