کیا سب کچھ سپریم کورٹ درست کرے گی؟

غلام محی الدین  پير 29 اکتوبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

سی این جی کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی کی شکل میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستانی عوام کو ایک اور خوشی کی خبر ملی ہے۔

جمعرات کو جاری کیے جانے والے عدالتی عبوری حکم کے نتیجے میں گیس کی قیمت میں فوری طور پر 30.89روپے فی کلو کی کمی کردی گئی ہے۔ قیمت میں یہ کمی اتنی زیادہ ہے کہ اس پر یقین آنے میں بھی کچھ دن لگیں گے۔ ذرا ا ندازہ لگائیں کہ سی این جی اسٹیشنز لوگوں کو یہ سہولت فراہم کرنے اور اپنی تنصیبات کی دیکھ بھال کے لیے آپریٹنگ کاسٹ کے نام پر ہر کلوگرام پر 22 روپے وصول کررہے تھے۔ منافع کی اس شرح سے گمان ہوتا ہے کہ اگر سی این جی اسٹیشنز کے مالکان کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں تو ان کی غالب اکثریت پاکستان پر دائمی حق حاکمیت رکھنے والے طبقے کے قرابت داروں کی ہوگی۔

حکومت کے ڈویلپمنٹ سرچارج اور جنرل سیلزٹیکس میں کٹوتی ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں 9 روپے فی کلوگرام کا عظیم نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ وزارت پٹرولیم کے حکام کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں یہ کمی عید کے 4 روز کے لیے ہے۔ چھٹیوں کے بعد سی این جی انڈسٹری کے صلاح مشورے کے بعد قیمتوں کے تعین کا نیا فارمولا طے کیا جائے گا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد سے ملکی امور میں عدالت عظمیٰ کا کردار تمام اداروں سے نمایاں رہا ہے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے ہر اُس معاملے پر از خود نوٹس لیا جسے حکمران نظر انداز کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرو اہم مقدمات میں ہمارے ملک کی رولنگ کلاس اپنے سیاسی کلچر کو ہر قیمت پر تحفظ دینے کی حکمت عملی پر کاربند ہے، جس میں ایک مخصوص طبقہ ہر قسم کی قانونی بندشوں سے آزاد رہنے کو اپنا پیدائشی حق تصور کرتا ہے۔

یہ ایک ایسا کلچر ہے جس میں کسی ملزم کو تھانے سے ہتھکڑی سمیت چھڑا کر لے جانے جیسی غیرقانونی حرکت کو سیاسی مقبولیت سے حاصل ہونے والا اختیار تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے عدالتی کارروائی کو جس قدر تعاون فراہم کیا جاتا رہا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ معاملات کو درست سمت دینے کے لیے اس حد تک چلی جاتی ہے جس حد تک جانا آئینی طور پر اس کے لیے ممکن ہے۔ لیکن بد قسمتی عدالت عظمیٰ کا یہ نیا کردار، جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی‘ معاشرے کے عمومی رویے میں تحریک پیدا کرنے کے بجائے لوگوں میں پہلے سے انتہا کی حدوں کو چھوتی ہوئی غیرفعالیت کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہا ہے۔

حکومت یا یوں کہنا چاہے کہ ہماری رولنگ کلاس کے لامحدود اختیارات کی چھتری تلے جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس کے آگے بند باندھنے کی ذمے داری سب سے زیادہ سول سوسائٹی کی ہے‘ جو مافیا عام لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالتا ہے اس کی پشت پناہی تو اسی طبقے کی طرف ہوتی ہے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کے سیاہ و سفیدکا مالک ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس کردار کے نتیجے میں اگر معاشرے میں تحریک پیدا ہوجائے اور لوگ اپنے جائز حقوق کے لیے منظم ہوکر قانونی جدوجہد پر آمادہ ہوجائیں تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہوگی، لیکن بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ تاثر زیادہ جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ ملک کے ہر بگڑے ہوئے مسئلے کو سپریم کورٹ درست کرے گا۔ اسی تاثر کی نفی کرنے کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ 17 جج کس طرح مُلک کے تمام معاملات کو چلا سکتے ہیں؟، یعنی یہ توقع رکھنا درست نہیں کہ ملک کے تمام اداروں کا کام سپریم کورٹ کرے گی۔

دوسرا پریشان کن تاثر یہ ہے کہ ان تمام مثبت تبدیلیوں کے پیچھے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی شخصیت کارفرما نظر آتی۔ حالانکہ اس کا زیادہ مثبت تصور یہ ہوتا کہ معاشرے میں ان تبدیلیوں کے لیے سپریم کورٹ بحیثیت ایک ادارہ کے نمایاں طور پر ذمے دار قرار دیا جاتا۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی یہی چاہے گا کہ اعلیٰ عدلیہ ہمیشہ اپنا کردار اسی طرح ادا کرتی رہے لیکن اس بات کی تو کوئی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا کہ شخصیات بدل جانے سے بحیثیت ایک ادارہ سپریم کورٹ کا کردار بھی تبدیل نہیں ہوجائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی کی خواہش اور اس کے نتیجے میں جدوجہد کا عمل لوگوں سے شروع ہونا چاہیے۔

لوگوں کو منظم کرنے کا مؤثر ترین پلیٹ فارم سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری تمام بڑی جماعتیں عوام کو کسی نظریئے کے گرد جمع نہیں کرتیں بلکہ عوام سے شخصیات کی اطاعت کا تقاضا کرتی ہیں۔ یقیناجماعت اسلامی اس فہرست میں شامل نہیں لیکن جماعت کی ترجیحات میں لوگوں کو عوامی حقوق کے لیے منظم کرنا پہلے نمبر پر نہیں۔ میرا خیال ہے کہ برصغیر کو چھوڑ کر شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں سیاسی جماعتوں کے ایسے نام دیکھنے کو ملیں جس میں جماعت کو سربراہ کے نام سے پہچانا جاتا ہو۔ ہماری پارٹیوں کی ترجیحات میں یہ بات بھی شامل نہیں ہوتی کہ پارٹی کی تنظیم سے معاشرے میں بہتری کا کوئی کام لیا جانا ہے۔ نچلی سطح تک قائم تنظیمی ڈھانچے کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ کس طرح حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

اسی لیے نچلی سطح پر پارٹی کے کرتا دھرتا وہ لوگ ہوتے ہیں جو عملی طور پر مار دھاڑ کا اچھا خاصہ تجربہ رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے انتخابات کے مہینوں میں پوری طرح فعال ہوتے ہیں اور الیکشن گزر جانے کے بعد ان کا وجود تو برقرار رہتا ہے لیکن ان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر ہماری سیاسی جماعتوں کو بااختیار اور متحرک تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی جو اقتدار کا سارا عرصہ ان کے لیے وبال جان بنا رہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے اپنے ڈنڈا برداروں کو متحرک کیا جاتا ہے اور وقت گزر جانے کے بعد یہ تنظیمیں پھر گہری نیند سو جاتی ہیں۔ وجہ یہ کہ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو پارٹی کے اندر کسی ایسی قوت کا وجود ہرگز گوارا نہیں ہوتا جو انھیں سیدھے راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرے۔

ہماری بڑی سیاسی جماعتوں سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ وہ عوام کو حقیقی طور پر بااختیار حیثیت دینے پر راضی ہوجائیں گی۔ عوام سے ان کا تعلق صرف ووٹ لینے کی حد تک ہے۔ ہمارے سیاسی منظرنامے پر جو ایک پارٹی حقیقی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اُبھری ہے اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور اس میں شامل لوگوں کے پاس سردست گلی محلہ کی سطح پر لوگوں میں حقوق کا ادراک اور سیاسی شعور پیدا کرنے کا واضح ایجنڈا موجود نہیں ہے۔ ان کی تمام تر توجہ بھی فی الحال الیکشن پر مرکوز ہے۔

اس وقت ہمارے لیے غور و فکر کا سب سے اہم موضوع یہی ہے کہ اگر عوامی سطح پر ملکی معاملات میں درستگی کی تمام تر امیدیں سپریم کورٹ کے ساتھ وابستہ کرلی جائیں گی تو معاشرے کے لیے یہ ایک نشے کے مترادف ہوگا۔ اگر لوگوں کے اندر تبدیلی کے لیے جدوجہد کا شعور نہیں۔ لوگ اپنے حقوق کے لیے اپنی سیاسی وابستگیوں پر نظرثانی کے لیے تیار نہیں۔ اگر عدلیہ کے فیصلے ان میں یہ یقین پیدا نہیں کر رہے کہ جو کل تک سوچا نہیں جا سکتا وہ آج ممکن ہے اور ان تبدیلیوں کا تحفظ خود پاکستانی عوام نے کرنا ہے تو یقین جانیئے یہ سحر ختم ہوتے دیر نہیںلگے گی اور ہماری رولنگ کلاس معاملات کو پہلے والی ڈگر پر واپس لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس تاثر کو زائل ہونا چاہیے کہ ملک کا ہر بگڑا ہوا معاملہ سپریم کورٹ درست کرے گی۔

سپریم کورٹ نے پاکستان کے عوام کو ایک راہ دکھا دی ہے۔ سرنگ کے آخری کنارے پر روشنی نظر آرہی ہے‘ باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کو اپنی بے عملی کا جواز بنانے کے بجائے سول سوسائٹی کو اس ایک نکتے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی روش کو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔ صرف وہی تبدیلیاں دیرپا اور دائمی قرار پاتی ہیں جنھیں اپنے آغاز کے ساتھ ہی پروان چڑھانے اور مستحکم کرنے والے ہاتھ میسر آجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔