نامعلوم قاتلوں اور گمنام مقتولین کا شہر ناپرساں

شاہد سردار  منگل 29 دسمبر 2015

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور ’’منی پاکستان‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ ملک کی بہت بڑی بندرگاہ اور صنعتی و تجارتی شہر ہے جہاں سے ملک کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں اسے ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا، ایسا تھا بھی لیکن پھر نہ جانے اس شہر کو کس بدنظر کی نظر لگ گئی کہ یہ سنگین جرائم کی لپیٹ میں آ گیا۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم روز کا معمول بن گئے۔

شہر میں مختلف مافیاز بن گئے اور ان کے آپس میں ٹکراؤ سے قتل و غارت گری نے جنم لیا۔ وقت کی حکومتوں نے جرائم کے خاتمے کے لیے بروقت اور سخت اقدامات نہیں کیے بلکہ بعض سیاسی جماعتوں پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی کارکن اس میں ملوث ہیں اس طرح روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ مارکیٹوں اور بازاروں میں ’’بھتہ پرچیاں‘‘ کھلے عام تقسیم ہونے لگی تھیں۔ ڈاکٹروں اور پروفیسروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی تاکہ پڑھے لکھے لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوں۔

اس حوالے سے موجودہ حکومت نے ایکشن پلان مرتب کرکے کراچی کور کمانڈر کی نگرانی میں پولیس اور رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے تاکہ شہر کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جاسکے اور شہر کو پھر سے روشنیوں کا گہوارا بنایا جاسکے۔

گزشتہ سوا دو سال سے جاری اس آپریشن میں دہشت گردوں، بھتہ مافیا، ڈاکوؤں، اغوا کاروں اور دیگر سنگین جرائم کے مرتکب ملزمان کے خلاف مختلف ٹارگٹڈ آپریشنز ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے شہر کے حالات قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تجاوز کرتے جارہے ہیں۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والا شہر کراچی جو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ بھی ہے، بدامنی، لوٹ مار اور دہشت گردوں کی زد میں ہے، یہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ ان کے ’’سلیپر سیلز‘‘ اب بھی فعال اور کسی کو قتل کردینا نہایت آسان کام ہے، اس شہر میں معروف شخصیات قتل ہوئیں۔ موبائلز کو نشانہ بنایا گیا، لیکن مشکل ہی سے آج تک کوئی پکڑا گیا یا گرفتاری عمل میں آئی۔ قاتلوں کو جیلوں اور ججوں کا کوئی خوف نہیں ہے، اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو جیلوں سے اپنا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور ملٹری کے جوان تک دہشت گردوں کا شکار ہوچکے ہیں لیکن یہ طوفان رکنے تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔

اس حوالے سے کڑوا سچ یہی ہے کہ کراچی نامعلوم قاتلوں اور گمنام مقتولین کا شہر ناپرساں ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں دیگر صوبوں (خصوصاً بلوچستان) سے نامعلوم افراد کی لاشیں بھی بازیاب ہوتی رہتی ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں القاعدہ اور طالبان کے نامعلوم عسکریت پسند بھی قتل ہوتے ہیں۔ لیکن یہی وہ شہر ہے جہاں کے متمول علاقوں سے دنیا کے صف اول کے دہشت گرد بھی پکڑے گئے۔ لہٰذا کراچی گزشتہ 20 برسوں سے دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے ہم جہتی علاقہ بن گیا ہے، جہاں 10 ہزار افراد قتل کر دیے گئے، لیکن خصوصیت سے سزائے موت دیے جانے کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ یوں اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ کراچی میں کسی کی جان لینا اس قدر آسان کیوں ہے؟

گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی میں پھر سے چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اچانک ازسر نو اضافہ ہوگیا ہے، جسے کم ازکم ہماری پولیس تو روکنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے۔ لوٹ مار اور رہزنی کے ساتھ ساتھ اچانک موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی بیٹری کی چوری کی واردات میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے، جس کے باعث شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے، اب جرائم پیشہ عناصر گھروں کے باہر کھڑی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں سے بھی بیٹریوں کی چوری روکنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس موبائل گشت میں کمی اور جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کی وجہ سے جرائم میں پھر سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کراچی کی امن و امان کی بگڑتی ہوئی شکل کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے لیے ڈھائی ارب روپے سالانہ منظور کیے جب کہ وفاقی حکومت ان کے دیگر اخراجات پورے کرتی ہے، اس کے علاوہ حکومت نے متعدد عمارتوں کی بھی منظوری دی جہاں رینجرز کے دفاتر قائم ہیں، اکثر شاہراہوں، سڑکوں پر پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں لیکن پاکستان کا ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ صاحب اقتدار اور صاحب اختلاف دونوں ہی اس سنگین اور ہولناک مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور دیگر پلیٹ فارمز سے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کی بھرمار ہے۔ موجودہ حکومت کو ڈھائی سال ہونے کو ہیں مگر تادم تحریر احتساب بینچ اور دیگر فوجی عدالتوں سے کوئی بھی جرم ثابت نہیں ہو سکا ہے؟

کراچی کی صورتحال کے حوالے سے برہنہ سچائی یہی ہے کہ عوام اب بہت بری طرح بے زار ہوچکے ہیں وہ نہ تو حزب اقتدار پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی حزب اختلاف پر ان کا اعتماد باقی رہا ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی صورتحال تسلی بخش کسی طور نہیں کہی جاسکتی۔ عورتوں پر مظالم، بچوں سے مزدوری، مزدوروں سے زیادتی اور بنیادی حقوق سے محرومی کی شکایات عام ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے اور گنجان آباد شہر کے حالات سب پر طشت ازبام ہیں، انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی شکایات حد درجہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ نے کراچی آپریشن کے مثبت نتائج کو تسلیم کیا ہے لیکن آپریشن کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کراچی آپریشن کے دوران ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ جب سارے شہر میں رینجرز اور پولیس کی چوکیاں موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج تک کوئی قاتل یا مجرم نہیں پکڑا جاسکا اور یہ کہ جب لاقانونیت نے اس طرح جاری رہنا ہے تو ان فورسز کا شہروں میں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟ پولیس کے موجودہ فرسودہ نظام کو ختم کرکے اسلام آباد کی طرز پر کراچی میں بھی ’’میٹرو پولیٹن پولیس‘‘ کے نظام کو لانے کا بھی کہا جا رہا ہے۔

کراچی آپریشن کے حوالے سے ایک اہم نقطہ جسے یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی موثر اور مربوط کوشش نہیں کی جاسکی۔ اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کراچی میں 15 لاکھ قانونی اور غیر قانونی اسپتال موجود ہیں اس کے علاوہ غیر قانونی ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے بھی کوئی حکمت عملی طے نہیں کی گئی ہے۔ ایسے ہتھیاروں کی بازیابی کے لیے بھی کوئی ٹھوس ’’بلاامتیاز آپریشن‘‘ اب تک نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ کراچی کے مضافات میں غیر قانونی اسلحے کے بڑے ذخائر مدفون ہیں، ایسے میں ہتھیاروں کی بازیابی کے اعداد و شمار خاصے مایوس کن کہے جاسکتے ہیں۔

ستم بالائے ستم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’’حد فاضل‘‘ میں رکھنے، ان کے اختیارات کو طول دینے پر اعتراضات اور بحث مباحثے بھی سر اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ صورتحال بہرطور کراچی کے مستقبل یا اس کے مفاد میں ہرگز نہیں جاتی۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کے بحالی امن کا یہ عمل اگر کسی بھی وجہ سے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے رک گیا یا کمزور پڑ گیا تو جرائم پیشہ تنظیمیں پاکستان کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں بیرونی طاقتیں اور قومی وسائل کو لوٹنے والے بااثر بدعنوان عناصر دوبارہ قدم جمانے کے لیے متحرک ہوجائیں گے، لہٰذا آپریشن کا نہ صرف جاری رہنا اور منطقی انجام تک پہنچنا قومی بقا و سلامتی کے لیے ناگزیر ہے بلکہ اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کا اتفاق رائے بھی اسی طرح قائم رہنا ضروری ہے جس کے ساتھ اس عمل کا آغاز ہوا تھا، ایسا نہ ہوا تو ناقابل عبور مشکلات رونما ہوں گی۔ لہٰذا ان سے بچنے کے لیے اتفاق رائے سے تمام ضروری تدابیر اختیار کی جانی از بس ضروری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔