کرپشن اور دائرہ کار؟

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 31 دسمبر 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ملک میں اہل اقتدار اپنے سیاسی اورمعاشی مفادات کے تحفظ کے لیے کیسی کیسی لڑائیاں لڑتے ہیں، کیسی کیسی موقع پرستی کے مظاہرے کرتے ہیں، ان سے ہماری سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے ۔آج کل عدالتی محاذ پر رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے جو لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ اس کی انتہا کا عالم یہ ہے کہ اس لڑائی کے لیے عدلیہ کو میدان جنگ بنالیا گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سیکیورٹی فورسزکا کام ملک میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ سرحدوں کی نگرانی ہوتا ہے۔

رینجرز بھی سیکیورٹی فورسز کا ایک حصہ ہے ہمارے آئین میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر ملک میں یا کسی صوبے میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوجائے اور پولیس اسے کنٹرول کرنے سے قاصر ہو تو مرکزی یا صوبائی حکومتیں سیکیورٹی فورسز کو بلا سکتی ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال اس قدرخراب ہوچکی تھی کہ کراچی کا ہر شہری روشنیوں کے اس شہر کو درندوں سے بھرا جنگل سمجھنے لگا تھا کسی کی جان و مال محفوظ نہ تھی مائیں اپنے بیٹوں کو، بیویاں اپنے شوہروں کو، بہنیں اپنے بھائیوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت دلوں میں یہ وسوسے اور خدشات رکھتی تھیں کہ پتہ نہیں ان کے یہ پیارے شام کو خیریت سے گھر واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔

دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ ہر شخص سہما ہوا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی مرضی سے امن وامان کی بحالی کے لیے رینجرزکو طلب کیا گیا اور جرائم کی بھرمار اور سنگینی کے پیش نظر رینجرز کوکچھ خصوصی اختیارات دیے گئے، جن میں مشکوک افراد کو 90 دن تک تفتیش کے لیے اپنی تحویل میں رکھنا بھی شامل تھا۔ رینجرز کو دیے جانے والے یہ اختیارات غیر معمولی اور جمہوری تصور سے ماوریٰ تھے لیکن ان اختیارات پرکسی قسم کے شدید اعتراضات غالباً اس لیے پیدا نہ ہوئے کہ کراچی کی بدترین صورت حال کو بہتری میں بدلنے کے لیے یہ اختیارات ضروری سمجھے جا رہے تھے اور ہوا بھی یہی کہ رینجرز نے ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کراچی آپریشن میں اتنی تیزی پیدا کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں بہتری آتی گئی اورکراچی کے شہری سکھ کا سانس لینے لگے۔

رینجرزکی اس کارکردگی سے سب مطمئن تھے کہ رینجرز نے کرپشن اور دہشت گردی میں معاونت کے الزام میں کچھ سیاسی رہنماؤں کوگرفتارکرلیا جن کا تعلق ’’حسن اتفاق‘‘ سے برسر اقتدار جماعت سے تھا ،ان معززین کو جب ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں اور تھانوں میں لایا جانے لگا تو حکمران طبقات نے اس عمل کو معززین شہرکی شان کے خلاف سمجھا کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہتھکڑی اور بیڑی صرف غریب طبقات کا ہی مقدر ہے خواہ غریب طبقے کا کوئی ملزم چند ہزارکی رشوت کا ہی ملزم کیوں نہ ہو۔ جن معززین کو گرفتارکیا گیا تھا ان پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات تھے اور برا یہ ہوا کہ ایک مفرور ملزم نے دوران تفتیش یہ حیرت انگیز انکشاف کردیا کہ اصل مجرم کوئی اور ہے۔

میں ہوں کسی اور کا‘ مجھے چاہتا کوئی اور ہے

اس صورتحال نے مقتدر طبقات میں کھلبلی مچادی کیونکہ رینجرز کی نگاہیں اب انکشافی ملزم کی طرف اٹھ رہی تھیں وہ حکمران طبقات جو کل تک رینجرزکی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ جب رینجرز کی رینج میں خود ان کے لاڈلے آنے لگے تو رینجرز کی کارکردگی سخت قابل اعتراض ہوگئی اور غلغلہ بلند ہوا کہ رینجرز اپنے دائرہ اختیارات سے باہر آرہی ہے۔ اور حکمران بادشاہ اولادوں کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کا حکم صادر کرنے لگے جب اس انتباہ کے باوجود رینجرز پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے دائرہ کار سے باہر ہی آتی رہی تو اس کے دائرہ کار کا واضح اعلان کردیا گیا کہ وہ دہشت گردوں، ٹارگٹ کلروں، اغوا برائے تاوان کے مجرموں، بھتہ خوروں، ڈاکوؤں وغیرہ کے خلاف تو کارروائی کرسکتی ہے، لیکن رشوت خوروں اور کرپشن کے خلاف کارروائی کرنا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

ہمیں نہیں معلوم کہ رینجرزکو اختیارات دیتے وقت کرپشن کو اس کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا تھا یا اس وقت اس جرم کو رینجرز کے دائرہ اختیار سے باہرکیا گیا جب اپنے لوگوں تک رینجرز کا دائرہ کار بڑھنے لگا۔ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس بار بار یہ فرما رہے ہیں کہ ’’کرپشن اور بدعنوانیوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ‘‘ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے چیف جسٹس نے جس کرپشن اور بدعنوانیوں کا ذکر کیا ہے کیا وہ قانون اور انصاف کے دائرہ کار میں آتی ہیں یا نہیں۔ البتہ ہمیں یہ ضرور معلوم ہوگیا ہے کہ کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اگر بقول محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ، کرپشن نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے تو پھر اسے کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا اسے ختم کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے آئیں گے یا فوج کو اس مہلک بیماریوں کے علاج کا ٹاسک دیا جائے گا۔ رینجرز فوج کا ہی ایک حصہ کہلاتی ہے جب کرپشن رینجرز کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو کیا اسے فوج کے دائرہ اختیار میں لایا جاسکتا ہے؟

رینجرز صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتی ہے اور وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ غالباً اس مجبوری کی وجہ سے صوبائی حکومت رینجرز کوکنٹرول نہیں کرسکتی۔ ہمارے مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صوبائی حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز آجائے ورنہ ڈاکٹر عاصم حسین کی ریکارڈ ویڈیو باہر لائی جائے گی۔ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کے بیان سے کسی  اور شخصیت پر حرف آتا ہے تو اصولاً نثار علی خان کو فوری وہ ویڈیو میڈیا کے حوالے کرنا چاہیے تھی لیکن چوہدری صاحب اس ویڈیو کو چھپا کر کیا قانون کی بالادستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا سابقہ دوستی کو نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ بات کچھ بھی ہو کرپشن بقول چیف جسٹس  ہمارے معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہی ہے تو اسے ہر حال میں ختم کیا جانا چاہیے یہ بیماری محض کسی کے دائرہ اختیار کے اندر یا باہر رہنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے اپنے پرائے کے امتیازات کو پہلے ختم کرنا ہوگا۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر پنجاب میں بھی کرپشن کے خلاف آپریشن ہو تو چوہدری نثار اس کی حمایت اسی طرح کریں گے جس طرح وہ آج سندھ میں کررہے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔