ایک اور جنگ لڑیں؟

ایم اسلم کھوکھر  منگل 29 دسمبر 2015

دس ماہ سے بسلسلہ روزگار میرا بڑا بیٹا دبئی میں مقیم ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ روزانہ سونے سے قبل ہم سے انٹرنیٹ پر رابطہ کرے اور بات کرے دو روز قبل بھی ایسا ہی ہوا یعنی میرے بیٹے نے مجھ سے حال احوال کرنے کے بعد خلاف توقع کہا ابو جی! میرا دوست آپ سے بات کرنے کا خواہش مند ہے، کیا آپ میرے دوست سے بات کرنا پسند کریں گے؟ مجھے کیا عذر ہو سکتا تھا چنانچہ میں نے اپنے بیٹے عباس علی سے کہا ضرور آپ کا دوست ہے تو مجھے اس سے بات کر کے خوشی ہوگی۔

چنانچہ میرے بیٹے کے دوست نے نہایت مہذب انداز میں مجھے سلام کیا اور میرے لیے مقام حیرت تھا کہ وہ لڑکا بار بار مجھے ابو جان ابو جان کہہ کر مخاطب کر رہا تھا چنانچہ میں نے دوران گفتگو اس لڑکے سے پوچھا کہ بیٹا! آپ کا نام کیا ہے؟ اور آپ کا تعلق کس شہر سے ہے تو اس سعادت مند لڑکے نے جواب دیا کہ ابو جان میرا تعلق بہار انڈیا سے ہے اور میرا نام محبوب احمد ہے۔

مزید یہ کہ میں آپ کے بیٹے کا بہت گہرا دوست ہوں اور اب تو ایسا لگتا ہے ہم دونوں بھائی ہیں اور ہاں آپ اپنے بیٹے کے بارے میں ذرا بھی فکر مند نہ ہونا میں آپ کے بیٹے کا اور آپ کا بیٹا میرا یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور ہاں میں شاید کچھ عرصہ قبل ملازمت چھوڑ کر واپس انڈیا چلا جاتا مگر میں نے سوچا میرے جانے سے عباس علی پریشان ہوگا اور ممکن ہے کہ یہ ملازمت چھوڑ کر واپس پاکستان آپ کے پاس چلا جاتا سو جب تک ہم دونوں کی ملازمت دبئی میں ہے ہماری کوشش ہے کہ ہم ساتھ ساتھ رہیں، بس آپ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا اور ہاں ابو جان اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں امی جان یعنی آپ کی بیگم سے بات کر سکتا ہوں؟

سو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ جب میری بیگم اس انڈین لڑکے محبوب احمد سے بات کر رہی تھیں تو میری بیگم کے چہرے پر سو فی صد وہی تاثرات تھے جو ان کے اپنے بیٹے سے گفتگو کے دوران ہوتے ہیں۔ جب کہ میں اس سوچ میں ڈوب چکا تھا کہ ایک انڈین نوجوان مجھے ابو کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔ اور میری بیگم کو امی جان کہہ کر مخاطب کر رہا تھا جب کہ میرے بیٹے کا گہرا دوست ہے۔

بزرگ سچ کہتے ہیں محبت کو سرحدوں میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ اگر محبت کو سرحدوں میں مقید کیا جا سکتا تو ایک انڈین جیسے انڈیا اتنا ہی عزیز ہے جتنا کسی بھی شہری کو اپنا وطن عزیز ہو سکتا ہے یا یوں کہیے کہ جتنا مجھے میرا وطن پاکستان عزیز ہے، محبوب احمد ایک سچا انڈین ہے مگر میری نظر میں وہ محبت کا سفیر ہے ایک حقیقی سفیر بصورت دیگر اگر وہ محبت کا سفیر نہ ہوتا تو ایک پاکستانی کو اپنا بھائی نہ کہتا ایک پاکستانی کو ابو جان کہہ کر مخاطب نہ کرتا پھر وہ محبت کا سفیر نہ ہوتا تو ایک پاکستانی خاتون یعنی میری بیگم کو امی جان کہہ کر کیونکر مخاطب کرتا اور مجھے فخر ہے اپنے اس انڈین بیٹے پر جس نے میرے بیٹے عباس علی کو اپنے جیسا بنا دیا ہے یعنی محبت کا سفیر اور میں نازاں عباس علی اور محبوب احمد کی دوستی پر ورنہ پاکستان و انڈیا کے مابین تو چار بے مقصد جنگیں ہو چکی ہیں۔

ان جنگوں کی تفصیلات یہ ہیں۔ پہلی بے مقصد جنگ جو 1948ء میں لڑی گئی اور جسے جہاد کشمیر کا نام دیا گیا اس جنگ نے مولود پاکستان و 190 برس بعد برٹش سرکار سے آزادی حاصل کرنے والے انڈیا کو ماسوائے کف افسوس ملنے کے کیا دیا پھر ستمبر1965ء کیا آیا کہ دونوں ملکوں کے افلاس زدہ عوام کے لیے ایک ہولناک و مہلک ترین جنگ ساتھ لے کر آیا، ستمبر 1965ء کی جنگ جہاد کشمیر سے زیادہ 1948ء کی جنگ سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی اس جنگ نے سرحد کے دونوں جانب کے ہزاروں جوانوں کو نگل لیا، یوں بھی کہتے ہیں کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگیں تو لا تعداد مسائل پیدا کرتی ہیں پھر 21 نومبر 1971ء کا دن بھی آیا یہ وہ دن تھا جب سرحدوں کے دونوں جانب کروڑوں مسلمان عید الفطر کا تہوار منا رہے تھے اس دن مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر کروڑوں لوگوں پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔

اس جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، انڈین آرمی و انڈین حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی تقسیم یعنی بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں انڈیا کا پورا پورا دخل تھا۔ کیوں کہ انڈین آرمی نے پاکستانی آرمی کو شکست دی تھی جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ انڈین کا اس جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ سو فی صد باطل ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا انڈین آرمی کی جنگ 1971ء میں جیت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ سیاسی محرکات تھے جب کہ انڈین آرمی انڈین سیاسی قیادت تمام تر جنگی سامان حرب استعمال کرنے کے باوجود یہ جنگ جیت نہ پائے تھے۔

البتہ اس جنگ کے بعد جس میں ایک جانب 3 سے 5 لاکھ انڈین آرمی تھی دوسری جانب پاکستانی آرمی کے فقط 45 ہزار جوان تھے جو کہ اپنی BASE سے ہزاروں میل دور بھی تھے مگر دونوں جانب کیفیت یہ تھی کہ ’’انکھیاں دی لالی دسدی اے روئے تسیں وی او تے روئے اسیں وی ہاں‘‘ مگر ان تینوں جنگوں سے کوئی سبق نہ حاصل کیا گیا اور جنگ کارگل کا 1999ء میں سامان کر دیا گیا، اس بے مقصد جنگ نے بھلا انڈیا و پاکستان کو کیا دینا تھا ہاں مگر دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کا عرصہ ضرور دراز ہو گیا اور یہ بد اعتمادی کی فضا آج تک برقرار ہے مگر اب شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ جب یہ بد اعتمادی کی فضا کو ختم کر کے انڈیا و پاکستان کو اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔

اس لیے ضروری ہے شدت پسند انڈین شیو سینا والے ہوں یا پاکستان میں مذہب کی غلط تشریح کرنے والے ان دونوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور باہم محبت و اخوت کے رشتے قائم کرنا ہوں گے کیوں کہ محبت و اخوت کے یہ رشتے قائم کرنا فقط ایک پاکستانی عباس علی و ایک انڈین محبوب احمد کی خواہش نہیں ہے بلکہ ایک ارب چالیس کروڑ برصغیر کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے برصغیر کے لوگوں کو ایک با مقصد و طویل جنگ لڑنا ہو گی، غربت کے خلاف، جہالت کے خلاف، سرمایہ داری نظام کے خلاف، جاگیرداری و وڈیرہ شاہی نظام کے خلاف، کرپٹ و بد عنوان سیاست دانوں کے خلاف، اسلحہ فروش، سماجی قوتوں کے خلاف اور یہ جنگ لڑنا ہو گی جیت کے یقین کے ساتھ کیوں کہ اس جنگ کی جیت کی شکل میں ہی انڈین و پاکستانی ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں کے مسائل کا حل موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔