کوئی تو ان کا بھی حال پوچھے؟

رئیس فاطمہ  اتوار 27 دسمبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج کا کالم ان مہربان قارئین کی حوصلہ افزائی اور دکھ کو برداشت کرنے کی سکت رکھنے کا مشورہ دینے والوں کا مرہون منت ہے۔ 22 دسمبر کو ای میل دیکھی تو جی بھر آیا۔ لوگوں نے بہت ہمت بندھائی اور کسی نہ کسی صورت میں قارئین سے اپنے کالم کے ذریعے رابطہ رکھنے کا مشورہ دیا۔ بصورت دیگر مسلسل ڈپریشن انسان کو بیمار ڈال دیتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لوگ تسلیاں بھی دیتے ہیں لیکن جو قیامت دل پہ گزرتی ہے، اس کا ادراک وہی کرسکتے ہیں، جو خود غم آشنا ہوں۔ میں جانتی ہوں مجھے خود ہی اس اذیتناک صورتحال سے باہر نکلنا ہوگا  اسی لیے قلم سنبھال لیا لیکن پہلے کی طرح خیالات ہاتھ باندھے کھڑے نظر نہیں آتے۔

کیا کروں، کیا لکھوں؟ یہی سوچ رہی تھی کہ کراچی میں ایک اور عمارت میں دراڑیں پڑنے کی خبر پڑھ کر ایک بار پھر دل نے کہا کہ کیا ہم انسان کہلانے کے بھی مستحق ہیں یا نہیں۔ پاکستان بھر میں بلڈر مافیا جس طرح ناجائز طریقوں سے زمینوں پہ قبضہ کرکے دن رات مختلف سرکاری محکموں کے افسران کی ملی بھگت سے جیبیں بھر رہا ہے، اسے دیکھ کر آدمیت پر سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

اونچی اونچی عمارتیں بنا کر سیمنٹ اور کنکریٹ کے جنگل آباد ہوگئے ہیں لیکن نہ کوئی قانون ہے اور نہ شنوائی۔ خدا جانے یہ بلڈر کس قسم کی مخلوق ہے۔ جو صرف تین فٹ کی گہرائی کی بنیاد پر سات سات اور پانچ پانچ منزلہ عمارتیں بنا کے لوگوں کا سرمایہ لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ اور لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی ریزہ ریزہ ہوکر زمین بوس ہوجاتی ہے۔ درست ہے کہ سب جعلساز نہیں ہیں ،اچھی شہرت والے لوگ بھی ہیں مگر مختلف محکمے ایک دوسرے کو مجرم ٹھہراتے ہیں اور پھر کہانی پرانی ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔ کراچی کاسموپولیٹن سٹی ہے۔

یہاں روزگار ہے، بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات اسی شہر سے ملتے ہیں لیکن کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں ہائی رائز بلڈنگز نہایت تیزی سے بن رہی ہیں۔ نئی بننے والی عمارتوں میں کوئی بھی سات منزل سے کم نہیں ہے۔

لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ بلڈرز کے لیے نہ کوئی سزا ہے نہ قانون۔ اس معاملے میں کراچی میں رہنے والے بلڈرز کے ہاتھوں زیادہ پریشان ہیں۔ مسلسل بلڈنگوں کے گرنے اور ان میں دراڑیں پڑنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لیکن قانون حرکت میں نہیں آتا کیونکہ ’’مایا سے مایا ملے، کرے لمبے ہاتھ‘‘۔ یہ بھی دعا دیجیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کہ ایسی خبریں سامنے لاکر کسی حد تک لوگوں کو آگہی فراہم کردی جاتی ہے۔ معاملات تو لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں، لیکن جہاں تک حادثات کے تدارک کا سوال ہے تو ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والا معاملہ ہے۔

کراچی میں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں ایسی ہیں جن میں بطور خاص ایم اے جناح روڈ پر کھڑی عمارتیں جن میں عوام نے بارہ تیرہ سال قبل فلیٹ یا دکانیں بک کروائی تھیں اور تین سال میں انھیں قبضہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا لیکن ہنوز مکمل تاریکی ہے لیکن نہ دکانوں کا قبضہ دیا گیا اور نہ ہی فلیٹ کا۔ پاکستان میں بلڈرز کو ہر طرح کی سہولت ہے۔ اگر الاٹیز وقت پر قسطوں کی رقوم نہ دیں تو سرچارج لگ جاتا ہے لیکن بلڈرز آزاد ہیں ، وہ تین سال کے بجائے تیرہ سال تک بھی قبضہ نہ دے تو اس پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوتی۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اگر کوئی مجبور الاٹی اپنی رقم واپس مانگے تو بھی بلڈر کا فائدہ کہ وہ اصل رقم میں سے 10 سے 20 فیصد کٹوتی کر کے رقم واپس کرتا ہے وہ بھی دھکے کھلوا کر۔ایک اور عذاب بھی ہائی رائز بلڈنگ کے مکینوں پر آیا ہوا ہے کہ ان میں گیس نہیں ہے۔ بکنگ اور براہ راست فروخت کے موقع پر بلڈر بڑے وثوق سے دو تین ماہ بعد گیس کے کنکشن کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن آج تک کسی چار منزلہ سے زائد عمارت میں گیس نہیں لگوائی گئی۔

مختلف حیلے بہانوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ کراچی کے کسی بھی علاقے کی بلند عمارت میں آپ چلے جائیں یہی جواب ملے گا کہ حکومت نے کثیر المنزلہ عمارتوں پہ گیس کے کنکشن کی پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ہر سال سردیوں میں یہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ’’اپریل میں گیس آجائے گی‘‘۔ کئی سال سے یہی جملہ دہرایا جاتا ہے ۔

کئی گرمیاں آئیں اور چلی گئیں لیکن گیس کا نام و نشان نہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بلڈرز سے الاٹیز سے تو گیس کنکشن کے چارجز وصول کرلیے لیکن ٹھیکیدار کو رقم ہی ادا نہیں کی گئی۔ رقم بلڈرز نے ہضم کرلی اور ذمے داری گیس کمپنی اور حکومت پر ڈال دی اور بعد میں رقم سمیٹ کر یہ جا وہ جا۔سوال یہ ہے کہ جب مطلوبہ گیس موجود نہیں ہے تو حکومت چار منزلہ سے زیادہ کے سیمنٹ کے جنگل آباد کرنے کے اجازت نامے کیوں دے رہی ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے بلڈرز متعلقہ محکموں کے افسران کی میزوں پر حضرت قائداعظم کی تصویروں والے کاغذات کی گڈیاں رکھ کر ہر قسم کے کاغذات پہ سائن کروا لیتی ہے۔

افسران اور بلڈرز کی جیبیں بھری رہتی ہیں۔ اس رقم سے عمرے اور حج بھی ادا کیے جاتے ہیں تاکہ خود کو نیک اور پرہیزگار ثابت کیا جاسکے، لیکن ایک لمحے کو بھی انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ خدا نیت دیکھتا ہے۔ کیا رشوت اور چور بازاری سے کمائی ہوئی دولت سے کیا جانے والا حج اور عمرہ خداوند تعالیٰ قبول کرے گا؟ لیکن اس کی پرواہ کس کو ہے۔ ظاہری حلیہ دین دار بنا لیجیے، حج اور عمرے کا اسٹیٹس سمبل ماتھے پہ سجا لیجیے یا لہک لہک کر نعتیں اور مرثیے پڑھیے۔ سب آپ کے لیے ایک چھتر چھایہ کا کام دیں گے۔ پھر چاہے کرنسی اسمگلنگ کا کام ہو یا کسی اور ناجائز ذریعے سے دولت کمانے کا دھندہ، سب نہایت باریکی سے کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں کسی کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسرے کے لیے کوئی بھی فتویٰ جاری کردے۔

آج جس موضوع پہ قلم اٹھایا ہے اس پر بہت عرصے سے قارئین اور ملنے جلنے والوں کا اصرار تھا۔ کراچی کے شہری طویل عرصے سے بلڈر مافیا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں، لوگوں کو بلڈرز دفتر میں داخل نہیں ہونے دیتے، مسلح گارڈ انھیں روکنے کے لیے کھڑے ہیں۔ اگر کوئی اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تو ملازمین یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ ’’ہمیں کچھ پتہ نہیں‘‘۔ مارکیٹنگ والے اپنی چرب زبانی سے دکانیں اور فلیٹ بیچ کر اپنا کمیشن کھا کر رفو چکر ہوگئے۔

بلڈرز اور اس کے پارٹنرز اپنے اپنے بلوں میں گھسے لوگوں کی سادگی پہ مسکراتے اور عیاشیاں کرتے رہتے ہیں کہ یہ ملک صرف لٹیروں کے لیے بنا ہے۔ کوئی نہیں جو نوٹس لے کہ یہ جو جگہ جگہ عمارتیں کھڑی ہیں یہ بارہ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود اب تک غیر آباد کیوں ہیں۔ عوام کو اب تک قبضہ کیوں نہیں دیا گیا؟ اپنی چھت کے لیے یا مستقبل میں اضافی آمدنی کے لیے لوگ فلیٹ، پلاٹ اور دکانیں بک کرواتے ہیں اور کنگال ہوجاتے ہیں۔

ہے کوئی حکومت جو اس جانب توجہ دے کہ لوگوں کی جمع پونجی جو خاک میں مل رہی ہے، اسے واپس دلائے۔ جن بلڈرز نے لمبی مدت گزر جانے کے باوجود اب تک لوگوں کو ان کے پلاٹ، فلیٹ یا دکان کا قبضہ نہیں دیا تو کیوں نہیں دیا؟ رینجرز کو جو اختیارات دیے جا رہے ہیں۔

ان میں یہ اضافہ بھی کردیا جائے کہ وہ مندرجہ بالا مسائل کا جائزہ بھی لیں، تمام نامکمل رہائشی عمارتوں کا سروے کرایا جائے اور حقائق سامنے لائے جائیں کہ بہت سے لوگ دکانیں، پلاٹ اور فلیٹ بک کروا کے قبروں میں جا سوئے اور ان کے لواحقین کو بھی پتہ نہیں کہ آیا ان کی زندگی میں انھیں ان کی جائیداد کا قبضہ ملے گا بھی یا نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔