اعمال کی فصل اور تشنہ لبی

نسیم انجم  اتوار 27 دسمبر 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

غریبوں کی آہیں، مظلوموں کی بددعائیں، ضرورت مندوں کی فریاد، خوشحال و بدحال گھرانوں کی ذہنی اذیت، نوحہ خوانوں کی مضطرب و منتظر آنکھیں اور تشنہ لبی، پیاسے حلقوم، سسکتے بلکتے بچوں کی پیاس جب رنگ لاتی ہے تب ظالموں کے لیے اچھا نہیں برا ہوتا ہے اور مالی و جانی نقصان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

بیماری اور دکھ درد کا علاج اور مداوا تو ہو سکتا ہے لیکن انسانی زندگی لوٹ کر نہیں آتی، پیسہ اور دولت اور سونے چاندی کے انبار بھی موت کے منہ سے کسی بھی انسان کو ہرگز نہیں نکال سکتے ہیں، زندگی کی طرف نہیں لاسکتے ہیں، اگر ایسا ہوتا کہ زندگی کسی قیمتی شے کے بدلے خرید لی جاتی، تب فرعون و شداد اور نمرود کبھی بھی موت کی اندھیری دلدل میں نہیں اترتے اور تاقیامت خزانوں کے عوض آب حیات خریدتے اور زیست کی رنگینیوں کے مزے لوٹتے مگر اس طرح اپنی خواہش کی تکمیل کو کوئی بھی ذی بشر پورا نہیں کر سکا ہے۔

انسان کی سرشت میں طمع، ہوس، تعیشات زندگی کی تمنا پوشیدہ ہے اور کام کرنے کی بھی صلاحیت ہے، یعنی خیر و شر کی طاقتوں کا اس پر غلبہ ہے، اب یہ اس کے اختیار میں ہے کہ اپنے نیک اطوار سے نیکی کی طاقت کو پنپنے کا موقع دے یا بدی سے رشتہ جوڑ لے لیکن یہ بات سوچنے کی ہے کہ خوش قسمتی و بدقسمتی کی فصلیں کاٹنے سے قبل اس بات کو ضرور مد نظر رکھنا ہوگا کہ موسم بہار اور باد سموم کی ہی طرح جو، جوار، گیہوں، کپاس ، گندم کی فصلوں کے موسم بھی مختلف ہوتے ہیں۔

یہاں بھی بہار و خزاں کا موسم رنگ لاتا ہے، بور آتا ہے، بالیاں نکلتی ہیں، پھول کھلتے ہیں، خوشبوئیں رقص کرتی ہیں لیکن فصلیں کاٹنے کے بعد ویرانی چھا جاتی ہے، ہریالی سوکھی گھاس کی مانند ہوجاتی ہے کہ سبز ڈالیاں اور گیہوں کی بالیاں خشک ہوجاتی ہیں انسانی زندگیوں کا بھی ایسا ہی حال ہے، جوانی سرپٹ گھوڑے کی طرح بے زور، بے لگام دوڑتی چلی جاتی ہے، اگر زندگی میں اصول و ضوابط نہ ہوں تو نفع و نقصان کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔

اندھیرے اجالے کی شناخت کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے اسی لیے اچھے برے کاموں کا بوجھ مضبوط کاندھوں پر آ کر ٹھہر جاتا ہے، بوجھ کا احساس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے، ایام شباب بیت جاتے ہیں اور گناہوں کی فصل سبزے کی مانند لہلہاتی نظر آتی ہے اب پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں، ظلم ہو چکا ہے، ستم ڈھایا جا چکا ہے۔ گمراہیوں کے ننھے پودے تناور درختوں میں بدل گئے ہیں۔

اور لوگ بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے بے بسی کی موت مر چکے ہیں۔ اب اگر توبہ نہ کی جائے تو وہ ہم سب کا رب جو غفور الرحیم ہے بے شک توبہ کو قبول کر لے گا کہ توبہ کے دروازے جان کنی سے پہلے تک کھلے ہوتے ہیں توبہ تو زندگی میں موت کے آثار سے قبل ہی کی جاتی ہے۔

توبہ کی معافی تلافی اپنی جگہ سہی لیکن جب وہ شخص ہی اس شخص کو نہ معاف کر سکے جس پر ظلم ہوا ہے تب خطاکار سے اللہ ہرگز راضی نہ ہو گا، اسے راضی کرنے کے لیے یہ ضروری ہے اپنی طاقت و مرتبے کا ناجائز استعمال ہی نہ کیا جائے تو بات بگڑ نہ سکے گی۔ لیکن انسان کی اپنی کوتاہی اور غفلت کے سبب بات بنتے بنتے رہ جاتی ہے۔

کچھ روز پہلے جب گلشن اقبال میں پانی کی لائن پھٹ گئی، کروڑوں گیلن پانی ضایع ہوا، سڑکیں پانی سے ڈوب گئیں، گاڑیاں پانی میں پھنس گئیں، راستے دشوار گزار ہو گئے، وفاقی اردو یونیورسٹی کا راستہ بھی گہرے پانی کی وجہ سے مخدوش و مسدود ہو گیا۔ طالبات نے پگڈنڈی پر چل کر راستہ طے کیا، لیکن دو طالبات نالے میں گر گئیں، جنھیں بروقت مدد مل گئی جس کے باعث وہ بچ گئیں۔48 گھنٹے گزرنے کے باوجود پائپ لائن کی مرمت اور سڑکوں پر بھرے ہوئے پانی کو نکالنے کا کام نہیں ہو سکا، مزدور خوش گپیوں میں مصروف رہے اور مشینری کو لانے اور استعمال کرنے کے احکامات ملازمین کو وصول نہیں ہو سکے۔

یہ کیسی بے حسی ہے؟ ایک طرف اجرک ڈے منایا جا رہا ہے، ڈھول کی تھاپ پر جیالے رقص کر رہے ہیں، ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے نئے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی طرف سے ویڈیو سامنے لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ساتھ میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، لیکن تازہ اطلاع کے مطابق رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کا اظہار کیا گیا ہے بقول تاجر برادری سندھ حکومت کے اس عمل نے پنجرے میں بند کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان سے ہندوستان کا کرکٹ میچ بھی ملتوی ہو چکا ہے۔

محب وطن فرض شناس سابق کرکٹر جناب جاوید میانداد نے بہت اچھی بات کہی کہ بھارت سے کرکٹ نہ کھیلنے سے کسی قسم کا نقصان ہرگز نہیں ہو گا، لہٰذا اس کی خوشامد نہ کی جائے آخر دوسرے ممالک سے تو ہندوستان کھیل ہی رہا ہے اس کو کہتے ہیں انا، خودداری اور عزت نفس۔ خوشامد پسند اور مفاد پرست لوگوں کی بھی بھلا کسی نے عزت کی ہے۔ اور کرکٹ کا پروگرام یہ ان دنوں ملتوی ہوا ہے جب کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئی ہوئی ہیں اور مذاکرات جاری ہیں۔ اللہ کرے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے تحت آزادی نصیب ہو۔

بھارت سیکولرزم اور جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن کیسی جمہوریت اور کیسا سیکولرزم؟ بھارت میں ذات پات کی بنیاد پر آج تک اقلیتوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، جانوروں کی خاطر انسان کی عزت نفس، انا اور وقار کا جنازہ سربازار نکالا جا رہا ہے، کسی کے بال مونڈھے جا رہے ہیں، کسی کو زبردستی ہندو بنایا جا رہا ہے اور کسی کو حرام چیزیں کھلائی جا رہی ہیں، گھروں میں گھس کر اور چوراہوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔

موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے، مذہبی تعصب و نفرت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اپنے ہی ملک کے ان شہریوں کو جنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ انھیں ملک بدر کرنے کی بات کی جا رہی ہے، نت نئے الزامات لگائے جا رہے ہیں نہ مذہبی آزادی نہ معاشرتی و شخصی آزادی میسر ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے کیا؟

بھارت کی جمہوریت کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اصل جمہوریت ہمارے ملک میں ہے جہاں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ایک ہی محلے اور علاقوں میں سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں اگر چند ایک واقعات جنم بھی لیتے ہیں تو وہ گھناؤنی سازش کا نتیجہ ہیں۔

واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کا ہو گیا نا نقصان، جس پانی سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کماتے وہ ضایع ہو گیا، یہ وہ پانی تھا جس پر زندہ سلامت انسانوں کا حق تھا، یہ وہ پانی تھا جس کا ٹیکس عوام بغیر پانی کے حصول کے ادا کرتے ہیں، یہ وہ پانی تھا جس سے اپنے مردوں کو نہلایا جاتا ہے، لیکن پانی نہ ملنے کی وجہ سے ایدھی سینٹر بھیجنا پڑتا ہے۔ اور یہ وہ پانی تھا جس کی محرومی کے لیے معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو گھروں سے نکال کر پانی کی تلاش کے لیے کوچوں اور قریہ قریہ بھٹکنے کے لیے مجبور کیا۔

یہ وہ پانی تھا کہ جسے ٹینکروں کے ذریعے خریدنا پڑا اور گھر کا بجٹ متاثر ہوا۔ بچوں کی فیسوں کی ادائیگی رہ گئی، ماہانہ راشن میں بھی کمی کرنی پڑی شیر خوار بچوں کو پانی ملا دودھ پلانے کی نوبت آ گئی اور افسوس وہی پانی آج تک سڑکوں پر بہہ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔