محترمہ بینظیر بھٹو شہید…نذیر ڈھوکی

نذیر ڈھوکی  اتوار 27 دسمبر 2015

18اکتوبر 2007 کو وطن واپسی سے قبل اپنے ایک مضمون میںمحترمہ بینظیر بھٹو شہید نے لکھا “اس زندگی کا میں نے انتخاب نہیں کیا، اس زندگی نے میرا نتخاب کیا ہے۔”

اس زندگی نے 22 سال تک انہیں بے شمار خوشیاں دیں اور 30 سال اعصاب شکن دکھ، درد، مصائب اور مشکلات۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اس زمانہ میں سیاست کی ابتدا کی جب ملک پرایک خوفناک مارشل لاء  مسلط تھا۔ اقتدار کے لالچی ٹولے وطن کی آزادی، قوم کی خودداری کو رہن رکھ کر بدلے میں اقتدار حاصل کیا تھا اورانسانی آزادی اور شعور کو کچلنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ طاقت کے بل بوتے پر جیتے جاگتے انسانوں کی آزادی کو صلب کرکے ملک کو خاموش قبرستان میں تبدیل کر دیا تھا۔

سیاسی کارکنوں جو 1973 کے آئین کی بحالی کی آواز بلند کرتے رہے پھانسیوں پر جھولتے رہے جس صحافی نے جبر اور بربریت کے خلاف قلم اٹھایا ان پر کوڑے برسائے گئے۔ ایسے حالات میں جب آمریت کے خلاف ایک بینظیر آواز گونجی تب احسا س ہوا کہ ماں باپ نے ان کا نام بینظیر کیوں رکھا تھا۔ معروف صحافی ، شاعر اور دانشور مرحوم عباس اطہر کا ماننا تھا کہ بھٹو ایک آسمانی راز ہے اس حوالے سے ان کے پاس قابل اعتبار دلائل بھی تھے۔

بھٹوز کی یہی تو خصوصیات ہیں کہ انہوں نے انسانی آزادی، جمہوری اقدار کو متعارف کرایا۔ خیالی دنیا میں بھٹکنے والوں کی مزاحمت کی پروقار زندگی گزاری، بڑی آن اور شان سے مقتل میں گئے اور جان دے کر انسانی شعور کو ایک نئی جہت دی۔ دیکھا جائے تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے مسلسل 30 سال اس ٹولے کی مزاحمت کی جو مخلوق خدا کو کمتر تصور کرکے عام انسانوں کو پتھرکے دور کے اندھیروں میں رکھنے پر بضد تھے۔ انہوں نے اس ٹولے کی مزاحمت کی جنہوںنے آنے والی نسلوں سے شعور چھیننے کے لئے ہیروئن جیسی لعنت کو جنم دیا اورجمہوریت کو کچلنے کے لئے طاقت کا ذریعہ بندوق متعارف کرایا۔

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاسی قوت اس ملک کے غریب عوام ہے اور غریب عوام کی قوت ووٹ کے ذریعے دو مرتبہ اقتدار میں آئیں تو ان کی توجہ ان کچلے ہوئے طبقات تک ریاست کے ثمرات پہنچانے پر رہی جو حقیقی طور پر ملک کے مالک اور اللہ تعالیٰ کے بعد بہترین منصف تھے۔

سابق صدر غلام اسحاق خان جو ریاست کی اشرافیہ کے نمائندے تھے کا کہنا تھا کہ “اگرسندھ کی سرحد صادق آباد کے مقام پر محترمہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے بیرئر نہ لگائے جائیں تو سندھ بلوچستان کے پنجاب سے ہوتے ہوئے وہ سرحد و خیبرپختونخواہ میں بھی فتح حاصل کر سکتی ہیں۔” ایک غیرملکی جریدے ٹائم نے سٹوری شائع کی کہ 2002ء کے انتخابات سے قبل جنرل مشرف کو جب ان کے سینئر ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں چاہیے کہ آئین کے مطابق چلیں اور مستقبل کا فیصلہ آنے والی پارلیمنٹ کو کرنے دیں تو جنرل مشرف بھڑک اٹھے اور کہا کیا تم مجھے بینظیر کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہو۔

میں جانتا ہوں کہ وہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آرہی ہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ جنرل ضیا جس نے انسانی شعور کو تہس نہس کرنے کے لئے ہیروئن کی لعنت عام کی تھی ان کے روحانی پیروکاروں نے ہیروئن کی لعنت کو ختم کرنے کی جستجو کرنے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو سیاسی طور پر بلیک میل کرنے کے لئے ان کے شوہر پر پنجاب کے تھانے میں منشیات کا مقدمہ بنایا کیونکہ انسداد منشیات کے ادارے نے آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا کی حادثاتی موت کے بعد بھی 1988ء میں جمہوریت کو رسوا کرنے والے خود سامنے آگئے۔

دلچسپ امر یہ  ہے کہ اس آمریت نے 1999ء میں اپنے ہی گملے میں اگائے ہوئے پھول کو بھی روند ڈالا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید پرجو آمرانہ سوچ کی مزاحمت کر رہی تھیں، احتساب کی آڑ میں اپنے ہی ملک کی دھرتی تنگ کر دی گئی۔ 1999ء میں جب وہ اپنی عمر رسیدہ اور بیمار ماں کی تیمارداری کرنے ملک سے باہر گئیں تو ان کی وطن واپسی روکنے کے لئے عدالتی نظام کا استعمال کیا گیا۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا کہنا ہے ” 1980 کی دہائی کے دوران جب محترمہ بینظیر بھٹو واشنگٹن آئیں تو اپنی بیوی کے ساتھ سڑک پر کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے کے لئے کئی پہر انتظار کیا تھا۔” سچ بھی یہی ہے کہ فاشسٹ آمریت اور قدامت  پسند ذہنیت رکھنے والوں کی محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے مزاحمت کی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید سچی قوم پرست پاکستانی تھیں جو ملک کی عزت و وقار اور آزادی، خودمختاری اور خودداری کے لئے جدوجہد کر رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مخالف سیاسی میدان اور مذاکرات کی میز پر انہیں اپنے والد قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح شکست دینے کی صلاحیت سے محروم تھے۔

شہید بی بی صاحبہ اپنے والد بھٹو کی طرح حقیقت پسندا ور سچی قوم پرست پاکستانی تھیں۔ جس پاداش میں انتہائی تو ہین آمیز سلوک کا سامنا کرتی رہی۔ انہوں نے اپنے ملک کی آنے والی نسلوں کو پولیو جیسے مرض سے محفوظ رکھنے کے لئے اقدام اٹھائے، ملک کے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ملک کے دفاع کے لئے میزائل ٹیکنالوجی دی، اگوسٹا سب میرین بھی ان کا کارنامہ ہے۔میراج طیارے بھی ان کی مرہون منت  ہیں۔ یہ ان کا وژن تھا کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے۔ مواصلات ذرائع ٹیلی فون کی سہولیات کو عام کیا۔ قدرتی گیس گاؤں گاؤں تک پہنچائی۔ اندھیروں میں ڈوبے قصبے بجلی کی روشنی میں جگمگائے۔

ان کی عالمی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو۔ امریکی تھینک ٹینک کے پاس یہ دستاویز ضرور ہوگی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے 1989ء میں امریکی صدر بش سے کہا تھا کہ جن جنگجوؤں کی آپ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں یہ میرے ملک اور معاشرے کے لئے خطرہ ہیں۔ کل یہ عناصر دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جنگجو امریکہ کے چہیتے تھے پھر وہی جنگجو اس کے لئے وبال بن گئے اور نائن الیون کا واقع ہوا۔

27 اکتوبر آج کے دن عوام کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، “انہوںنے سوات سے قومی پرچم اتار دیا ہے۔ یہ ملک خطرے میں ہے ،  اس ملک کو میں بچاؤں گی۔” اور پھر دنیا ے دیکھا کہ کس طرح عوام کی رہبر نے عوام کے درمیان ہنستے ہوئے ، مسکراتے ہوئے ملک اور قوم کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے 30سال تک 1973ء کے آئین کی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانے کے لئے جدوجہد کی۔ اگر بغض، نفرت اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سیاسی جانشین آصف علی زرداری نے بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود 1973ء کے آئین کو اصل صورت میں بحال کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو پارلیمنٹ کو بااختیار رکھنا چاہتی تھیں۔

آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کو بااختیار بنا کر ان عناصر سے حساب برابر کر دیا جو آئین کو پامال کرکے پارلیمنٹ کے اختیارات چھین لیتے تھے۔ کیا یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی ان الزامات کا سامنا کر رہی ہے جن الزامات کی آڑ میں محترمہ بھٹو شہید کو سیاست سے بے دخل کرنے کے جتن کئے گئے تھے۔

مجھ جیسے کروڑوں قوم پرست پاکستانی جن کو وطن کی آزادی عزیز ہے کو چاہیے کہ گڑھی خدابخش کے قبرستان جا کر رہنمائی حاصل کریں اور ذہن نشین کریں کہ آزادی کا گلابی سورج یہاں سے ہی طلوع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔