قائم علی شاہ گیا تو ارباب رحیم لیجیے

جاوید قاضی  پير 28 دسمبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایک طرف وفاق اور سندھ کا تضاد ابھر کے اس حد تک سامنے آیا ہے کہ اب یہ اونٹ کسی کروٹ جب تک بیٹھے گا نہیں تب تک چین نہ پائیں گے۔ دوسری طرف قائم علی شاہ صاحب کی حکومت جس ہٹ دھرمی سے بُری حکمرانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اس کی بھی مثال کہیں نہیں۔ ہاں مگر اس میں دو رائے نہیں کہ یہ حکومت لوگوں کی منتخب حکومت ہے اور اس سے یہ حق حکمرانی لوگ ہی واپس لے سکتے ہیں۔ لیکن ہماری تاریخ میں ایسی روایات بھی ہیں کہ ایسے نہیں ہوتا۔ بات آئین کے اندر اور باہر کی ہے اور ہمارا آئین جب اپنے بنیادی ڈھانچے کی سمت متعین کر رہا ہے، اس وقت بھی نظریہ ضرورت نے اس کا دامن نہیں چھوڑا۔

میاں صاحب خاموشی سے چوہدری نثار اور سندھ حکومت کے درمیان اس سرد جنگ کو دیکھ رہے ہیں۔ سمجھتے تو وہ یہ خوب ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آپ خود اس سرد جنگ کے بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

اس جنگ میں جو بے وجہ مارا گیا وہ سندھ کا استحقاق تھا۔ وفاقی اکائی ہونے کے ناتے وہ خود اپنی ذات میں آئین کے اندر اپنے اختیارات میں آزاد ہے، اتنی آزاد جتنا وفاق ہے اور اس کی ایسی آزادی لازم ہے کہ برقرار رہے اور اس طرح پاکستان فیڈریشن کی روح کو مسخ ہونے سے بچا کے رکھے۔ دوسری طرف زرداری نے جتنا سندھیوں کو پہچانا ہے اس سے پہلے شاید ہی کسی نے پہچانا ہو گا۔ آٹھ سال سے قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں، جن کا کام ہے زرداری خاندان کی اطاعت کرنا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس ہوا پوسٹ آفس جہاں فریال تالپور یا بلاول ہاؤس کے فیصلوں پر عمل ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر سندھ کو اہل وزیر اعلیٰ دیا جائے گا تو وہ خود اپنی حیثیت بنا بیٹھے گا اور اس طرح زرداری خاندان اقتدار سے اپنی مضبوطی کھو بیٹھے گا۔ زرداری کوئی بے نظیر کی طرح سحر انگیز شخصیت تو ہے نہیں کہ سب اسی کی پارٹی کے اندر اطاعت کریں۔

رینجرز نہیں تھی یا ان کے پاس اتنے اختیارات نہیں تھے تو کون کراچی کو بھولا ہو گا۔ ہر روز خبر تھی کے بیسیوں لاشیں گریں، پولیس آفیسر اگر کہیں اچھے رکھے تو وہاں کے وڈیرے پارٹی کے اندر چیخ و پکار کرتے کہ ان کے سارے دھندے قصبہ بازاری کے قبضہ گیری کے چوروں اور ڈاکوؤں کو پناہ دینے کے بند ہو گئے ہیں اور جب وہ وہاں سے ہٹائے جاتے تو لوگ اپنے اچھے پولیس آفیسرز کے تبادلے پر سڑکوں پر نکل آتے۔ قائم علی شاہ کی حکومت نے ٹاؤن میونسپلٹی آفیسر وہاں کے لوکل وڈیرے کے کہنے پر رکھے۔ TMO اور وہاں کا مقامی وڈیرا مل بیٹھ کر میونسپلٹی کے لیے گلیوں اور نالیوں کے لیے مختص رقم ہڑپ کر بیٹھے۔

تعلیم کے لیے 50 ارب مختص ہیں، یہ کہاں جاتے ہیں؟ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ پورے پاکستان میں شرح خواندگی ان آٹھ سال میں کچھ نہ کچھ بڑھی ہے مگر سندھ میں یہ دو فیصد اور بھی کم ہوئی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بھرتیاں ہوئیں مگر اسکول میں اساتذہ نہیں جاتے۔ وہاں پر بھی آدھی تنخواہ ماسٹر کی ڈائریکٹر کی جیب میں جاتی ہے کہ وہ ماسٹر کو اجازت دے کے وہ گھومے پھرے۔ اب یہ معلوم نہیں کے ایسا ڈائریکٹر ایسی پوزیشن پر کس وڈیرے کے کہنے پر بیٹھا ہے۔

آپ نے مدرسوں پر بھی آنکھ بند کی ہوئی ہے۔ وہ کیا کرتے ہیں، کس طرح دوسرے فرقوں کے لیے نفرت پھیلاتے ہیں۔ ان میں ان کا کچھ نہیں جاتا۔ جیکب آباد میں شکار پور میں امام بارگاہوں پر خودکش حملے ہوئے آپ اور آپ کے بیٹے ارجمند سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکے۔ مگر آپ کی پارٹی سندھ کو متحرک بھی نہ کر سکی کہ آپ کی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی احتجاج بھی رقم نہ ہوا۔ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے بعد ووٹوں کے تناسب سے اب دوسری پارٹی جمعیت علما اسلام ہے۔

سندھ کے اندر چالیس لاکھ سے اوپر یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اسپتال بند ہیں، سوائے کراچی کے یا ایک دو اور جگہ، کہیں پر بھی اسپتالوں میں ایک سادہ سا ایمرجنسی نظام کام نہیں کر رہا۔ ورلڈ بینک رپورٹ کہتی ہے کہ سندھ کے اندر پانی کے صاف نہ ہونے کی وجہ سے چالیس فیصد اسپتالوں کا وہ رخ کرتے ہیں جن کو Water Born بیماریاں کہا جاتا ہے۔ ایسے مرض یوں لگتا ہے کہ سارے سندھ کو کوئی مٹی کا طوفان اپنی زد میں لے بیٹھا ہے اور ایک زمانہ گزر گیا ہے جیسے یہاں کے 80 فیصد لوگ نہائے نہ ہوں۔ سوائے وڈیرے کی اوطاق کے باقی سب کچھ ٹوٹا پھوٹا نظر آئے گا۔ کسی دیوار پر رنگ نظر نہ آئے گا۔ گلیاں ٹوٹی پھوٹی، نالیوں سے پانی ابل رہا ہو گا۔ سڑکوں پر کوڑا و گند جس کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے آگ لگا دو۔

ایک بھی محکمہ اٹھایے جو قائم علی شاہ کی سلطنت عالیہ میں صحیح کام کر رہا ہو! خیر یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زرداری اب واپس نہیں آئیں گے مگر شرجیل میمن پانچ مہینے سے بحیثیت وزیر دبئی میں قیام کر رہے تھے جب یہ بات NAP کی میٹنگ میں آئی تو وہیں کھڑے کھڑے ان کے وزیر نہ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

بے حسی، سنگ دلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اس پر سندھی ووٹر کا سونے پہ سہاگا یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں ہی ان کو جتایا۔ یہ کون سی ریاضی ہے کوئی ہم کو بھی سمجھائے۔ جب ووٹ دینے والا غلام ہو تو پھر ایسے نتائج آنا بھی فطری عمل ہے۔

لب لباب یہ ہے کہ قائم علی شاہ کا متبادل ارباب رحیم ہے۔ ادھر بھی وڈیرے اور ادھر بھی وڈیرے اور ووٹر غلامانہ ذہنیت والا دہقاں۔ یہ ہے میرا سندھ جس کا رونا ہے۔

ایک طرف رینجرز ہے تو دوسری طرف قائم علی شاہ۔ اور یہ وڈیرے ہیں جو کچھ اس طرف ہیں اور کچھ اس طرف۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ لوگوں کو بیدار کیا جائے اور لوگوں کے ذریعے تبدیلی کا عمل ہونا چاہیے۔ کم از کم قائم علی شاہ کی حکومت آئینی تو ہے نہ کہ ارباب رحیم کی طرح کی حکومت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔