بلاول کی معذرت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 30 دسمبر 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

بسمہ کی عمر 10 ماہ تھی۔ وہ لیاری کے محلہ کلاکوٹ کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔ سردی کا موسم شروع ہوتے ہی بسمہ بیمار پڑگئی۔ محلے کے ڈاکٹر نے بسمہ کے باپ کو فوری طور پر اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ بسمہ کو فوری طور پر آکسیجن کی ضرورت تھی۔ اس کا بے روزگار باپ قریب کے کسی پرائیوٹ اسپتال میں علاج کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ کراچی کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال، سول اسپتال اس کے گھر سے چند کلومیٹر پر ہے، وہ رکشے میں سول اسپتال کی طرف چلا۔ یہ فاصلہ عمومی طور پر 10سے 15 منٹ میں طے ہوتا ہے۔

کراچی میں گزشتہ 20 برسوں سے امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ جب شہر میں ہنگامے ہوتے ہیں یا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو مریضوں کو کراچی کے دو بڑے اسپتالوں سول اور جناح میں لے جایا جاتا ہے۔ سول اسپتال شہر کی مرکزی شاہرہ ایم اے جناح روڈ کے نزدیک ہے۔

متحدہ ہندوستان میں قائم ہونے والے اسپتال میں یوں تو شہر، اندرونِ سندھ، بلوچستان، افغانستان اور ایران سے مریض آتے ہیں مگر جنوبی، مغربی اور مشرقی کراچی کی آبادی کا زیادہ تر انحصار سول اسپتال پر ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیرِ نگرانی قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (S.I.U.T) بھی سول اسپتال سے ہی وجود میں آیا ہے۔ اس بنا پر پورے ملک سے مریض S.I.U.T آتے ہیں۔

سول اسپتال میں صبح سے رات گئے تک مریضوں کا ہجوم رہتا ہے۔ 2007 میں سول اسپتال میں ایک ٹراما سینٹر کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ مجوزہ منصوبے کے تحت یہ سینٹر 14 منزلوں پر تعمیر ہونا تھا۔ پیپلز پارٹی نے 2008 میں اقتدار سنبھالا تو اس ٹراما سینٹر کا نام محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا۔

اس منصوبے پر 2.22 بلین روپے کی لاگت آئی ہے۔ اس میں سے 362 ملین روپے وفاقی حکومت نے فراہم کیے مگر 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد صحت کا شعبہ صوبے کے حوالے ہوا اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دی جانے والی گرانٹ کئی سو گنا بڑھ گئی۔ اس بنا پر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے مزید رقم فراہم نہیں کی۔ میاں نواز شریف حکومت نے سابقہ حکومت کی پیروی کی۔

افسوس حکومت سندھ فنڈ کی فراہمی کا بروقت انتظام نہیں کرپائی، یوں یہ ٹراما سینٹر 8 سال بعد مکمل ہوا۔ اس کی افتتاحی تقریب 23 دسمبر 2015 کو ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ کے ساتھ آ کر اس ٹراما سینٹر کا افتتاح کیا۔ اس سینٹر کے چند فلور قابل استعمال ہیں جہاں اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو کے سول اسپتال آنے کی اطلاع پولیس کے محکمہ کو دی گئی تو پولیس حکام نے بلاول اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے سیکیورٹی پروٹوکول کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع منصوبہ تیار کیا۔

اس منصوبے کے تحت 23 دسمبر کی صبح کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک طرف چاند بی بی روڈ اوردوسری طرف بابائے اردو روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں اور مسلح پولیس والے تعینات کردیے گئے۔ ان پولیس اہلکاروں کو سختی سے ہدایات جاری کی گئیں کہ سیکیورٹی پروٹوکول پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ کسی فرد یا گاڑی کو جس کے پاس سیکیورٹی پاس نہ ہو اسے سڑک پار کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس طرح سول اسپتال کی اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ گیا۔

پولیس حکام نے ٹریفک کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے متبادل انتظامات نہیں کیے تھے اور سیکڑوں لوگ سڑکوں پر پھنس گئے۔ ٹریفک جام کے اثرات لیمارکیٹ، سٹی کورٹ، رنچھوڑ لائن، سعید منزل اور اطراف کی سڑکوں پر پھیل گئے۔ سول اسپتال جانے اور آنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔ بسمہ کو لے کر اس کا باپ جب بابائے اردو روڈ پہنچا تو راستہ بند تھا۔ اس نے بیٹی کو اپنی گود میں اٹھایا اور پولیس والوں سے التجا کی کہ اس کو سول اسپتال کی ایمرجنسی تک جانے کی اجازت دی جائے۔ پولیس والے کچھ سننے کو تیار نہیں تھے۔

وہ اردو یونیورسٹی کے اطراف کی سڑک سے ہوتا ہوا پھر S.I.U.T کی سڑک کے قریب پہنچا مگر پھر یہ پولیس والے اس کو سڑک پار کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ ایسا کرتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔ بسمہ کی سانس کی آوازیں کمزور ہونے لگیں، ایک گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا۔ جب بلاول بھٹو زرداری ٹراما سینٹر میں اپنے نام کی لگی تختی پر لگا پردہ ہٹانے کی رسم پوری کرنے کے بعد واپس روانہ ہوئے تو پولیس والوں نے تمام راستے کھول دیے۔

بسمہ کا باپ کئی فرلانگ دوڑ کر سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ وہ ڈاکٹروں کو پکار رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے بسمہ کو فوری بیڈ پر لٹایا۔،اسٹیتھو اسکوپ اس کے سینے پر لگا کر دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کی مگر کوئی آواز نہیں آئی۔ پھر آنکھوں کے پپوٹے چیک کیے، مگر ان میں بھی کوئی روشنی نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے بسمہ کے باپ کو بتایا کہ 10منٹ پہلے بسمہ اس عارضی دنیا کو چھوڑ گئی۔

باپ نے رونا پیٹنا شروع کردیا۔ اس واقعے کی اطلاع صحافیوں کو ہوئی اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سینئر وزیر نثار کھوڑو سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ واقعہ افسوسناک ہے مگر بلاول کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، بلاول کی زندگی سب سے زیادہ اہم ہے۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا جن کے دو بچے ایک حادثے کا شکار ہوچکے ہیں، نے کہا کہ میڈیا کو اس تقریب میں نہیں بلایا گیا، اس لیے بلاوجہ میڈیا والے واویلا کررہے ہیں۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کیا۔ بلاول کچھ دنوں بعد بسمہ کے گھر گئے اور اس کے والد سے معذرت کی۔ بلاول نے کہا کہ آیندہ ایسی تقاریب اسپتال میں منعقد نہیں ہونی چاہئیں۔ آصف زرداری نے دبئی سے ٹیلی فون پر قائم علی شاہ سے بات چیت کی اور کہا کہ ہر پاکستانی کی جان قیمتی ہے۔ انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ لیاری گئے، مگر وہ بسمہ کے گھر جانے کے بجائے اپنی رکن صوبائی اسمبلی نادیہ گبول کے گھر رک گئے اور بسمہ کے باپ کو بلا کر وہاں ہی تعزیت کی۔ صرف لیاری سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی شاہجہاں بلوچ نے بسمہ کے گھر جا کر تعزیت کی۔

اس افسوس ناک واقعے میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی بے حسی اور وی آئی پی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے منفی اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ایک بچی کی موت کے درد کو محسوس نہیں کیا۔ انھوں نے سیاسی زبان کے بجائے انتظامی زبان کو استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا اس دور سے موازنہ کرتے ہوئے ایک صحافی نے کہا کہ اگر اس دور میں یہ سانحہ ہوتا تو بھٹو صاحب خود اس بچی کے گھر چلے جاتے اور سیکیورٹی کے ذمے دار افسروں کو معطل کردیتے۔

مگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو محض حکمرانی کا نشہ ہے اور وہ ہر وقت آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مداح سرائی میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سمیت کسی وزیر نے بسمہ کے گھر جانے کی زحمت گوارا نہیں کی جب کہ بسمہ کے خاندان کا تعلق لیاری سے ہے اور لیاری پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ ہے۔ انھوں نے اپنی حکومت کے ٹراما سینٹر کے قیام کے کارنامے پر مٹی بھردی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار سے وی آئی پی سیکیورٹی پروٹوکول کو انتہائی سخت کردیا گیا ہے۔ جب سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کسی شہر میں جاتے اس شہر میں لوگوں کی زندگی اذیت کا شکار ہوجاتی۔ مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف لاہور کے اسپتال گئے تو اس پروٹوکول کی بنا پر ایک مریض اسپتال پہنچنے کے بجائے جاں بحق ہوگیا۔

گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اٹلی کے شہر روم گئے تو بڑے موٹر کیڈ کے جلوس سے ٹریفک معطل ہوا تو اٹلی کے میڈیا نے شور مچا دیا۔ کراچی میں آئے دن وی آئی پی پروٹوکول کی بناء پر ٹریفک معطل رہتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ میں ہنگامی صورتحال نافذ ہوئی مگر اس ہنگامی صورتحال کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے منظم کیا گیا۔ لندن یا واشنگٹن میں بندوق بردار سپاہی تعینات نہ ہوئے، نہ سڑکیں بند ہوئیں، یہی طریقہ پاکستان میں نافذ ہونا چاہیے تھا۔ اس طریقہ کار کے لیے ضروری ہے کہ اسلحے کی فراہمی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کارروائی کی جائے۔

کسی قسم کے اسلحے کی سڑکوں پر نمائش کو سخت جرم قرار دیا جائے اور غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ کے ذمے دار افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ پولیس سائنٹیفک طریقے کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔

سڑکوں کی نگرانی کے لیے جدید ترین اسکینر اور کیمروں کا جال بچھایا جائے اور ان آلات کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے تعینات عملے کی اسمگلنگ اور مانیٹرنگ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اہم رہنما عوام سے رابطہ برقرار رکھیں مگر سڑکوں کو بند کرنے کے بجائے ان کی نگرانی کے ذریعے ہر فرد کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ بسمہ کے اس حادثے کی ذمے داری پولیس اور محکمہ داخلہ کے حکام پر عائد ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔