اشتیاق احمد کی واپسی

شیخ جابر  جمعرات 31 دسمبر 2015
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

وہ پلٹ کر اپنے گھرجانا چاہتے تھے، لیکن خالقِ حقیقی کا بلاوا آ گیا اور جانے والے کی ’’واپسی‘‘ اپنے اصل گھر کو ہوئی۔ صرف ایک دن قبل اشتیاق احمد اپنے مداحوں میں گھِرے انھیں آٹوگراف دینے میں مشغول تھے۔ ایک مصروف اور مشغول فرد کی مصروف شام تھی، لیکن کِسے خبر تھی کہ یہ اُن کی آخری شام اور آخری مشغولیت ہے۔ کل اُنھیں لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ جانا ہے۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے، ہم سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا ہے اور ہمارے بعد والوں کے ساتھ بھی۔ کہ اچانک ایک دن واپسی ہو جائے گی اور ہم خود کو اپنے خالقِ حقیقی کے رُوبرو پائیں گے۔

اشتیاق احمد جیسے لکھاری اردو تو کیا دنیا کی شاید ہی کِسی اور زبان کو میسر آئے ہوں۔ بچوں کے لیے آپ نے بہت لکھا اور خوب ہی لکھا۔ ہمارا تو خیر بچپن ہے ہی اشتیاق احمد کے ناولوں کے نام لیکن مجھے اپنے علاوہ دیگر افراد کی اشتیاق احمد سے اِس درجے دلی وابستگی اور محبت کا قطعی اندازہ نہ تھا، جو یہ کالم تحریر کرنے کے دوران ہوا۔ میں نے جس سے بھی یہ ’’تذکرہ‘‘ کیا کہ میں اشتیاق احمد پر کالم لکھنا چاہتا ہوں اُس کا ردِ عمل والہانہ تھا۔ پھر تو میں ہر کس و ناکس سے یہ ’’تذکرہ‘‘ کرتا چلا گیا۔ میں حیران ہوں کہ اُن میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے اشتیاق احمد کو نہ پڑھا ہو یا جو انسپکٹر جمشید سے واقف نہ ہو اور یہ واقفیت کہیں کہیں تین نسلوں تک محیط ہے۔ مجھے اب سے قبل قطعی یہ اندازہ نہ تھا کہ ( بچپن سے) میرے محبوب مصنف اِس درجے چاہے اور پڑھے جاتے ہیں۔ بلا مبالغہ وہ بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں۔ آپ کا انتقال ہم سب کے لیے، اردو کے لیے، اردو پڑھنے والوں کے لیے بڑا صدمہ ہے۔

اشتیاق احمد ایک منفرد لکھاری تھے۔ اندازِ بیاں سادہ، جو بچوں کو آسانی سے سمجھ میں آ جائے۔ کہانی کِسی بھی قسم کے اُلجھاؤ، ابہام  نیز تضادات سے پاک۔ پلاٹ جان دار اور تیز رفتار۔ زبان بامحاورہ۔ آپ کے ناولوں کی نمایاں ترین خصوصیت میرے نزدیک وہی ہے جو خرم علی شفیق نے ابنِ صفی پر لکھی گئی کتاب ’’سائیکو مینشن‘‘ کے ابتدائیے میں ’’پہلی بات‘‘ (کیا کیجیے، یہ فروگزاشت تو ہو ہی گئی، صفحہ7 کا عنوان ہے پہلی بات) میں تحریر کی ہے۔ خرم علی شفیق ابنِ صفی کے لیے لکھتے ہیں۔ ’’سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ عموماً جاسوسی ناول نگار اخلاقی اقدار کے بارے میں غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ مثلاً آرتھر کونن ڈائل کا مشہور کردار شر لک ہومز مجرموں کو گرفتار کروانے میں قانون کی مدد ضرور کرتا ہے مگر اُس کی شخصیت کا نمایاں پہلو قانون کی حفاظت نہیں بلکہ وہ سائنٹفک طریقہ کار ہے جس کے تحت وہ مجرموں کا سراغ لگاتا ہے۔ اُسے قانون سے نہیں بلکہ اپنے فن سے پیار ہے (اور کبھی کبھی نشہ آور ادویات بھی استعمال کر گزرتا ہے)۔

اِسی طرح جب جیمز بانڈ کے خالق آئن فلیمنگ سے ایک انٹرویو کے دوران جیمز بانڈ کی بے راہ روی کے بارے میں سوال پوچھا گیا، تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے زمانے کے چلن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جہاں لوگ اخلاقی اقدار سے بے نیاز ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دنیا کے اکثر مشہور ناول نگاروں کا رویہ یہ ہی ہے، مگر جب ہم ابنِ صفی کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں جب ’’ادبِ عالیہ‘‘ لکھنے والے بڑے ادیب معاشرے کی اخلاقی اقدار پامال کر رہے تھے، ابنِ صفی کی ہی وہ سب سے بلند آواز تھی جو قانون کے احترام اور اخلاقی اقدار کے دفاع میں بلند ہوئی۔ دوسرے جاسوسی ناول نگاروں اور ابنِ صفی کے درمیان یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ابنِ صفی کو آرتھر کانن ڈائل، اگاتھا کرسٹی، مارس لیبلانک، ارل اسٹینلے گارڈنر، ائین فلیمنگ، جیمز ہیڈلے چیز اور دوسرے تمام جاسوسی ناول نگاروں سے بالکل الگ کر دیں اور اُن کے درمیان کسی قسم کا موازنہ کرنے سے گریز کریں۔‘‘

اشتیاق احمد کی تحریروں میں بھی یہ ہی وصف نظر آئے گا۔ یہ آپ کا طرہِ امتیاز ہے۔ بچوں کے کچے ذہن کسی بھی چیز سے بڑی جلدی اثر قبول کرتے ہیں۔ ایسے میں اشتیاق احمد کی تحریریں غیر محسوس طور پر بچوں کی کردار سازی کرتی چلی جاتی ہیں۔ اُن میں اصول پسندی، مذہب سے، ملک و قوم سے محبت، ادب، شائستگی، دوسروں کا خیال رکھنا، کسی کی بھی مدد کے لیے ہمہ وقت، ہمہ تن تیار رہنا، حمیت، غیرت، بہادری، بذلہ سنجی اور نہ جانے ایسے ہی کتنے اوصاف کتنے ہی بچوں کی شخصیت و کردار کا حصہ بنے ہوں گے۔

آپ کی تحریروں کی ایک اور خصوصیت حقیقت پسندی ہے۔ آپ کے کرداروں سے لے کر ناولوں کے پلاٹ تک مصنوعی ہونے کے باجود مصنوعی نہیں ہوتے تھے۔ ایک جانب تو اُن کا ہماری زمین سے ہمارے لوگوں سے ایک قریبی رشتہ استوار رہا کرتا تھا تو دوسری جانب وہ دیومالائی قسم کے نہیں تھے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انگریزی فلموں کی طرح کہ ہیرو کا پٹھا سیکڑوں گولیوں کی بوچھاڑ اور بموں کے بیچ سے مسکراتا، بل کھاتا نکلا چلا جا رہا ہے اور جو اُس نے پلٹ کے ہلکے سے ہشکار بھی دیا تو دس بارہ تو یوں ہی چل بسے۔ نہ ہی یوں کہ ہیرو جھاڑو پر بیٹھ کر ہوا میں اُڑتے پھر رہے اور اوٹ پٹانک قسم کے کارنامے انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔

اشتیاق احمد کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے بچوں میں محاوروں کے استعمال کا ذوق اجاگر کیا۔ یقیناً بامحاورہ زبان ہی اچھی زبان سمجھی جاتی ہے ، ایسے میں اشتیاق احمد کے ناول بہ قول شخصے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ کے آخیر دنوں میں آپ کا لکھا ہوا عمران سیریز کا پہلا اور آخری ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ شایع ہوا۔ ناول پر اگرچہ شریک مصنف کی حیثیت سے فاروق احمد کا نام بھی درج ہے لیکن ناول کو محمد حنیف اور راشد اشرف کی نظرِ ثانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ ناول کے آخیر میں رائے طلب کی گئی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے یا نہیں۔ اگرچہ اب تو اِس دارِفانی سے اشتیاق احمد کی واپسی بھی ہو گئی ہے لیکن میری ذاتی رائے میں یہ سلسلہ جاری رہے تو بہتر ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ میں مرحوم کی رائے سے کوئی اختلاف رکھتا ہوں جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’عمران پر لکھنا ابنِ صفی کا کام تھا اور جس کا کام اُسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘۔

یہ صد فی صد درست ہے لیکن میرے پیش نظر ابنِ صفی مرحوم کے جاسوسی دنیا کے ایک سو ساتویں ناول ’’تیسری ناگن‘‘ کا ’’پیشرفت‘‘ ہے۔ یہ تین فروری 1966ء کو لکھا گیا تھا۔ آپ لکھتے ہیں۔ ’’یارو کہاں تک لکھوں۔ کیا کیا دیکھوں… ویسے اِس میں کچھ قصور آپ کا بھی ہے! آپ فریدی، حمید اور عمران کے علاوہ اور کسی کردار کی کہانیاں پڑھنا ہی نہیں چاہتے! کئی لوگوں نے کوشش کی مگر بات نہ بنی۔  اشتیاق احمد اپنی خود نوشت ’’میری کہانی‘‘ میں طراز ہیں ’’میں اپنی زندگی کی اِس کہانی کے آخر میں چند باتیں لکھنا پسند کروں گا۔ میری ساری زندگی لکھتے لکھاتے گزری… زندگی کی دوسری مصروفیات اور دوسرے معاملات میں میں بہت … بہت زیادہ پیچھے رہ گیا…   میں اپنے لکھنے لکھانے کے عمل میں اپنے تمام ہم عصروں کو پیچھے چھوڑتا چلا گیا، لیکن گھریلو معاملات میں سب سے پیچھے رہ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔