بلدیاتی اداروں کے لیے ایک اہم چیلنج

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 28 دسمبر 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

راقم کا یہ کالم ملک بھر کے شہری (بلدیاتی) اداروں خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہر کے بلدیاتی اداروں کے لیے درپیش آلودگی کے مسئلے اور اس کے حل کے حوالے سے ہے، اس میں عام لوگوں کے لیے بھی غور و فکر کا پہلو ہے۔

یوں تو آلودگی اس کرہ ارض کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، مگر گزشتہ ماہ گرما میں کراچی جیسے بڑے شہر میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی ہزاروں افراد کی ہلاکتوں نے ثابت کر دیا کہ ہمارے متعلقہ ادارے اس قدر ناکارہ ہو چکے ہیں کہ وہ گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کو ذرا بھی کم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس پس منظر میں بلدیاتی اداروں پر ایک جانب تو یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کی کار کردگی بہتر بنائیں اور دوسری اہم ترین ذمے داری یہ ہے کہ وہ کم از کم اپنی حدود میں آلودگی کو بڑھنے سے روکیں۔ پوری دنیا میں اس وقت درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کی ایک اہم ترین وجہ آلودگی میں اضافہ ہے۔

گزشتہ ماہ گرما میں کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی ہلاکتوں پر سندھ حکومت کی جانب سے قائم کی گئی ایک کمیٹی نے ہلاکتوں کی ذمے داری کا ایک سبب بھارتی علاقے راجھستان میں گرال کے مقام پر لگائے گئے کوئلے کے پاور پلانٹ کو قرار دیا، جس سے خارج ہونے والی حرارت نے کراچی میں درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی اور سندھ میں اگر سبزہ ہوتا تو اس درجہ حرارت میں آکسیجن کی کمی نہ ہوتی، جس کے باعث لوگوں کا دم گھٹنے لگا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت میں کول پاور پلانٹ سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک پندرہ ہزار بھارتی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت بجلی کے حصول کے لیے اسی قسم کے پلانٹ ساہیوال اور لاہور کی آر بی نہر کے کنارے لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔

اس تناظر میں آیندہ ماہ گرما سے قبل لوگوں کو ہلاکتوں سے بچانے کے لیے جہاں طبی سہولیات کے حوالے سے بہت سارے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں آلودگی کو ہنگامی بنیادوں پر کم کرنے کے لیے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم ابھی تک اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً جب کراچی شہر پر نظر ڈالتا ہوں تو معاملہ اس کے قطعی برعکس نظر آتا ہے، یہاں شہری ادارے بجائے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے خود سے آلودگی پھیلانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں، یہاں عیدالاضحیٰ کے بعد سے شہری ادارے کوڑا کچرا اٹھانے کے بجائے انھیں آگ لگا کر تلف کر رہے ہیں اور یہ عمل کراچی شہر کے گلی کوچوں ہی میں نہیں بلکہ عام مصروف ترین شاہراہوں پر بھی ہو رہا ہے۔

راقم نے اس سے قبل بھی اپنے کالم میں اور اخبارات میں مراسلے لکھ کر اور ٹی وی چینلز کے رپوٹرز کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی، مگر نتیجہ لاحاصل اور اب بھی کراچی شہر کے مختلف علاقوں مثلاً شاہ فیصل کالونی، موسیٰ کالونی، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، شادمان ٹاون، ناگن چورنگی، بفرزون، سہراب گوٹھ کے مرکزی پل کے دائیں بائیں اور نیچے بھی کچرے کے ڈھیروں میں لگی آگ سے اٹھنے والے دھویں نے شہر کو آلودہ کر رکھا ہے۔ یوں جن اداروں کا کام آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا تھا وہ مسلسل آلودگی میں اضافہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ خدانخواستہ آیندہ موسم گرما میں اگر اس شہر میں پھر ہیٹ اسٹروک سے ہلاکتیں ہوئیں، تو اس میں ان اداروں کا بھی بطور خاص حصہ ہو گا۔ راقم کے ایک دوست جو ارم ایوینو اپارٹمنٹ فیز ون بفرزون میں رہتے ہیں، کا کہنا ہے کہ شادمان بس اسٹاپ نمبر دو کے قریب کچرے سے اٹھنے والا دھواں ہوا کے باعث ان کے فلیٹ کے اندر تک آ رہا ہے، چنانچہ وہ دھویں سے بچنے کے لیے اپنے فلیٹ کے تمام دروازے بند کر کے فلیٹ کے اندر سردی کے موسم میں مجبوراً پنکھے چلاتے ہیں۔

آلودگی کا مسئلہ صرف کراچی شہر کا ہی نہیں پوری دنیا کا ہے۔ پڑوسی ملک چین میں بھی یہ مسئلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور بھارت بھی اس کے بعد خطرناک صورتحال سے دوچار ہے، ان دونوں ممالک کی ترقی کے باعث ان کی پیدا کردہ آلودگی سے پاکستان بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے عالمی ادارے سے رجوع کرتے، مگر افسوس ہم تو خود ہی آلودگی بڑھا کر اپنی ہلاکتوں کا سامان کر رہے ہیں۔

راقم کے خیال میں ایک طویل عرصے بعد اس ملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں، اگر اب قائم ہونے والی بلدیاتی حکومتیں اس طرف توجہ دیں تو وہ بھی اس آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، کیونکہ ان اداروں کا عوام سے براہ راست دن رات رابطہ رہتا ہے، لہٰذا وہ عوام میں شعور بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ مثلاً عوام میں یہ شعور کہ اشیاء کو استعمال کے بعد یوں ضایع کرنے کے بجائے مزید کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا جیسے رنگ یا گھی وغیرہ کے خالی ڈبوں کو کچرے دان کے طور پر استعمال کرنا، اسی طرح صفائی کے ضمن میں شعور پیدا کرنا اور خاص کر سبزہ لگانے کی جانب مائل کرنا۔ لیکن ان سب کے لیے پہلے ان منتخب بلدیاتی نمایندوں کو خود عمل کر کے دکھانا ہو گا، یعنی اگر وہ خود کچرے کے ڈھیر کو آگ لگا کر آلودگی میں اضافہ کریں گے تو عوام کو نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اس وقت پورے ملک خصوصاً شہر کراچی میں اور سندھ میں ایک بہت بڑی شجر کاری مہم کی ضرورت ہے، جو آیندہ موسم گرما میں درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے اور لوگوں کو آکسیجن فراہم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اگر وفاقی حکومت اس سلسلے میں کوئی کام کرے تو بہت اچھا ہو گا، ورنہ بلدیاتی نمایندوں کو چاہیے کہ وہ ازخود اپنے اپنے طور پر ہی کچھ نہ کچھ کردار ادا کریں۔ کراچی جیسے شہر میں درجہ حرارت اور آلودگی میں اضافے کا ایک سبب یہاں کا طرز رہائش بھی ہے، اس شہر میں اب پتلی اور اونچی عمارتوں کا کلچر چل نکلا ہے، شہر کے وسط میں جگہ ختم ہو جانے کے بعد اب چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر کر کے رہائش کے لیے فروخت کرنے کا رحجان غالب آ گیا ہے جس سے سرمایہ داروں کے منافع میں خاطر خواہ اضافہ تو ضرور ہو گیا ہے مگر شہریوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، جس میں سے ایک پریشانی آلودگی میں اضافہ اور سبزہ کی کمی ہے۔

ظاہر ہے کہ جب شہر سے کھلی فضا اور درختوں کے جھنڈ ختم کر کے کنکریٹ کے جنگل کو قائم کر دیے جائیں تو ایسے میں آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے نہ کہ پر فضا مقام میں کہ جہاں گاڑیوں کے دھویں کے بجائے صاف ستھرا ماحول ہو۔ شہری اداروں کو چاہیے کہ وہ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات کی اجازت نہ دیں اور سرسبز پارک بڑی تعداد میں قائم کریں، نیز ہر نئے رہائشی پروجیکٹ کے اجازت نامے کو سرسبز پارک کے قیام کے ساتھ مشروط کریں ، تمام دکانداروں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی اپنی دکان کے آگے کم ازکم ایک درخت یا پودا ضرور لگائے۔

مذکورہ باتیں ہم سب کی قیمتی زندگیوں سے انتہائی اہم تعلق رکھتی ہیں، آیئے اپنی قیمتی زندگی کے بارے میں ان گزارشات پر غور کریں اور دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔