بلوچستان، قیادت کی تبدیلی، مسائل اور نتائج

عابد میر  جمعرات 31 دسمبر 2015
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

قطع نظر سیاسی و فکری اختلاف کے، بلوچستان میں ایک سیاسی معاہدے کے تحت پُر امن انتقالِ اقتدار نے ایک نئی سیاسی روایت کی بنیاد ضرور ڈالی ہے۔ گو کہ ڈیڑھ برس قبل پہلی بار اس معاہدے کی بازگشت سنی گئی تو اس سے متعلق ڈاکٹر مالک بلوچ کا سیاسی  جواب بھی یہی تھا کہ ’میرے علم میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے‘ اور بالآخر ایک وقت ایسا آیا جب انھیں یہ کہنا پڑا کہ مری معاہدے کے پابند ہیں اور اس سے متعلق وزیر اعظم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے اور سچی بات یہ ہے کہ ہر خواہش کو خبر بنانے والوں سے لے کر، بغض کو تجزیہ بنانے والوں اور ہر قسم کی اندرونی خبروں پہ نظر رکھنے والوں تک، کسی کے پاس درست خبر نہ تھی کہ کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اکثریتی رائے یہی تھی کہ ڈاکٹر مالک وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہیں گے۔

اس تجزیے پہ یقین رکھنے والوں میں ایک طرف وہ لوگ تھے جو ڈاکٹر مالک کے ’سافٹ امیج‘ سے متاثر تھے اور دل سے ایسا چاہتے تھے کہ یہ تسلسل برقرار رہے۔ دوسری جانب وہ لوگ تھے جن کا طنزاً یہ خیال تھا کہ ڈاکٹر مالک نے اسٹیبلشمنٹ کی جس تابعداری سے خدمات سر انجام دی ہیں، وہ ان کے ’چہیتے‘ بن چکے ہیں، حتیٰ کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی ان کے ’متاثرین‘ میں شامل ہیں، جب کہ ان کے مدمقابل ایک سردار ہے، جو بہرحال کہیں نہ کہیں اپنی ’سرداری‘ بھی دکھا سکتا ہے، اس لیے تمام مقتدر قوتیں ڈاکٹر مالک کی نوکری برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ اصولاً تو اس تجزیے کی رُو سے ڈاکٹر مالک کی رخصتی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کی مقتدر قوتیں اس قدر کمزور ہیں کہ ایک سردار سے معاہدے کے سامنے بے بس ہو کر اپنے چہیتے وزیر اعلیٰ کی نوکری نہیں بچا سکیں، لیکن اس تبدیلی کو کسی طنز یا بغض کی بجائے سیاسی زاویہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں سیاسی تبدیلیاں نادیدہ مقتدرہ کے ہاتھوں رو بہ عمل ہوتی ہیں۔ یہاں سات نشستوں والی پیپلز پارٹی راتوں رات اکثریتی جماعت بن کر حکومت قائم کر سکتی ہے، اور سات نشستوں والی نیشنل پارٹی، صوبے کی اکثریتی اور مرکز میں حکومت قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن کو اپنی حکومت قائم کرنے پر قائل کر سکتی ہے۔ معاہدوں کے ذریعے انتقالِ اقتدار کی روایت کا سہرا بھی اب اسی بلوچستان کے سر رکھا گیا ہے۔ یہ معاہدہ کن قوتوں کی سربراہی میں طے پایا اور اس پہ کیسے، کن شرائط پہ عمل درآمد ہوا، یہ مباحث اب شاید اتنے ثمر آور نہ ہوں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہو چکا اور بلوچستان میں پارلیمانی قیادت کی تبدیلی عمل میں لائی جا چکی۔ جو آیندہ ڈھائی برس تک بلوچستان کے عوام کی قسمت کے فیصلے کرنے کی مجاز ہو گی۔ اب بحث کا موضوع اس قیادت سے متعلق ہونا چاہیے اور ہم اسی پر بحث کریں گے۔

بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری بلوچستان کے مضبوط ترین سرداروں میں سے ہیں۔ سیاست کا بھی خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ ابھی ایک دہائی قبل تک وہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر سیاست کر رہے تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد عوامی دباؤ کے نتیجے میں جب نیشنل پارٹی کو اسمبلیوں سے نکلنا پڑا تو نواب ثنا اللہ نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارٹی فیصلے کی یہی خلاف ورزی ان کی راہیں جدا کرنے کا موجب بنی۔ نواب ثنااللہ کا آبائی علاقہ زہری خضدار کے مشرق اور سردار عطااللہ مینگل کا علاقہ وڈھ اس کے مغرب میں پڑتا ہے۔

یہی وہ سنگم ہے جو ان قبائل کے مابین ایک مستقل قبائلی تنازعے کا باعث بنا رہا ہے۔ یہ دونوں قبائل جب تک باہم شیر و شکر نہیں ہوتے، خضدار کی ترقی خواب ہی رہے گی۔ خضدار نیز اس علاقے کے عوام ہر دو قبائل، نیز قبائل کے اندر موجود دشمنیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ عوام دشمن مقتدرہ اپنے مفادات کے تحت اپنا وزن کبھی ایک تو کبھی دوسرے سردار کے پلڑے میں ڈالتی رہی ہے۔ عوام نہ کبھی سرکار کی ترجیح رہی ہے نہ سردار کی۔ نواب ثنا اللہ کے لیے اس تاثر کا خاتمہ ایک چیلنج ہو گا۔ اصلاح اور تبدیلی کا آغاز گھر سے کرنا ہی موزوں ہو تا ہے۔ اپنے علاقے کو رول ماڈل بنا کر ہی وہ صوبے کے لیے رول ماڈل بن سکتے ہیں۔

سردار ثنا اللہ کے لیے ایک سخت چیلنج ان کے اپنے نجی امیج سے متعلق بھی ہے۔ وہ ایک سخت گیر سردار کے طور پر مشہور ہیں۔ اور سیاست نرم مزاجی کا تقاضا کرتی ہے۔ سرداری اور سیاست دو الگ مظاہر ہیں۔ سردار اپنی ذات میں حتمی ہوتا ہے، جب کہ سیاست اجتماعی شعور کا نام ہے۔ اس لیے کوئی بھی سردار تب تک قابلِ قبول نہیں ہوتا جب تک وہ ’سیاسی‘ نہ ہو جائے اور سیاست محض انتخاب جیتنا نہیں، بلکہ یہ تو عوام کے دل اور ان کا اعتبار جیتنے کا ہنر ہے۔

یوسف عزیز مگسی سے لے کر، خیر بخش مری اور عطا اللہ مینگل تک بلوچستان کے درجنوں سرداروں میں سے یہ چند سردار ہی ہیں جنھیں عوامی پذیرائی حاصل رہی تو اس کا سبب ان کی سرداری نہیں بلکہ عوامی سیاست میں شمولیت تھی۔ وگرنہ سردار تو محض اپنے قبیلے کا نمایندہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اکبر خان بگٹی کے حصے میں بھی عوامی قبولیت تبھی آئی جب انھوں نے قبیلے کی سطح سے اٹھ کر پورے بلوچستان کی بات کی۔ اپنی جماعت سے نکل کر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ گویا کسی بھی سردار کے لیے عوامی قبولیت کے در تبھی وا ہوں گے جب وہ قبائلی سطح سے اٹھ کر اجتماعی عوامی مفاد کے لیے کام کرے گا۔

نومنتخب وزیر اعلیٰ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ان رہنماؤں سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا ہے جنھیں معروف اصطلاح میں ’ناراض بلوچ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کام اس لیے بھی مشکل ہو گا کہ ان میں سے بعض رہنماؤں کے ساتھ ان کے تعلقات نہایت کشیدہ رہے ہیں۔ اس کے لیے انھیں قبائلیت سے نکل کر سیاسی ہونا پڑے گا… کہ قبائلیت میں دوستیاں اور دشمنیاں نسل در نسل ہوا کرتی ہیں، جب کہ سیاست میں دوست اور دشمن مستقل ہوتے ہی نہیں۔ سیاست ہی وہ عمل ہے جو ہمارے رویوں کو جمہوری بناتا ہے۔ جمہوری بن کر ہی تو ہم جمہور سے جڑتے ہیں۔ قبائلیت اور جمہوریت کے مابین جو پُل ہے، اسے سیاست کہتے ہیں؛ پلِ صراط جیسا نازک پل۔ جس سردار نے یہ پل پار کر لیا، اس کا بیڑا پار ہوا۔

ایک فوری چیلنج تو انھیں کابینہ کی تشکیل کی صورت بھی در پیش آ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں ہر ایم پی اے کے وزیر بننے کی ایسی روایت ڈال دی گئی تھی جس سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت کو تین ماہ لگ گئے تھے۔ ن لیگ کے بائیس ایم پی اے میں سے نصف سے زائد صرف اس امید پہ صبر کیے بیٹھے رہے کہ جلد ڈھائی برس بعد بالآخر ان کی باری بھی آ ہی جائے گی اور خبریں سرگرم ہیں کہ سردار ثنا اللہ کئی ایم پی ایز کو وزارت کا سبز باغ بھی دکھا آئے ہیں، جب کہ دیگر اتحادی جماعتیں پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی بھی حصہ بہ قدرِ جثہ کی خواہاں ہیں، ایسے میں نو  زائدہ  وزیر اعلیٰ کے لیے اپنی جماعت سمیت اتحادی جماعت کے ساتھیوں کو رام کرنا کارِ سہل نہ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔