جگر نوچتے بھوکے عقاب

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 30 دسمبر 2015

معاشرہ آدمی کا دوسرا باپ ہوتا ہے، دونوں باپ ہی بچوں پر اثرانداز ہوتے ہیں، دونوں ہی بچوں کو کارآمد بناتے ہیں یا ناکارہ بناتے ہیں صحت مند بناتے ہیں یا بیمار کر دیتے ہیں لیکن اگر ایک بچوں کو محبت کرے اور دوسرا نفرت تو پھر بچے کہیں کے نہیں رہتے۔

جیسے ہم کہیں کے نہیں رہے ہیں کیونکہ ہمارے نصیب ہی برے ہیں جو ہمارے حصے میں دوسرا باپ سوتیلا جو آیا ہے اور سو تیلے کے ساتھ ساتھ وہ باپ جس کو 68 سالوں سے محرومیاں، مایوسیاں، ادھورا پن زخمی کرتے رہے ہیں کچلتے رہے ہیں ظاہر ہے جو خود مایوسیوں، اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو اور جسے روشنی سے نفرت ہو گئی ہے وہ اپنے بچوں کو روشنی کیسے دے سکتا ہے۔

اچھا مستقبل کیسے دے سکتا ہے، اسی لیے ہم سب خاکروب بن کر رہ گئے ہیں وہ خاکروب جو زندگی بھر امیروں، طاقتوروں اور با اختیاروں کی گندگی صاف کرتے رہتے ہیں گناہ وہ کرتے ہیں عذاب ہم جھیلتے ہیں کرپشن وہ کرتے ہیں سزا ہم کاٹتے ہیں بدعنوانی وہ کرتے ہیں مجر م ہم بنتے ہیں، دنیا بھر کے سارے غلط کام وہ کرتے ہیں، بد دعائیں ہمیں لگتی ہیں پھر بھی وہ ہمیں گالیاں دیتے رہتے ہیں۔

ہماری حالت ان پاگل کتوں کی طرح کر دی گئی ہے جو اپنے زخم چاٹتے رہتے ہیں اب ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا ہے کہ ہم اپنی امیدوں کی نیلامی لگا دیں اپنی خواہشوں اپنی آرزؤں کو قبرستان میں جا کر دفنا دیں ظاہر ہے اب ہمارے پاس وقت ہی کیا بچا ہے جو ان کو اور زندہ رکھ سکیں آخر کب تک اور ان کا بو جھ اپنی کمروں پر لا دے لادے پھریں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اپنے خوابوں کو وہ سزا دیں کہ کبھی دوبارہ ہماری آنکھوں میں پھٹک نہ پائیں۔

آج ہم سب بیمار ہیں اس لیے کہ ہمارا دوسرا باپ جو بیمار ہے سائنس دان کہتے ہیں، انسان کی شخصیت اور کردار کی تعمیر میں Genetic Inheritence کا بہت ہاتھ ہے، جس میں حالات و واقعات ان کا رد و بدل اور نشیب و فراز سبھی کچھ شامل ہے گویا خارجی ماحول تربیت ، تعلیم اور دیگر سماجی عوامل کے ساتھ ساتھ جینز کا کردار بھی انسان کی شخصیت، مزاج اور رویوں کو تشکیل دیتا ہے انسان کو فنا ہے جب کہ جینز نسل در نسل اپنا سفر جاری و ساری رکھتے ہیں، اسی لیے بیمار آدمی بیمار بچوں کو جنم دیتا ہے اور صحت آدمی صحت مند بچوں کو۔ یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہماری نسل در نسل بیمار چلی آ رہی ہے ظاہر ہے بیمار سماج بیمار بچوں کو ہی جنم دے گا۔

ہم کبھی پورا سچ نہیں بولتے ہیں بس اتنا بولتے ہیں جس سے ہمیں نقصان نہ پہنچے یہ ہماری بدترین خاصیتوں میں سے ایک ہے، دوسرے لفظوں میں ہم اپنے مفادات کے غلام ہیں اور ساتھ ساتھ منافق بھی۔ اسی لیے نہ خود کچھ سمجھ پاتے ہیں اور نہ دوسروں کو کچھ سمجھنے کا موقع دیتے ہیں بس جھوٹ کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ہم سب کے سب ادھورے ہیں اور یہ ادھورا پن ہماری زندگی اور سماج کی ہر چیز میں چھلکتا رہتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ساری زندگی اپنے آپ کو پورا اور صحت مند ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور وراثت میں ادھورا پن اور بیماریاں چھوڑ جاتے ہیں اور ہمارے وارث ہماری وراثت پر اپنی پوری طاقت، قوت سے جھپٹ کر اسے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں اور یہ عمل اسی طرح سے مسلسل جاری رہتا ہے۔

اصل میں ہم پورا سچ اس لیے نہیں کہتے ہیں کیونکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ ہمارا سماج بیمار ہے تو پھر ہمیں بیمار کو تندرست کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کر نا پڑے گا اور جب ہم بیمار سماج کو صحت مند کرنے کی کوشش شروع کریں گے تو پھر ہمیں اپنا علاج بھی کرنا پڑے گا اپنے آپ پر ملامت کرنی پڑے گی، اپنے آپ کو کو سنا پڑے گا۔ اپنے آپ کو برا بھلا کہنا پڑے گا۔ اصل میں ہم یہ سب کچھ ہی تو نہیں چاہتے ہیں نہ ہم اپنے آپ پر شرمندہ ہونا چاہتے ہیں اور نہ ہی پشیمان، اسی لیے جھوٹی، ادھوری اور بیمار زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں بس ایک عادت سمجھ کر گزار ے ہی چلے جا رہے ہیں۔

امریکی کہاوت ہے ’’ماضی کے لیے ہیٹ اور مستقبل کے لیے کوٹ اتارنا ضروری ہے۔‘‘ سیاہ فام امریکی شاعرہ اور ناول نگا ر ایلس واکر کہتی تھیں کہ ’’کسی بھی سماج میں تبدیلی انسان کے ذاتی خیالات میں تبدیلی لائے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ اگر آپ اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لائیں گے تو ساری زندگی آپ کے ذہن میں ایک کشمکش اور تصادم جاری رہے گا، اور آپ ساری زندگی اذیت اٹھا اٹھا کر مر جائیں گے لیکن یاد رہے تمہارے خیالات اور احساسات پھر بھی نہیں مریں گے وہ ایک نسل سے دوسری نسل کو جینز کے ذریعے منتقل ہوتے رہیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ تمہیں مرنے کے بعد چین مل جائے لیکن تمہارے خیالات اور احساسات پھر بھی بے چین رہیں گے۔

اسکائی لیس کو یونانی پیغمبرانہ صفات کا المیہ نگار مانتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ اسکائی لیس پر ڈرامے کے موضوعات اور پلاٹ وحی کی صورت میں اترتے ہیں اسکائی لیس کا ایک ناقابل فراموش المیہ ڈرامہ ’’پرومی تھیس باؤنڈ‘‘ ہے جس میں ہیرو پرومی تھیس زیوس دیوتا کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔ پرومی تھیس انسانوں کا ہمدرد ہے اور خود بھی ایک دیوتا ہے، پرومی تھیس آگ چرا کر انسان کو دے دیتا ہے اور زیوس اس کو اس جرم میں سزا دیتا ہے اور کاکیشیا کی چوٹی پر باندھ کر اس پر بھوکا عقاب چھوڑ دیتا ہے وہ عقاب دن بھر اس کا جگر نوچتا رہتا ہے رات کو جگر پھر اصل حالت میں آ جاتا ہے اور صبح عقاب پھر جگر نو چنا شروع کر دیتا ہے۔

میں نے جب جب یہ ڈرامہ پڑھا ہے مجھے تب تب ایسا لگا ہے کہ ہم سب بھی پرومی تھیس ہیں جنہیں بیمار زیوس سماج نے سزا میں مبتلا کر رکھا ہے دن بھر بھوکے عقاب ہم سب کا جگر نوچتے رہتے ہیں رات کو ہمارے جگر واپس اصلی حالت میں آ جاتے ہیں اور صبح ہوتے ہی پھر بھوکے عقاب ہمارا جگر نوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل قبر تک اسی طرح جاری رہتا ہے۔

دہاڑیں مار مار کر اس وقت رونے کو دل کرتا ہے جب ہم چپ چاپ یہ اذیت، سزا اور تکلیف سہے جا رہے ہیں بغیر احتجاج کیے بغیر مزاحمت کیے بغیر شور مچائے۔ اگر یہ اذیت آپ اور مزید برداشت کر سکتے ہیں تو پھر اور بات ہے ورنہ آئیں مل کر اس گلے سڑے بدبودار ظالم اور بیمار سماج کو کہیں دو ر بہت دور جا کر زمین کے اندر اتنی گہرائی میں دفن کر دیں کہ کبھی دوبارہ اس کے جراثیم ہماری طرف پلٹ کر نہ آ سکیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔