سال 2015ء پاکستان فلم انڈسٹری کے لئے کیسا رہا؟

محمد عثمان فاروق  بدھ 30 دسمبر 2015
افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک کے موجودہ فلم ساز بری طرح بالی ووڈ سے متاثر ہو کر بالی ووڈ فلموں کا چربہ اور کچرا دوبارہ پاکستانی فلموں کی صورت میں ’’ری پروڈیوز‘‘ کررہے ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک کے موجودہ فلم ساز بری طرح بالی ووڈ سے متاثر ہو کر بالی ووڈ فلموں کا چربہ اور کچرا دوبارہ پاکستانی فلموں کی صورت میں ’’ری پروڈیوز‘‘ کررہے ہیں۔

فلمی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پاکستان فلم انڈسڑی بہتری کی جانب گامزن ہے حالانکہ یہی نام نہاد فلمی پنڈت تھے جن کے دور میں پاکستان فلم انڈسڑی کا جنازہ نکلا۔ کیا واقعی پاکستان فلم انڈسٹری ایک نئی انگڑائی لے رہی ہے؟ کیا واقعی پاکستان فلم انڈسڑی وہی کردار ادا کررہی ہے جو اسے کرنا چاہیئے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں سال 2015 میں ریلیز ہونے والی چند اہم پاکستانی فلموں کا جائزہ لے کر بخوبی مل سکتا ہے۔

رونگ نمبر:

اس فلم کی کہانی ’’سلو‘‘ نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے۔ جس نے حال ہی میں بارہویں جماعت پاس کی ہوتی ہے اور وہ ایک فلم اسٹار بننا چاہتا ہے۔ جبکہ اسکا باپ ایک قصائی ہوتا ہے جوکہ چاہتا ہے اسکا بیٹا اسکا خاندانی کاروبار سنبھالے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فلم کا ٹیکنیکل کام یعنی کیمرہ ورک، عکاسی، سنیماٹوگرافی، میوزک، سیٹ ڈیزائیننگ اور فلم کی کتر و بیونت یعنی ایڈیٹنگ سب بہترین تھی مگر فلم کا ایک جنرل تاثر یہی تھا کہ یہ فلم کوئی 10 یا 15 بالی وڈ فلموں کا چربہ ہے اور فلم بنانے والے ذہنی طور پر بالی وڈ سے شدید ترین متاثر ہوکر فلم بنارہے ہیں۔

 

جوانی پھر نہیں آنی :

اس فلم کی کہانی ایک ایسے وکیل کی کہانی ہے جس کی اپنی بیوی سے طلاق ہوچکی ہے اور وہ بیویوں کے ستائے اپنے 3 دوستوں کو چھٹیاں گذارنے کے لئے کہیں دور لے جاتا ہے۔ اس فلم کو بھی مختصر لفظوں میں بیان کیا جائے تو نہ تو فلم کا موضوع نیا تھا نہ کہانی اور نہ ہی فلم میں تخلیق کا کوئی عنصر تھا۔ جبکہ فلم میں دکھائے جانے والے رقص اور خواتین کے لباس بالی ووڈ اسٹائل کی چغلی کھا رہے تھے۔

مور:

مور کو کمرشل فلم کی بجائے آرٹ فلم کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ ایک عام آدمی جو ٹکٹ خرچ کرکے تفریح کے لئے سنیما جائے گا اور اسے آگے سے ایک سست رفتار بورنگ ڈرامہ نما کہانی دیکھنے کو ملے گی تو وہ شاید دوبارہ پاکستانی فلم دیکھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ مور کی کہانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایسے شخص کی کہانی ہے جس کو خاندان کی سربراہ خاتون کے انتقال کے بعد شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم میں پاکستان ریلوے کے زوال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس فلم کا موضوع اچھا تھا اور اسے بہت بہتر انداز میں فلمایا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر نے یہ فلم صرف اپنے آپ کے لئے بنائی کیونکہ اس فلم میں خوبصورت مناظر کے سوا ایک عام ناظر کی دلچسپی کے لئے کچھ نہ تھا۔

منٹو :

منٹو شاید اس برس کی نا کام ترین فلم اور ایک اخلاقی طور پر تباہ شخص کو خوامخواہ مفکر بنانے کی ایک بھونڈی سی کوشش تھی۔ بنیادی طور پر فلم منٹو کی کہانی منٹو کی زندگی کے آخری 7 برسوں اور اس کے کچھ افسانوں کے ملغوبے پر عقیدت کا رنگ چڑھا کر منٹو کو اس صدی کا ایک عظیم شخص بنانے کی کوشش کی گئی تھی جو کہ میرے نزدیک تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف تھا۔ باقی اس فلم کو فلم کہنا بھی شاید ٹھیک نہیں تھا۔ اسے ایک بورنگ ٹیلی فلم یا ڈرامہ کہا جاسکتا ہے۔

کراچی سے لاہور تک 

اس فلم کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ فلم پاکستانی فیملیزکو سینما سے بدظن کرنے کی ایک کامیاب کوشش تھی تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ اس فلم کے جو مناظر اور ذومعنی ڈائیلاگز تھے انکی وجہ سے فلم کے پہلے ہاف میں ہی فیملی والے حضرات اٹھ کر جانا شروع ہوچکے تھے۔ فلم کی کہانی ایسے 5 دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو کراچی سے لاہور تک کا سفر کرتے ہیں اور اس دوران مختلف واقعات سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یہ فلم کہنے کو پاکستانی تھی مگر اس فلم میں لاہور اور کراچی کے سوا ’’پاکستانی‘‘ کچھ بھی نہیں تھا۔

بن روئے

اس فلم کو مکمل طور پر ایک زنانہ فلم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ ہم ٹی وی کے ڈراموں کی طرح یہ فلم صرف خواتین کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی روایتی محبت کی کہانیوں جیسی تھی کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ فلم کی کہانی سے ملتے جلتے ڈرامے اور فلمیں پہلے بھی کوئی ایک ہزار بار بنائے جا چکے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اس فلم کی کہانی پر مزید کام کرلیا جاتا۔

تجزیہ

فلمیں کسی بھی ملک کی تہذیب، ثقافت، روایات اوراخلاقیات کا آئینہ دار ہوتیں ہیں۔ بلکہ آجکل کے دور میں فلم کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اور انفارمیشن وار کا ایک اہم آلہ بن چکی ہے۔ ہالی ووڈ میں جس طرح دہشتگردی کی جنگ میں امریکی فوجیوں کو ہیرو بنایا جاتا ہے اور بالی ووڈ فلموں میں جس طرح پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو یہ بات پاکستانی حکومتوں کو بھی سمجھنی چاہیئے کہ اب جنگ سرحد پر نہیں میڈیا پر ہوتی ہے۔ اب جنگ گولی سے نہیں اپنے نظریات اور نقطہ نظر کی مضبوطی سے لڑی جاتی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک کے موجودہ فلم ساز بُری طرح بالی ووڈ سے متاثر ہو کر بالی ووڈ فلموں کا چربہ اور کچرا دوبارہ پاکستانی فلموں کی صورت میں ’’ری پروڈیوز‘‘ کررہے ہیں۔ ایک سادہ سی بات سمجھ لیں کہ امریکہ کی فلم میں لڑکی اگر اسکرٹ پہنتی ہے تو امریکہ کی سڑک پر بھی آپ کو اسکرٹ پہنے لڑکیاں نظر آئیں گی مگر پاکستانی فلموں میں خواتین کو جو لباس زیب تن کرے دکھایا جاتا ہے کیا وہ پاکستان میں عام خواتین کا لباس ہے؟

ہمارے ہمسائے میں ایران اور چین کی ایک بے مثال فلم انڈسٹری موجود ہے۔ اگر تقلید ہی کرنی ہے تو ان کی کامیاب فلم انڈسٹری کی جائے نہ کہ ایک بھارتی فلم انڈسٹری کی جو کہ خود ایک چربہ فلم انڈسٹری ہے۔ جہاں فلم کی کامیابی کا دار و مدار ’’آئٹم سانگ‘‘ کے نام پر بے ہودگی مچانے پر ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ فوری طور پر پاکستان میں ایک سرکاری طور پر ایک جدید فلم یونیورسٹی بنائی جائے۔ جس میں جدید فلم طریقہ ہائے کار کے ساتھ فلم میکنگ کے طالبعلموں کو پاکستانی تاریخ، ثقافت اور تہذیب پڑھائی جائے تاکہ اس یونیورسٹی سے جو پاکستانی فلمسازوں کی نئی کھیپ نکلے۔ وہ نہ صرف ایک شاہکار تفریحی فلم تخلیق کریں بلکہ ایسی فلم بنائیں جو پوری دنیا میں پاکستان کا تعارف بنیں۔ جو پاکستان کے اصل عوامی مسائل اور ان کے حل کو اس تفریحی انداز میں پیش کریں کہ نہ صرف ایک باپ اپنی بیٹی یا ایک بھائی اپنی بہن کے ساتھ بیٹھ کر بھی اس فلم کو اتنا ہی انجوائے کریں جتنا کہ ہالی وڈ کی کسی اچھی فلم کو کیا جاتا ہے۔ مگر چونکہ ہالی ووڈ کی اچھی فلمیں ہماری اخلاقیات سے متصادم ہوتیں ہیں۔ وہ ہم فیملی میں بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتے جبکہ جو پاکستانی فلم آتی ہے وہ بالی وڈ کے آئٹم سانگ کلچر کا بھونڈا سا مکسچر ہوتیں ہیں۔ لہذا موجودہ پاکستانی فلمسازوں کی تربیت اور ایک عمدہ پاکستانی فلمساز نسل تیار کرنے کے لئے پاکستان میں ایک معیاری سرکاری فلم یونیورسٹی کا قیام نا گزیر ہوچکا ہے۔

پاکستان میں بننے والی فلموں کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔