خدا حافظ، عیسوی سال 2015

قمر عباس نقوی  جمعرات 31 دسمبر 2015

سال 2015ء اور 2016ء کی درمیانی شب کی تاریکی میں دوسرے نئے سال کے نئے دن کا الحمداللہ باقاعدہ آغاز ہو جانا ہے۔ نئے عیسوی سال کا چاند محرم کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسی لیے اسے شمسی یا سورج کا سال کہا جاتا ہے۔ یوں تو ہر سال کی تاریخ وقوع پذیر ہونے والے مختلف حالات و واقعات، معاشی، سماجی، معاشرتی، مذہبی، قومی اور بین الاقوامی اور موسمی تغیرات پر محیط ہوا کرتی ہے۔ موازناتی لحاظ سے 2015ء گزشتہ سالوں کی بانسبت بڑا پرسکون اور پرامن رہا۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں توازن رہا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی زیادہ تکلیف دہ اتار چڑھاؤ نہ ہو سکا۔

مارکیٹ میں موجود کسی بھی شے کی قلت کا اسکینڈل منظر عام پر نہیں آ سکا۔ امن و امان کے حوالے سے بالخصوص شہر کراچی میں اسٹریٹ کرائمز، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، دہشت گردی، انسانی قتل و غارت گری کی صورت حال کسی حد تک کنٹرول میں رہی۔ مذہبی اور فرقہ واریت کے حوالے سے بھی یہ سال بڑا پرامن رہا اور کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ کراچی میں رینجرز کی جانب سے جاری کامیاب آپریشن ہے۔ اس ضمن میں قابل ستائش پاک افواج جن کے دل میں عوام کا درد ہے جو اس درد کو بلا شبہ محسوس بھی کرتے ہیں۔ ہم ڈھیر ساری دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ فوج کے سپہ سالار راحیل شریف کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔

حقیقت کی نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس سال کو موسمیات کا سال کہنا بے جانہ ہو گا۔ گرمی کیا تھی، شدت آگ تھی۔ حد درجہ درجہ حرارت کے اضافے نے ماحول میں حبس، گٹھن کی شدت پیدا کر دی تھی جو یقینا مخلوق خدا کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایسی صورتحال دیکھ کر ہمیں میر انیس کا ’’حسب حال‘‘ مرثیے کا شعر یاد آ گیا ۔

پانی تھا آگ، گرمی روز حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی، کباب تھی

قابل افسوس اور قابل احتجاج بھی ہے یہ امر کہ مخلوق خدا کو اس آگ سے بچاؤ کا واحد اور منفرد ذریعہ بجلی تھا۔ عین ایسے موقعے پر بجلی فراہمی کمپنی کی طرف سے بجلی چوروں کے خلاف برق آپریشن کا شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا دائرہ کار صرف یہیں تک محدود نہ تھا بلکہ صارفین کو زائد بلنگ کا اجراء، لوڈشیڈنگ جو ایک مستقل قومی کلچر کا روپ دھار چکی ہے۔ اس شدت آگ میں مزید لوڈ شیڈنگ میں اضافہ، فی یونٹ قیمتوں میں اضافہ کمپنی کے اندرونی انتظامی معاملات کی خرابی معلوم ہوتی ہے۔ جہاں عسکری، سول قیادت اور عوام ضرب عضب کے ساتھ تخریب کا روں پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری کے۔

الیکٹرک کراچی کی عوام الناس کے اوپر برق عضب (برق غضب) بنکر نازل ہو رہی تھی۔ ساڑھے سات سو ارب مالیت کے اتارے جانے والے کاپر وائروں کی جگہ ڈیڑھ سو ارب مالیت کے سلور کے تار نصب کیے گئے تھے جو گرمی کی تپش سے پگھل کر بھن بھناتے ناگ کی طرح انسانوں پر اپنی آتش فشانیاں بکھیرتے رہے۔ بیچارے عوام جو پہلے ہی اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی جیسی معاشرتی آفتوں کا شکار تھے ادھر بجلی کے برق آپریشن نے انھیں مزید دہشت زدہ کر دیا۔ کریں تو کیا کریں۔ کدھر جائیں کے مصداق صبر و شکر کا دامن تھامے رکھا۔ ادھر بجلی کی قلت نے جنریٹرز کی مانگ میں اضافہ کر دیا اور یوں گھروں اور تجارتی مراکز میں چلنے والے بھاری وولٹیج کے دھویں نے ماحول کو مزید زہر آلود کر دیا۔ گرمی میں بجلی کے بعد پانی بھی انسانی زندگی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ بجلی کے برق آپریشن نے پانی کا بحران بھی پیدا کر دیا۔

گرمی کی درجہ حرارت میں شدت، بجلی کا بحران اور دوسری طرف پانی کے بحران سے لگ بھگ 1600 انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پانی کی صورتحال یہ تھی کہ ہائیڈرولک اسٹیشنوں پر لوگوں کا بے انتہا رش دیکھنے کو ملا ۔ ٹینکر مافیا کی بھی عید ہو گئی۔ عجیب و غریب ہنگامی صورتحال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جو صاحب حیثیت تھے انھوں نے بورنگ کا سہارا لیا۔ رواں مہینہ دسمبر سرد ہواؤں کا ہے مگر ابھی تک ہم اس گرمی کی شدت کو نہیں بھلا سکے اور ہمارے جسموں میں اس سردی کی حدت تک محسوس نہیں ہو پا رہی۔ ایسا محسوس ہوا ہے کہ موسمیات نے بھی طبقاتی رنگ اختیار لیا ہے یعنی امیر و غریب طبقہ۔ گرمی امیروں کا موسم اور سردی غریبوں کا موسم معلوم ہوتا ہے۔ اس سال کو ہم آگ، بجلی، پانی کا سال نہ کہیں تو پھر کیا کہیں اس کا فیصلہ آپ خود ہی کریں۔

یہ سال اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اس معتبر سال میں پنجاب اور سندھ کے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا کامیاب انعقاد ہوا جو کئی سالوں سے التوا کا شکار تھے۔ حسب دستور اس سال بھی اموات کا سلسلہ ہنوز جاری رہا جن میں کراچی آرٹس کونسل کے سابق نائب صدر محمود احمد خان کی والدہ محترمہ رحلت فرما گئیں۔ ادھر ماہر تعلیم اور معروف سینئر کالم نگار رئیس فاطمہ کے زندگی کے کامیاب ساتھی (شوہر) قاضی اختر جونا گڑھی کی اچانک رحلت نے محترمہ کو صدمے سے دوچار کر دیا۔ قارئین سے مرحوم اور مرحومہ کے ایصال ثواب اور بلندی درجات کے لیے دعائے مغفر ت کی استدعا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔