تحمل و تدبر ضروری ہے

نجمہ عالم  منگل 29 دسمبر 2015
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

لگتا ہے کہ پورے ملک کی سیاسی صورتحال قومی کے بجائے شخصی سیاست کی صورت اختیار کر چکی ہے، خصوصاً صوبہ سندھ اپنی آئینی خود مختاری اور سیاسی سرگرمیوں کے نقطہ نظر سے خاصا متنازعہ بنا ہوا ہے۔ وفاق کی صوبوں کے آئینی اختیارات میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں، مگر سندھ میں یہ مداخلت کچھ زیادہ ہی محسوس کی جا رہی ہے۔ کراچی کی بین الاقوامی اہمیت کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر اچھی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر ملکی اور غیر ملکی مفادات کراچی بدامنی کا سب سے بڑا جواز ہیں۔

کراچی کے باشعور، پڑھے لکھے اور مہذب شہری کبھی بھی اپنے شہر کے لیے مسئلہ نہیں بنے حالانکہ ان سے ان کی بیشتر مراعات چھین لی گئیں اور کئی مسائل پیدا کیے گئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی والے سیاسی طور پر باشعور تھے اور ہیں جس کی ان کو سزا دی گئی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی پر قبضے کی جنگ نے ہی اس شہر کو انتشار اور بدامنی کا شہر بنا دیا۔ سندھ کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ کراچی صوبہ سندھ میں واقع ہے۔ اس شہر کی اہمیت کا اندازہ شاید عام آدمی کو نہ ہو مگر وفاق اور طاقتور ادارے اس سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے کراچی کے پرامن حالات کو پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت خراب کیا گیا (الزام بیرونی عناصر کے بجائے مقامی افراد پر عائد کیا) اور پھر بگڑے حالات کو درست کرنے کے لیے (کراچی والوں کی ہمدردی میں ) اپنی سی کوشش بھی کی گئی جو اب تک جاری ہے۔

رینجرز سندھ بطور خاص کراچی کے حالات درست کرنے کے لیے آئی تھی، مگر حالات اور کچھ اختیارات کے استعمال میں افراط و تفریط کے باعث سندھ کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں برسوں سے جاری جرائم اور بدعنوانی میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی اور اس کا واضح اظہار بھی ہوا ہے، مگر کراچی کے لوگ عموماً برسر محفل یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ کراچی کے حالات ہی دراصل گزشتہ 27 سال میں خراب ہوئے، اسی دوران تمام بڑے بڑے واقعات (جرائم کے) رونما ہوئے۔ البتہ کراچی میں آج جو بہتری نظر آ رہی ہے یہ اصل میں ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ کا نتیجہ ہے (کیا یہاں چھپائے گئے دہشت گرد اور دیگر مافیا کے سرکردہ لوگ) اس آپریشن کے باعث یا تو پکڑے گئے یا اپنے ٹھکانے چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

تمام کالعدم تنظیمیں بھی جو انھی کی آڑ میں سرگرم ہوئی تھیں وہ بھی نہ صرف غیر فعال ہوئیں بلکہ ان کے کارندے پکڑے بھی گئے لہٰذا اس بہتر صورتحال کا سہرا ضرب عضب کے سر جاتا ہے جس کو رینجرز اپنے سر باندھنا چاہتی ہے۔ بہرحال یہ تو لوگوں کے اپنے خیالات اور تبصرے ہیں مگر جو کچھ نظر آ رہا ہے (قانونی موشگافیوں سے ماورا) وہ یہ ہے کہ صوبہ سندھ اور وفاق میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے علاوہ بھی دیگر صوبوں میں جرائم ہوتے رہے ہیں بلکہ بڑے صوبے کو تو دہشت گردوں کی نرسری قرار دیا گیا اور پنجابی طالبان کی اصطلاح نے خاصی شہرت پائی۔

بلوچستان میں اجتماعی قتل عام، اجتماعی قبروں کی دریافت، ہزارہ برادری کے سیکڑوں افراد کا تقریباً دو بار بہیمانہ قتل، آئے دن زائرین کی بسوں پر حملے، ایران، بلوچستان، سرحد پر تصادم جیسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ کے پی کے میں ملکی تاریخ میں معصوم طلبا کا سب سے بڑا قتل عام کے علاوہ اور کتنے قتل چرچ، مساجد، امام بارگاہوں پر طالبان اور القاعدہ کے حملوں کے علاوہ شجاع خانزادہ کے قتل کے واقعے جیسے بے شمار واقعات ذرایع ابلاغ پر مسلسل سامنے آتے رہے، مگر وہاں کے حالات درست کرنے کے لیے سخت اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان حالات میں کراچی (سندھ) میں جانبداری کے خدشات میں کچھ کچھ حقیقت بھی اکثر لوگوں کو نظر آتی ہے۔ ان حالات کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں، اگر انداز فکر مثبت رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وفاق کو دیگر صوبوں سے زیادہ سندھ خصوصاً کراچی کے امن و امان کی فکر ہے۔ اور اگر ان ہی اقدام کو منفی رخ دیا جائے تو صورتحال اس وقت وفاق اور سندھ میں کشیدگی کی ہے وہ سامنے ہی کی بات ہے۔

آج ہر صاحب عقل و فہم یہ ضرور سوچ رہا ہے کہ ذاتی انا اور سیاسی مفادات میں معاملات اس قدر نہ بگڑ جائیں کہ صوبے کے اختیار میں رہیں نہ مرکز کے، ایسی تلخ صورتحال سے آج سے چوالیس برس قبل ہم ایک صوبے میں دو چار ہو چکے ہیں۔ سیاسی برتری کی جنگ نے ملک کو دولخت کر دیا تھا۔ مگر اپنے موقف سے کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوا اب بھی اگر دونوں جانب عدم برداشت کی یہی صورت رہی تو نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں یہ ہمارے سیاسی دانشور اور اقتدار کے نشے میں مست حکمران ذرا بھی نہیں سوچ رہے حتیٰ کہ عالمی صورتحال کا بھی کسی کو ادراک نہیں ہے 34 ممالک کے اتحاد پر ہی وفاق کی وزارت خارجہ (جو بنا وزیر خارجہ کے کام کر رہی ہے) اور خود سربراہ مملکت کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان ہے۔

ایک جانب سے اس اتحاد سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا تو دوسری جانب سے اس اتحاد میں جو بھی کردار دیا گیا اس کو بخوبی کرنے کے لیے تیار رہنے کا عندیہ دیا گیا ہے (خیر یہ الگ موضوع ہے) یہاں اس کا ذکر کرنے سے مراد صرف یہ ہے کہ حکومتی ادارے آپس میں پہلے خود اتحاد پیدا کر لیں پھر کوئی بیڑا اٹھائیں۔ فی الحال تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ وفاق اور حکومت سندھ دونوں کو ہوش مندی اور تحمل سے کام لے کر بجائے ایک دوسرے پر برتری جتانے کے افہام و تفہیم سے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ حالات قابو سے باہر نہ ہوں۔

معاملہ اگر بدعنوانی اور حکومت بدنظمی (کرپشن اور بیڈ گورننس) دور کرنے کا ہے تو میرا ذاتی خیال یہ ہے (جس کا اظہار کرنے میں مجھے کوئی عار بھی نہیں) ان دونوں معاملات سے نمٹنے کے لیے جتنی ضرورت خود وفاقی حکومت کو ہے شاید کسی صوبے کو نہیں کیونکہ ان کی گڈ گورننس کے چرچے ان دنوں چار سو بہت ہو رہے ہیں۔

بدعنوانی کے تمام بڑے بڑے کیس اور نظام حکومت کی بدنظمی (وزرا اور حکمران کے متضاد بیانات) جتنی مرکزی حکومت میں ہے اتنی کہیں نہیں۔ اس کا ثبوت خود سندھ کے حالات ہیں۔ جتنی قومی دولت میں گڑبڑ وہاں ہوئی ہے اتنی تو سب صوبوں میں مل کر بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کرپشن کے خلاف ایسا کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ اگر کبھی اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو خود اپنی حقیقت سے آشنا ہو جائے گا۔ ویسے ہماری طرز حکمرانی اور گڈ گورننس کے نغمے تو بیشتر کالم نویس، مبصرین اور تجزیہ کار عموماً گنگناتے رہتے ہیں کراچی (سندھ) کے حالات درست کرنے کی مخلصانہ کوشش قابل داد سہی مگر ذہن میں رہنا چاہیے کہ:

میں آج زد پہ ہوں تو اتنا خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔