سندھ کا منظر نامہ رستا ناسور نہ بنے

ایڈیٹوریل  بدھ 30 دسمبر 2015
سندھ کا منظر نامہ رستا ہوا ناسور نہ بنے جب کہ کسی قسم مہم جوئی سے پہلے رینجرز مسئلہ خوش اسلوبی سے جلد حل ہوجانا چاہیے۔ فوٹو : فائل

سندھ کا منظر نامہ رستا ہوا ناسور نہ بنے جب کہ کسی قسم مہم جوئی سے پہلے رینجرز مسئلہ خوش اسلوبی سے جلد حل ہوجانا چاہیے۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور کراچی میں مکمل بحالی امن کو حکومتی مشن قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس کام کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے، ان کا کہنا ہے کہ 3 سال پہلے کا کراچی دیکھیں اور آج کا، فرق واضح نظر آئے گا، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں حاصل ہونے والی کامیابی کے تناظر میں وزیراعظم کا انداز نظر اس لطیف فقرے میں پنہاں ہے کہ اقتدار کے لیے 5 سال تھوڑے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیر کو مقامی ہوٹل میں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے تحت 39 ویں ایکسپورٹ ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کام ادھورا نہ چھوڑنے کا عزم کسی لحاظ سے قابل مواخذہ نہیں بلکہ خوش آیند عہد ہے، اس کے ساتھ ساتھ  وزیراعظم نے کہا کہ تھرکول منصوبہ پاکستان کی توانائی کا مستقبل ہے، 2018 تک 10 ہزار اور 2025 تک مزید 15 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے یکم جنوری2016 سے صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں3 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر برآمدات میں اضافے کے لیے محنت کریں، ہم بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کرینگے اور 2018 تک ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

پاکستان کو توانائی بحران کا جو چیلنج درپیش ہے اس کے لیے وفاقی حکومت کثیر جہتی پاور پراجیکٹوں کی تنصیب ، گیس معاہدوں کی تکمیل اور کوئلہ و شمسی توانائی سمیت مختلف متبادل توانائی وسائل کے حصول کے لیے انتھک کوششیں کررہی ہے اور کئی ایک منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے تاہم امن و امان کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ اور معاشی استحکام حکومت کی اصل توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

ان میں کراچی اور سندھ کی صورتحال نے ملکی سیاست میں ایک بے معنی سا ارتعاش سا پیدا کیا ہے اور ایسی بے یقینی ہے کہ کہیں سندھ کی سیاست وفاق سے ممکنہ ٹکراؤ سے نڈھال نہ ہو جائے، ایسا ہونا بدنصیبی ہوگی، جس کا ازالہ جتنی جلد ممکن ہو بہتر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم ایک روزہ دورہ پر کراچی آئے ضرور مگر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد یا وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ان کی سندھ میں ہنگامی صورتحال اس کی وجوہات اور ازالہ کے لیے ملاقات یا سندھ کے حوالہ سے کسی اجلاس کے انعقاد کا معاملہ شیڈول میں شامل نہ ہونے پر سندھ کے سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔

میڈیا مبصرین کے مطابق اس گریز پائی سے وفاقی اور سندھ حکومت میں اختلافات مزید وسیع ہوگئے اور دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو جمہوری عمل کو سندھ میں دھچکا لگنے کا اندیشہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کراچی میں کامیاب آپریشن پر ڈی جی رینجرز ، آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری کو تو مبارک باد دی لیکن انھوں نے آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور سندھ حکومت کی کوششوں کا ذکر تک نہیں کیا جب کہ پیدا شدہ کشیدہ صورتحال میں کراچی آپریشن کے کپتان شاہ صاحب کے تالیف قلب کے لیے دو ایک شگفتہ فقرے  بول دیے جاتے تو کیا مضائقہ تھا۔

اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ شاید اسی رنج کے باعث انھیں ایئر پورٹ پر دل میں تکلیف محسوس ہوئی اور وہ امراض قلب کے اسپتال پہنچ گئے جہاں ان کی ای سی جی اور دیگر ٹیسٹ لیے گئے اور وہ وزیراعظم کی کسی تقریب میں شریک نہیں ہوسکے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ کراچی میں مکمل امن کی بحالی تک آپریشن جاری رہے گا، قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے بن قاسم پاور پلانٹ کا دورہ کیا۔

چینی انجینئرز نے بریفنگ دی کہ منصوبے پر تیز رفتاری سے جاری ہے اور یہ اگست 2017 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ایک اطلاع کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پر وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیراعظم سے مختصراً اس بات کا شکوہ کیا کہ وفاق رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت کے تحفظات کو سن نہیں رہا اور وفاقی وزیر داخلہ براہ راست سندھ حکومت کے امور میں مداخلت کر رہے ہیں، آپ بھی ہماری نہیں سن رہے، اب آپ بتائیں ہم کیا کریں۔

جس پر وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وفاق صوبوں کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے، یہ تاثر غلط ہے کہ ہم سندھ میں مداخلت کرر ہے ہیں، آپ اسلام آباد آجائیں، سب کو بلا لیں گے، مل بیٹھ کر بات کریں گے، مسئلے کا حل نکال لیں گے۔اب گیند وفاق اور سندھ حکومت کسی کے کورٹ میں ہو، ضرورت پیدا شدہ مخاصمت ، تناؤ اور بداعتمادی کو ختم کر کے سندھ میں امن و امان کے نامکمل ایجنڈے کی فوری تکمیل کی ہے۔

سندھ میں انتظامی بریک ڈاؤن اظہر من الشمس ہے، ادارہ جاتی سطح پر کوئی کسی کو جوابدہ نہیں، رینجرز پولیس کو احکامات کا انتظار ہے، اور کاروبار حیات بے سمت چل رہا ہے۔ اس لیے بیان بازی کا سلسلہ روک کر مسئلہ کا ایک جامع سیاسی حل نکالا جائے۔ سندھ کا منظر نامہ رستا ہوا ناسور نہ بنے جب کہ کسی قسم مہم جوئی سے پہلے رینجرز مسئلہ خوش اسلوبی سے جلد حل ہوجانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔