محبت

ذیشان الحسن عثمانی  پير 4 جنوری 2016
بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکڑی لگانے میں؟ فوٹو: فائل

بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکڑی لگانے میں؟ فوٹو: فائل

آج دنیا بھری پڑی ہے، محبت کے دعوے، محبت کی رسمیں، محبت کے وعدے، محبت کے فتنے اور محبت کی باتوں سے۔ مگر کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ کیا محبت کا کوئی وجود بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ واقعی کہیں پائی بھی جاتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محبوب کے لئے محبت تیاگ دے؟ چھوڑ دے اپنی مرضی اور مان لے جو محبوب چاہتا ہے۔ چل پڑے اس راہ پر جہاں محبوب موجود ہے۔

محبت کی تعریف کیا ہو؟ رقیب کون ہو؟ مثال کیا ہو؟

مجھے نہیں لگتا کہ اب محبت کی کوئی خالص قسم دنیا میں باقی بچی ہے۔ انسانوں میں تو کم از کم نہیں، اور محبت کی تعریف تو شاید ممکن بھی نہیں۔ یہ تو محبت ہے جو انسان کو ڈیفائن کرتی ہے نا کہ انسان محبت کو۔

آپ یقیناً میری باتوں سے اختلاف کر رہے ہوں گے، اور پتہ نہیں کون کون سی مثالیں آپ کے ذہن میں گردش کر رہی ہوں گی۔ مگر کیا ہم ان مثالوں کو محبت کی کسوٹی پر پرکھ پائیں گے؟ محبت چھوڑ دیتی ہے، محبت روند دیتی ہے، محبت جلا ڈالتی ہے، محبت مار دیتی ہے اور اسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہوا۔ محبت جلا بخشتی ہے۔ نم آنکھوں سے آغاز لینے والی محبت کی معراج بندگی ہے۔ ایک چُپ ہے جو تکتی رہتی ہے کہ کب دروازہ کھلے، کب دیدار ہو، کب وہ پوچھیں، کب وہ نام لیں، کب وہ خوش ہوجائیں، کب وہ مان جائیں اور کب وہ کہہ دیں کہ جا راضی ہوا۔

محبت کی ضد نفرت تھوڑا ہی ہے۔ نفرت تو ایک حیوانی جذبہ ہے۔ یہ حسد کی ماں ہے۔ انسانوں میں بھلا اِس کا کیا کام؟ محبت کی ضد تو آزادی ہے۔ محبت میں آدمی قید ہی تو ہوتا ہے۔ جو محبوب چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، جہاں چاہے وہاں حاضری دینی ہی پڑتی ہے۔ نہ اپنی مرضی چلے نہ خواہش بلکہ اِن کا الٹ ہی کرنا پڑتا ہے۔ محبّت میں آنکھیں ترجمہ کرتی ہیں، معنی دل پہناتا ہے اور ذہن و گمان کی کسک کو وجود بخشتا ہے۔

محبت میں سب سے بڑا رقیب نفس ہے۔ یہ نہیں ملنے دیتا محبوب سے اور انسان نادانی میں اِس سے ہی محبت کر بیٹھتا ہے پھر جو چاہے آجائے جیت نفس کی ہی ہوتی ہے۔

ماں باپ محبت کرتے ہیں اپنی اولادوں سے۔

جی ٹھیک کہا آپ نے، کبھی کرتے ہوں گے یا شاید وقتی طور پر۔ ماں باپ آپ کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ آپکو کھلاتے پلاتے ہیں۔ آپ کا نام رکھتے ہیں، اچھے بُرے میں خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب آپ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے ہر اچھے کرم کا حساب چاہیئے ہوتا ہے۔ ایک گھر میں ایک ہی والدین کی چار اولادیں۔ جو پیسہ کمائے، وہ پیارا، اس کی بیوی بھی اور بچے بھی اور جو کسی قابل نہ ہو پائے اسکی عزت گھر کے نوکر سے بھی گئی۔ غصّہ آئے تو عاق کردیں، گھر سے نکال دیں۔ اور بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکڑی لگانے میں؟

جو کام بدلے کی نیت سے کیا جائے بھلا وہ بھی محبت میں شمار ہوسکتا ہے؟

حکمرانوں کو اپنی عوام سے محبت ہے۔ جی خوب کہا! جس ملک میں غریب کے بچے کچرے کے ڈھیر پر رزق کے لئے کتوں سے لڑیں وہاں پوری صداقت سے آپکی بات کا یقین ہو ہی جاتا ہے۔ جس ملک میں گناہ و ثواب، نیکی و بد، سزا و جزا کا گمان تک مرگیا ہو وہاں ایسے جملے بولنا تہذیب کی عصمت دری کے برابر ہیں۔

اجی چھوڑئیے یہ باتیں، بیوی آخر شوہر سے محبت کرتی ہی ہے اسی لئے تو اپنا میکہ چھوڑ کے چلی آتی ہے۔ جی بھائی، صحیح کہا آپ نے۔ سالوں کی رفاقتوں کے بعد ایک جملہ غلط نکل جائے، ایک دن بُرا گزر جائے، آمدنی کم ہو جائے، بیماری آجائے، توجہ کہیں اور لگ جائے۔ یہی بیوی کہتی ہے کہ میں نے آج تک سکھ کی کوئی گھڑی نہ دیکھی۔ بچے اٹھائے اور یہ جا وہ جا۔ اب شوہر بے چارہ مناتا پھرے۔ یہی حال خاوند حضرات کا ہے۔ حسن زائل ہوجائے، بیماری آجائے یا بات میں سختی ہوجائے تو وہ اِسے چھوڑ اوروں کی تمنا کریں۔ پا سکیں یا نہیں، تمنائیں تو روز مچلتی ہیں۔ تُف ہے ایسی محبت پر۔ محبوب کے سامنے کسی اور کا خیال بھی آجائے تو یہ محبت میں شرک ہے اور یہاں ایسے بھی کہ گھنٹوں محبوب کے سامنے کھڑے اور بیٹھے دلوں میں کسی اور کے خیال سجائے بیٹھے ہیں اور پھر دعویٰ محبت کا۔ واہ بھئی واہ۔ کیا معصومیت ہے۔

چلیں یہ تو مانیں گے کہ لڑکے کو لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے یا یہ بھی نہیں۔ یہ بھی اچھی کہی۔ رات رات بھر کے نائٹ پیکجز، گھنٹوں باتیں، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں، زندگی نبھانے کے وعدے، مگر شادی ہوجائے تو؟ اب یہی نائٹ پیکجز، وعدے اور قسمیں کہیں اور؟ کیا آپکو یقین ہے کہ یہ محبت ہی تھی یا کوئی جسمانی طلب؟ آج کل کی محبتوں کا نشہ تو 6 ماہ میں ہی اُتر جاتا ہے۔

چلیں، آپ تو کوئی مولوی صاحب لگتے ہیں، اللہ کے لئے تو بندہ محبت کرتا ہی ہے۔ جی صحیح کہا آپ نے۔ لوگ پتہ نہیں بندوں سے اللہ کے لئے محبت کا دعوٰی کیسے کرلیتے ہیں مجھے تو آج تک اللہ سے اللہ کے لئے محبت نہ ہوسکی اور سونے پہ سہاگہ، بندوں سے اللہ کے لئے ناراض بھی ہوجاتے ہیں، قطع تعلق بھی کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ جس سے تم تمام عمر میرے نام پر ناراض رہے اسے تو میں نے بخش دیا تھا تو پھر؟ مجھے لگتا ہے کہ محبت صرف یک طرفہ ہوتی ہے۔ دو طرفہ تو بزنس ہوتا ہے۔

اور جو بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، اس کا کیا؟ جی، وہ تو اچھی بات ہے کرنی بھی چاہئیے۔ اللہ جلّ جلالہُ کا حق بنتا ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ محبت وہ خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ یہ آنکھوں، چہروں اور رویوں میں نظر آنے لگتی ہے۔ دلوں پر راج کرتی ہے، ذہنوں میں گونجتی ہے اور شخصیت کو نکھار دیتی ہے تو پھر وہ محبت جو ہم اللہ سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ آنکھوں میں کیوں نہیں چمکتی، نہ چہروں پر دمکتی ہے، نہ سانسوں میں دہکتی ہے، نہ دلوں پر راج کرتی ہے، نہ خوشبو پھیلاتی ہے، نہ شخصیت میں بہار لاتی ہے، نہ راتوں کو رُلاتی ہے، نہ لہجوں میں سلگتی ہے، نہ طبیعت میں مچلتی ہے، نہ نیندوں سے اٹھاتی ہے، نہ سوتوں کو جگاتی ہے، نہ ہی اعمال بدلتی ہے، نہ ہی سر چڑھ کے بولتی ہے، نہ ہی کہیں رکھ چھوڑتی ہے ، نہ ہی ہجرت کراتی ہے، نہ ہی آس دلاتی ہے، نہ ہی رب سے ملاتی ہے۔ ایسی خالی خولی بےاثر محبت کو بھلا کون محبت مانے؟

مجھے تو نظر نہیں آسکی آپ کی یہ محبت، اگر آپ کے پاس کوئی اور مثال یا ثبوت ہو تو پیش کریں۔

جہاں تک رہی اپنی بات، میں تو محبت کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہوں اس کی بارگاہ میں، جو تمنّا دیکھ کے مراد بر لاتا ہے۔ کیا پتہ کب اِس بہروپیئے کو اصل کردے۔

محبت کے حوالے سے بیان کیے گئے بلاگر کے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔