قانون کی حکمرانی سے جمہوری انحراف

اکرام سہگل  منگل 29 دسمبر 2015

سندھ پولیس نے حیدرآباد میں ایک شوگرمل اور ٹنڈو محمد خان کی شوگر مل کا کنٹرول حاصل کرکے اس کی انتظامیہ کو ہٹا دیا۔ چنانچہ اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے اس قدر کیوں خلاف ہے۔

ممکن ہے کہ وفاقی حکومت جمہوریت کو بچانے کی خاطر اس واقعے کو نظرانداز کر دے لیکن یہ واقعہ ان لوگوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے جو قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر متعین ہیں۔ اس حیرت نہیں کہ سندھ ہائی کورٹ میں سندھ کے درجن بھر سے زیادہ سینئر افسران کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہے۔ آخر پولیس اپنے کتنی قانون شکنی کرے گی؟ کیا اس کے لیے ہماری عزت مآب اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ان کی کلائی پر ایک ہلکی سی چپت ہی لگائی جائے گی یا کہ اتنا سخت پیغام دیا جائے گا کہ پولیس کو سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت سندھ کی طرف سے رینجرز کے خصوصی اختیارات میں توسیع کرنے سے اس بناء پر گریز کیا گیا کہ انھوں نے سرکاری دفاتر پر چھاپہ مار کر افسروں کو گرفتار کیا اور سرکاری ریکارڈ کو ضبط کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جب کہ ان کو صرف چار خطرناک جرائم کے خلاف کارروائی کا مینڈیٹ حاصل تھا جس میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری شامل ہیں۔ سندھ اسمبلی کی قرارداد میں دہشت گردی کا ذکر ضرور موجود ہے لیکن باقی کے اختیارات واپس لے کر رینجرز کو ایک چوکیدار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کرپشن میں زیادہ تر سرکاری رقوم خوردبرد کی جاتی ہیں۔ اگر ہم سرکاری محکموں کو احتساب سے مبرا قرار دے دیں تو آخر ہم کس کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں؟ اس کے خلاف پوری سول سوسائٹی کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا جب کہ صرف پیپلزپارٹی کے سرگرم عناصر نے اس کی مخالفت کی ہے۔

سب کو علم ہے کہ یہ سارا ڈرامہ ڈاکٹر عاصم کو بری کرانے کے لیے رچایا جا رہا ہے کیونکہ انھیں ڈاکٹر عاصم کے وعدہ معاف گواہ بننے کا خطرہ ہے۔ایک جے آئی ٹی (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم) جو رینجرز، کراچی پولیس، انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمایندوں پر مشتمل ہے، وہ متفقہ طور پر اس بات پر رضامند ہو گئی کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ مزید براں جے آئی ٹی نے یہ بات بھی ریکارڈ کی ہے کہ بااثر سیاسی شخصیات نے نہ صرف لیاری گینگ وار میں لڑنے والے گروپوں میں مسلح تصادم کرایا جو بھتہ خوری، اراضی پر قبضے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے جیسے عذیر بلوچ، بابا لاڈلا گروپ وغیرہ جب کہ لیاری گروپوں اور ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز کے درمیان مسلح تصادم کرانے کے لیے انھیں غیرقانونی ہتھیار بھی فراہم کیے۔

جہاں تک دہشت گردوں کے طبی علاج کا تعلق ہے، تفتیشی پولیس افسر جسے سندھ حکومت نے مقرر کیا تھا اس نے 11 دسمبر کو عدالت کو بتایا کہ چونکہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا لہٰذا انھیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 497 کے تحت رہا کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی سرگرمیوں کے تسلسل پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس سے نہایت دلچسپ حقائق آشکار ہوتے ہیں۔

پہلے تو یہ کہ تفتیشی رپورٹ کو متعلقہ ایس ایس پی نے ریکارڈ وقت میں منظور کر لیا جس کے بعد ان کے سینئر افسر ڈی آئی جی نے بھی منظوری دے دی اور حتمی طور پر سندھ پولیس کی لیگل ٹیم نے بھی اسے منظور کر لیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یہ رپورٹ مسترد کر دی جس میں پیپلز پارٹی کے لیڈر کو بری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جب کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسے جیل بھیج دیا  لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے کھلے عام جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کے مقدمے میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کو ہٹا کر ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے جیالے رکن کو مقرر کر دیا۔ اس اقدام سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے ’’جمہوری عزائم‘‘ آشکار ہوگئے۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کس قدر کھوکھلا ہے جو کہ عام بے گناہ شہریوں کی مدد کے بجائے کرپٹ افراد کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ فوجداری نظام انصاف میں بہت سنگین خامیاں موجود ہیں لیکن یہ صرف اس صورت میں کام کرتا ہے جب حکومت خود قانون کی بالادستی کا خیال رکھتے ہوئے مجرموں کی کھلے عام پشت پناہی نہ کرے۔ ڈاکٹر عاصم کا معاملہ ایک طرف پولیس کے دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے،اس کے ساتھ ہی پراسیکیوشن برانچ کی نااہلی کو آشکار کرتا ہے۔

سندھ اسمبلی میں جو مشروط قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ رینجرز کسی کارروائی سے پہلے سندھ کے وزیر اعلیٰ سے اجازت حاصل کریں اور کسی سرکاری دفتر پر چھاپہ مارنے سے پہلے وارنٹ حاصل کریں۔ اس قرارداد میں دہشت گردی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے البتہ یہ کہا ہے کہ رینجرز کو دہشت گردی سے براہ راست تعلق پر کسی کی گرفتاری کے علاوہ سرکاری دفاتر میں بغیر پیشگی اجازت چھاپہ مارنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ رینجرز کے اختیارات کی مدت میں 60 دن کی توسیع کر دی گئی ہے جو 5 دسمبر کو ان کی اس مدت کے خاتمہ کے بعد شروع ہوئی۔

دوسری طرف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ کراچی اپریشن  شہر میں امن و امان کی مکمل بحالی تک جاری رہے گا۔ وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری کو بھی مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو 1997ء کے انسداد دہشت گردی کے لیے حاصل ہونے والے اختیارات میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی۔ دریں اثناء کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے رینجرز ہیڈکوارٹرز میں تاجروں کے وفد سے خطاب میں کہا ہے کہ کراچی آپریشن اسی رفتار سے جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔