پولیس ڈرامے

محمد سعید آرائیں  بدھ 30 دسمبر 2015

پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی بہتات اور باہمی مقابلے بازی اور بریکنگ نیوز کے سلسلے میں اب شہر ہو یا گاؤں، کوئی چیز عوام سے پوشیدہ رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور دیر سویر ہر بات منظر عام پر آ چکی ہے، اب وہ دور نہیں رہا کہ پولیس جسے چاہے گرفتار کر کے غائب کر دے۔

کسی بے گناہ کو رشوت کے لیے لاک اپ میں بند کر کے تشدد کرے، کسی کو جعلی مقابلے میں مار دے اور کسی کو پتہ نہ چلے۔ وہ دور اب نہیں رہا مگر ہماری پولیس ہے کہ نہ ایسی حرکتوں سے باز آتی ہے نہ سدھرتی ہے اور حکومت اور برسر اقتدار سیاست دانوں کو بھی پولیس کی اصلاح کی فکر اس لیے نہیں ہے کہ خود انھوں نے پولیس کو اپنے مفادات کے لیے سیاسی بنا رکھا ہے اور پورے ملک کی پولیس نہ صرف سیاسی بن چکی ہے بلکہ وہ سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو کر فریق بن کر رہ گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ کے پی کے میں پولیس اب مکمل طور پر غیر سیاسی ہو چکی ہے، جہاں سیاسی بنیاد پر پولیس میں تقرری و تبادلے ہوتے ہیں، نہ سیاست دان پولیس معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں اور پولیس میں مکمل طور پر میرٹ پر عمل ہو رہا ہے، جس سے پولیس کے مظالم ختم اور پولیس کے خلاف عوامی شکایات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

پولیس کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے والی پنجاب اور سندھ کی حکومتیں بھی پولیس میں میرٹ پر عمل کے دعوے تو ضرور کرتی ہیں مگر حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ بلوچستان میں چونکہ پولیس چند اضلاع تک ہی محدود ہے اس لیے وہاں پولیس کی شکایات عوامی سطح پر کم ہیں اور وہاں قبائلی نظام کے باعث عوامی معاملات پولیس تک کم ہی جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سندھ اور پنجاب میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے ان میں دونوں حکومتوں نے پولیس کو اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا، سرکاری امیدواروں کی کامیابی کے لیے پولیس کو استعمال کیا گیا اور میڈیا پر پولیس اہلکاروں کو ووٹوں پر خود مہریں لگاتے ہوئے اور بیلٹ بکس بھرتے ہوئے دکھایا گیا اور پولیس نے جس طرح اپنے سیاسی سرپرستوں سے مکمل وفاداری دکھائی اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کو کامیاب کرانے میں اپنی وردی کا بھرپور استعمال کیا مگر بعض جگہ فوج اور رینجرز کے باعث کامیاب نہ ہو سکے۔

کراچی پولیس کے لیے دبئی اور سونے کی چڑیا ہے اور ملک بھر کے لوگ کراچی پولیس میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے شکایات رہتی ہے کہ کراچی میں مقامی پولیس نہیں ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں اگر مقامی لوگ موجود بھی ہیں تو وہ بھی آپس میں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ رشوت کا حصول ان سب کا فرض اولین بنا ہوا ہے اور وہ اس معاملے میں مقامی و غیر مقامی پر نہیں مال بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔

ملک بلاشبہ پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی پولیس کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے جہاں اعلیٰ پولیس افسران آئے دن پولیس گروپوں کو مختلف نام دیتے رہتے ہیں اور پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر نئے نئے ناموں سے فورسز تشکیل دیتے رہتے ہیں جس سے پولیس کی کارکردگی تو بہتر نہیں ہوتی بلکہ عوام کو تنگ کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ کراچی میں پولیس مختلف ناموں سے کام کر رہی ہے مگر اسٹریٹ کرائمز پر ہزارہا دعوؤں کے باوجود قابو نہیں پایا جا سکا ، جس کا اعتراف خود پولیس کے اعلیٰ افسران کر چکے ہیں۔

ملک بھر میں پولیس اپنے ڈراموں کے باعث بھی مشہور ہے، حال ہی میں راولپنڈی میں پولیس نے ایک تین سالہ بچے کے خلاف ایک پلازے پر قبضے کا مقدمہ بنا دیا، اس سے قبل بھی ملک کے مختلف علاقوں میں پولیس کمسن بچوں پر جھوٹے مقدمے قائم کرتی رہی ہے اور کم عمر بچوں کو ہتھکڑیوں میں عدالتوں میں پیش کر کے ججوں کی برہمی کا نشانہ بنتی رہی ہے۔

کراچی اور لاہور میں پولیس مختلف ناموں سے قائم کیے گئے اداروں میں موجود ہے، پہلے سی آئی اے دہشت کی علامت ہوتی تھی جہاں کمائی سب سے زیادہ تھی، جس میں آنے کے لیے پولیس افسران اور اہلکار سیاسی سفارشیں کراتے تھے، پولیس رولز 2002ء کے بعد پولیس آپریشن اور انویسٹی گیشن میں تبدیل ہوئی، پھر تجربہ کامیاب نہ ہونے پر پرانا سلسلہ بحال ہوا۔ اب ہر صوبے میں پولیس کے معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر کمائی کے طریقوں پر سب متحد و متفق ہیں۔

کراچی میں گزشتہ دنوں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ٹو کی منفرد کارکردگی میڈیا پر آئی جس میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف متحرک سی ٹی ڈی ٹو کے اہلکاروں نے اپنے محکمے کو بدنام کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ سی ٹی ڈی ٹو کے افسران آئے دن پریس کانفرنسوں میں برآمد کیا گیا اسلحہ دکھاتے تھے ان میں بم، ناجائز اسلحہ فراہم کرنے والوں سے خریدے جاتے تھے اور ایک سب انسپکٹر اپنے بیٹروں کے لیے خریدتا تھا۔

سی ٹی ڈی ٹو کے افسران نے اپنی آمدنی کا مبینہ ہدف روزانہ دو سے ڈھائی لاکھ روپے مقرر کر رکھا تھا اور بے گناہوں کو دہشت گرد بنا کر گرفتار کر کے ان کی رہائی کے لیے ورثا سے سودے بازی کے لیے اے ایس ایف کا سابق اہلکار مقرر تھا جس کا علم ہونے پر ڈی آئی جی نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اور متعلقہ افسران سے جواب طلبی بھی کی تھی۔

پولیس ڈرامے کوئی نئی بات نہیں، 25 سال قبل ایک ڈی آئی جی پولیس نے جو اے ایس آئی سے آئی جی بنے تھے، راقم کو بتایا تھا کہ اندرون سندھ مختلف اضلاع کے ایس پی اچھے ضلع لینے یا دوسرے ایس پی کو ناکام اور بدنام کرانے کے لیے دوسروں کے اضلاع میں اپنے جرائم پیشہ عناصر کے ذریعے خود جرائم کرایا کرتے تھے۔

ملک بھر میں پولیس اپنے تشدد اور ڈراموں کے ذریعے بکری کو ہاتھی اور ہاتھی کو بکری ہونے کا اعتراف کرانے میں مشہور ہے اور حال ہی میں اپوزیشن لیڈر نے بھی کہا ہے کہ پولیس ایجنسیاں اپنے حربوں کے ذریعے بڑے بڑوں سے بھی ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرا سکتی ہیں۔ پولیس ترقی اور انعام کے لیے ہر ممکن ڈرامے بناتی ہے مگر بعد میں ان ڈراموں کے جعلی ثابت ہونے پر بھی کسی کے خلاف کارروائی ہوتی نہ ترقی اور انعامی رقم واپس لی جاتی ہے۔

متعدد سنگین مقدمات میں ملوث پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ اعلیٰ پولیس افسران اب بھی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، سنگین جرائم میں برطرف ہونے والے عدالتوں اور سفارشوں کے ذریعے خود کو دوبارہ بحال کرا لیتے ہیں، آئے دن پولیس افسر اور اہلکار جرائم میں خود ملوث ہونے پر گرفتار ہوتے ہیں تو اعلیٰ افسران انھیں پولیس کی کالی بھیڑیں قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

اعلیٰ عدالتوں کی سختی کے باوجود پولیس میں اصلاح نہیں ہو رہی اور یہاں تک کہ سندھ کے آئی جی بھی توہین عدالت کے مرتکب قرار دیے جانے کے بعد معافیاں مانگ رہے ہیں، بعض اعلیٰ افسران ملزموں کو جعلی مقابلوں میں مارنے میں مشہور ہیں اور حکومت عدلیہ کے حکم کے باوجود انھیں اپنے مفاد کے لیے تعینات رکھے ہوئے ہیں۔ آخر سندھ کا کیا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔