ہم نے اپنے بچوں سے خواب چھین لیے ہیں

عارف محمود  پير 29 اکتوبر 2012
اچھا لکھنے والوں کی کمی نہیں، لیکن یہاں اُن کی قدر نہیں کی جاتی، تسنیم صنم   فوٹو : فائل

اچھا لکھنے والوں کی کمی نہیں، لیکن یہاں اُن کی قدر نہیں کی جاتی، تسنیم صنم فوٹو : فائل

یہ اُس شاعرہ کی کہانی ہے، جس نے روایتی ماحول کی آغوش میں آنکھ کھولی، اور روایت شکنی کی روش اپنائی۔

قبائلی رنگ میں رچے اہل خانہ شعر وادب کو زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، لیکن وہ تو اسکول ہی کے زمانے میں خیال کی بُنت، اشعار کی صورت اُس کے اظہار کے سحر میں مبتلا ہوگئیں۔ زمانۂ طالب علمی میں بچوں کے لیے نظمیں لکھنا شروع کیں، اور پھر مُڑ کر نہیں دیکھا!

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پشتون ہونے کے باعث تسنیم صنم پشتو زبان کا انتخاب کرتیں، لیکن اُنھوں نے اردو زبان کو توجہ کا مرکز بنایا۔ شاعری کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ ادبی حلقوں میں شناخت بنائی۔ آج ایک سنجیدہ مقرر کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔ بلوچستان کی واحد خاتون ہیں، جو تاریخ جیسے دقیق موضوع پر لیکچرز دیتی ہیں۔ یہ کام مرد توکررہے ہیں، لیکن اُن کے سوا کوئی خاتون تلاش کرنا مشکل ہے۔ پیشے کے لحاظ سے معلمہ ہیں۔ ادبی سرگرمیوں اور ملازمت کے ساتھ ایم فل بھی کررہی ہیں۔

تسنیم صنم 20 جنوری 1964 کو بلوچستان کے ضلعے، لورالائی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ پھر والدین کے ساتھ کوئٹہ منتقل ہوگئیں۔ 1982 میں ریلوے گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ 1986 میں اُن کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی تعلیم جاری رکھی، شعر کہتی رہیں۔

آج اُسی اسکول میں تدریسی ذمے داریاں نبھا رہی ہیں، جہاں کبھی خود زیرتعلیم تھیں۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا سلسلہ بھی زمانۂ طالب علمی میں شروع ہوا۔ بتاتی ہیں، نویں میں تھیں، جب اندرون کی پکار اشعار میں ڈھلنے لگی۔ اس وقت کوئی راہ بر نہیں تھا۔ پھر ملاقات بلوچستان کی نام وَر ادیبہ، یاسمین صوفی سے ہوئی، جنھوں نے شعرگوئی کے میدان میں حوصلہ افزائی کی۔ یاسمین صوفی کے بعد وہ آغا گل اور ہاشم ندیم کو اپنا استاد مانتی ہیں۔

تسنیم بتاتی ہیں، اُن کا تخلص ’’صنم‘‘ یاسمین صوفی ہی کی دین ہے۔ ’’اُس دور میں ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تخلص کیا ہوتا ہے۔ میرے اساتذہ نے انگلی پکڑ کر مجھے چلنا سکھایا۔‘‘ راہ نمائی کے عمل میں اُن کے شوہر، عرفان الحق صائم کا بھی بڑا عمل دخل رہا، جو خود بھی شاعر ہیں۔ اُن کا نعتیہ مجموعہ ’’دریائے نور‘‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے، جب کہ دوسرا مجموعہ ’’سیل جنون‘‘ اشاعت کے قریب ہے۔ عرفان الحق کالم نگار کی حیثیت سے بھی شناخت رکھتے ہیں۔ ادبی سرگرمیوں میں میاں بیوی عام طور سے اکٹھے نظر آتے ہیں۔ تسنیم صنم کہتی ہیں، شوہر بھی اُن کے استاد ہیں، اُن کے دیگر شاگرد تو فون پر اصلاح لیتے ہیں، البتہ وہ اِن معنوں میں خوش قسمت ہیں کہ جُوں ہی پہلا مصرع سُوجھتا ہے، راہ نمائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ماضی بازیافت کرتے ہوئے تسنیم صنم بتاتی ہیں کہ اُنھیں 1993 میں اپوا گرلز ہائی اسکول میں ملازمت ملی، اِسی دوران اُن کا تعلق ادبی تنظیم ’’گہوارہ فن‘‘ سے جُڑ گیا۔ بچوں کے لیے نظمیں تو پہلے ہی کہہ رہی تھیں، 1980 سے نگارشات اخبارات و رسائل میں چھپ رہی تھیں، ادبی حلقے سے وابستگی کے بعد اِس عمل میں تسلسل آگیا۔ 1994میں پہلی بار مشاعرہ پڑھا، جو کوئٹہ میں منعقد ہوا تھا۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ کُل پاکستان مشاعروں میں شرکت کی۔ کراچی، لاڑکانہ اور دیگر شہروں ہونے والے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کیا۔ وہاں مقالے بھی پڑھے۔

ریڈیو اور ٹی وی پر ہونے والے مشاعروں میں تواتر سے شرکت کی۔ خواتین کے پروگرامز میں میزبانی کا فریضہ نبھایا۔ انٹرویوز بھی کیے۔ 2010 میں جب پہلا شعری مجموعہ ’’کچھ خواب مژگاہ‘‘ شایع ہوا، تو ادبی حلقوں میں اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اگلا ایڈیشن بھی جلد ہی آگیا۔ اب تیسرے ایڈیشن کی تیاریاں ہیں۔ تازہ مجموعہ بھی زیر ترتیب ہے۔ افسانوی مجموعہ ’’بند دریچے کی ہوا‘‘ کی اشاعت بھی جلد متوقع ہے۔

چُوں کہ سفر کا آغاز بچوں کے ادب سے کیا تھا، اِس لیے بچوں کے لیے لکھنے کی خواہش آج بھی تازہ ہے۔ دُکھ ہے کہ ہمارے ہاں اِس ضمن میں کام نہیں ہورہا۔ ’’بڑوں کے لیے تو سب ہی لکھتے ہیں، لیکن بچوں کے لیے کسی نے سنجیدگی سے نہیں لکھا۔ میں بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا چاہتی ہوں۔ اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں۔ ہمارے بزرگ ہمیں ایسی کہانیاں سُنایا کرتے تھے، جو سبق آموز ہوتیں۔ مگر آج کل بچوں کے ادب کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے، وہ فقط گراوٹ کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ ادب جو بچوں کو تشدد کی جانب مائل کرے، اُنھیں پسند نہیں۔ شکایت ہے کہ ہم نے اپنے بچوں سے خواب چھین لیے ہیں۔ ’’اب وقت آگیا ہے کہ تمام ادیب ایسی کہانیاں لکھیں، جو بچوں کی اخلاقی تربیت میں معاون ہوں۔‘‘

تسنیم صنم نے اپنی شاعری میں معاشرتی مسائل اجاگر کیے، سماجی ناہم واری کو موضوع بنایا۔ عورت بھی اُن کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ کہتی ہیں،’’عورتوں کو آج کئی مسائل درپیش ہیں۔ میں نے اپنی شاعری میں رشتوں کے حوالے سے بات کی ہے۔ ماں، بہن اور بیٹیوں کی بابت لکھا ہے۔‘‘ اُن کے افسانوں میں بھی یہی موضوعات نظر آتے ہیں، خصوصاً عورت کا مسئلہ نمایاں ہے۔ ’’دیکھیں، عورت معاشرے کا بنیادی ستون ہے۔ اِس ستون کو مضبوط ہونا چاہیے، تاکہ یہ معاشرے کا بوجھ اٹھا سکے۔‘‘ کہنا ہے، ہم نے عورت کو اِس قدر کم زور کردیا ہے کہ وہ محدود ہوگئی ہے۔

’’ہم نے عورت کو روایات میں باندھ رکھا ہے۔ اُنھیں اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہیے۔‘‘ یقین رکھتی ہیں کہ اگر عورت کو حقوق حاصل ہوں گے، کام کرنے کی آزادی ہوگی، تو وہ ہر شعبے میں خود کو منوا سکتی ہے۔ اُن کے نزدیک اگر ہم اُسے آزادی نہیں دیں گے، تو معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔

بلوچستان کی ادبی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں،’’یہاں شاعری تو بہت اچھی ہورہی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم ایک کنویں میں بیٹھے ہیں، فقط کنویں کے اوپر کا آسمان دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنی شاعری کو باہر متعارف کروا سکیں۔ اِس کے لیے حکومتی اور نجی اداروں کی سرپرستی ضروری ہے۔‘‘ گروہ بندی کے خاتمے کو ضروری خیال کرتی ہیں۔ ’’صرف چند لوگ ہیں، جو ہر جگہ نظر آرہے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔ یہاں مخصوص گروہ کی اجارہ داری ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ادب محدود ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کے شاعر گوشہ نشین ہیں۔ کھل کر کوئی سامنے نہیں آرہا۔‘‘

تسنیم صنم بلوچستان کی مقامی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو بہترین قرار دیتی ہیں۔ کہنا ہے، بلوچی، براہوی، پشتو اور فارسی زبان میں معیاری ادب تخلیق ہورہا ہے۔ ’’ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن کتابوں کا ترجمے ہو، اُنھیں بیرون ملک بھجوایا جائے، اندرون ملک بھی لوگ انھیں پڑھیں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ بلوچستان میں ادب پر کتنا کام ہورہا ہے۔‘‘ ان کے بہ قول، اگر کوئی فرانسیسی ادیب اپنے ملک کے کسی دور افتادہ قصبے میں بیٹھا ہو، تب بھی اُس کا تخلیق کردہ ادب پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے، لیکن یہاں کے ادیبوں کا ذکر جرمنی اور فرانس میں نہیں ہوتا۔ کہتی ہیں،’’منیر احمد بادینی بلوچی زبان کے بڑے ناول نگار ہیں۔ اُنھوں نے90 ناول لکھے۔ وہ معیار میں کسی سے کم نہیں۔ اُن کے کام کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ اور بھی بہت سے لوگ ہیں، لیکن اُن کا کام یہیں تک محدود ہے۔ ایسے میں ادب بھلا کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔‘‘

ادبی وابستگی کی بات کی جائے، تو ’’دبستان بولان‘‘ اور ’’رائٹر فورم‘‘ سے اُن کا تعلق رہا۔ اِس وقت ’’انجمن ادب بلوچستان‘‘ کی جنرل سیکریٹری ہیں۔ اُن کے شوہر اِس تنظیم کے صدر ہیں، جب کہ صوبائی وزیر، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی چیئرپرسن ہیں۔ اِس ادبی تنظیم کے تحت مشاعرے، تنقیدی نشستیں منعقد کروائی جاتی ہیں۔ کہنا ہے، بلوچستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ازحد ضروری ہے کہ ادیب سامنے آئیں، اور اپنا کردار ادا کریں۔

نوجوانوں کی ادب سے دوری کے تعلق سے کہنا ہے، اِس کا ذمے دار میڈیا اور انٹرنیٹ کا بڑھتا استعمال ہے، جس نے نئی نسل کو کتابوں سے جدا کردیا۔ ’’میرا نوجوان نسل کو یہی پیغام ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے۔‘‘ اُن کے مطابق نوجوانوں کو ادب کی جانب راغب کرنے کے لیے ہمیں اسکول اور کالجز میں بزم ادب کے پروگرام منعقد کرنے ہوں گے۔ درس گاہوں میں لائبریروں کے قیام اور اُنھیں موثر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہیں۔ ’’میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہر چینل سے روزانہ فلمیں اور ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، ادبی پروگرامز کے لیے بھی کچھ وقت مختص کیا جائے، تاکہ ناظرین اِس جانب متوجہ ہوں۔‘‘

خدا نے تسنیم صنم کو ایک بیٹی، تین بیٹوں سے نوازا۔ چاروں زیر تعلیم ہیں۔ والدین کے دیکھا دیکھی بڑا بیٹا، احمد وقاص بھی شاعری کی جانب راغب ہوگیا ہے، باقاعدگی سے مشاعرے پڑھ رہا ہے۔ بڑی بیٹی بھی شعر و ادب سے لگائو رکھتی ہے۔ تسنیم صنم کا کہنا ہے، وہ اپنے بچوں کی مکمل راہ نمائی کررہی ہیں، اُن کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔ ’’نوجوان نسل جس قدر ادب کی جانب آئے گی، اتنا ہی ادب ترقی کرے گا۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اِس ضمن میں اپنی ذمے داری ادا کریں۔‘‘

سیاست میں گہری دل چسپی رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد، میاں نواز شریف پسندیدہ لیڈر ہیں۔ خود عملی سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں۔ کہنا ہے، سیاست ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں ہر اچھا شخص، بُرا بن جاتا ہے۔ ’’ہم تو فقط سیاست کی تجزیہ نگاری ہی کرسکتے ہیں!‘‘ موسیقی سے بھی شغف ہے ۔ پرانی موسیقی اور پرانی فلمیں شوق سے دیکھتی ہیں۔ مہدی حسن کے انتقال پر روتی رہی تھیں۔ نور جہاں کی دل دادہ ہیں، مالا اور لتا بھی پسند ہیں۔ ٹی وی سے پیش کیے جانے والے بیش تر ڈراموں کو جگت بازی سمجھتی ہیں ۔ کہنا ہے، اچھا لکھنے والوں کی کمی نہیں، لیکن یہاں اُن کی قدر نہیں کی جاتی۔ نیشنل جیوگرافک چینل شوق سے دیکھتی ہیں۔

کرکٹ پسندیدہ کھیل ہے، جس دن کرکٹ میچ ہوتا ہے، کوئی دوسرا کام نہیں کرتیں۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے پاکستان پسندیدہ ملک ہے۔ کہتی ہیں، اپنی سرزمین پر گھوم کر بہت سکون ملتا ہے۔ ’’اپنا ملک ہی واحد جگہ ہے، جہاں جب جی چاہے، جہاں جی چاہے، انسان چلا جاتا ہے۔‘‘ سرنگیں بہت پسند ہیں، اُنھیں محبت کی علامت تصور کرتی ہیں۔ کہنا ہے، ادیبوں کا کام محبت پھیلانا ہے۔ کھانے میں مچھلی سے رغبت ہے۔ بہت اچھی کُک ہیں۔ اُن کے بنائے ہوئے شامی کباب ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہیں۔ بھائی کی شہادت زندگی کا سب سے کرب ناک واقعہ تھا، جو نامعلوم افراد کی گولیاں کا نشانہ بن گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔