کتابیں 2015ء کی، جو دل میں میرے اتر گئیں

اقبال خورشید  جمعرات 31 دسمبر 2015
نثری ادب کی دو اور کتب ہمیں پسند آئیں۔ ایک تو محمد امین الدین کا افسانوی مجموعہ، آدم اور خدا، پھر مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانیاں۔

نثری ادب کی دو اور کتب ہمیں پسند آئیں۔ ایک تو محمد امین الدین کا افسانوی مجموعہ، آدم اور خدا، پھر مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانیاں۔

وہ سنہری دور تھا۔ بستر کے گرد کتابوں کا ڈھیر ہوتا۔ سونے سے قبل ”آگ کا دریا“ کے گوتم سے مکالمہ، آنکھ کھلنے پر ”اداس نسلیں“ کے نعیم سے ملاقات۔ شیلف میں بیٹھا خلیل جبران لفظوں کے دریا کو کوزے میں بند کر رہا ہوتا۔ وہیں اسد اللہ خان غالب غیب سے مضامین وصول کیا کرتے۔ ہم منٹو، عصمت، احمد ندیم قاسمی اور واجدہ تبسم کو پڑھ چکے تھے، اب قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی کتابوں میں گم تھے۔ ”راجہ گدھ“ کا چرچا تھا۔ ناول ہمیں بھی بھایا، مگر بعد میں اسے آسمان پر لے جانے کے لئے جو مابعد الطبیعیاتی زینے تعمیر کئے گئے، اُنھوں نے فقط اکتاہٹ بڑھائی۔

وہ اچھا دور تھا۔ فکر نہ فاقہ۔ نہ تو گھر کی ذمے داری، نہ ہی سماجی انتشار کی پروا۔ ہم ہوتے، کتابیں ہوتیں۔ ادیان کے مطالعے کا سودا بھی اُن ہی دنوں سمایا۔ عہد نامہ قدیم اور جدید پڑھا، رام اور کرشن جی سے ملے۔ زرتشت کے روبرو ہوئے اورگوتم بدھ کی سمت گئے، تو گم ہوئے۔

پھر گھریلو ذمے داریوں نے پیر میں زنجیر ڈال دی، معاشی مسائل کا دیو غار سے نکل آیا، سماجی انتشار کے آسیب نے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ انٹرویو نگاری کی بھول بھلیوں میں خود کو کھڑا پایا۔ ان تبدیلیوں نے مطالعے کی عادت پر اثر ڈالا، لیکن کہتے ہیں ناں، چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ مطالعہ کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔ ٹالسٹائی، ڈکنز، گورکی اور ہیمنگ وے کو پڑھا۔ کلاسیکی ادب سے آگے بڑھے، تو لاطینی ادب نے گرویدہ بنا لیا۔ مارکیز اور ہوزے سارا ماگو۔ پھر اورحان پامک۔ کیوں کہیں کہ پاپولر لٹریچر نہیں پڑھا۔ اگاتھا کرسٹی اور سڈنی شیلڈن کا اپنا ہی مزہ۔ اردو ادب نے بھی لبھایا۔ مستنصر حسین تارڑ کا ”راکھ“ بھی پڑھا، مرزا اطہر بیگ کا ”غلام باغ“ بھی۔ الغرض سلسلہ یہ جاری رہا۔

2015 کے اوائل میں ہم خاصے الجھے ہوئے تھے۔ البتہ خوش قسمت رہے، کچھ اچھی کتابیں پڑھنا نصیب ہوئیں۔ تذکرہ یہ ان ہی کتب کا ہے:

پہلے ذکر اس کا، جو اردو افسانے میں سب سے اونچے استھان پر ہے۔ یعنی زندہ کہانیاں بننے والے اسد محمد خاں۔ حیران کن حد تک گھتا ہوا اسلوب، سانس لیتے کردار، چونکا دینے والا مزاح۔ ایک ہی سطر میں طرب اور حزن یوں یک جا ہوجاتے ہیں کہ انسان متحر رہ جائے۔ ”باسودے کی مریم“، ”مئی دادا“، ”غصے کی نئی فصیل“، کیسی کیسی کہانیاں لکھیں۔ اِس برس ہم نے ان کی کتاب ”ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی“ پڑھی۔ سفر کی روداد ہے، مختلف اوقات میں لکھی تحریریں، ای میلز۔ تنوع کا ایک کتاب میں سمٹ آنا لطف دے گیا۔ اگر آپ اچھا فکشن پڑھنے کے شایق، تو یہ کتاب آپ کے لیے۔

اردو نثر نگاروں میں شاید ہی کسی کو وہ شہرت ملی ہو، جو مستنصر حسین تارڑ کے حصے میں آئی۔ شہر شہر اُن کے چاہنے والے۔ سوشل میڈیا پر ان کی کتابیں، کالم اور سرگرمیوں لاکھوں افراد کے درمیان زیر بحث رہتی ہیں۔ چاہنے والوں نے ”تکیہ تارڑ“ کے نام سے بھی ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہم ان کی مقبولیت کو ”تارڑ ازم“ کا نام دیتے ہیں۔ سفرنامہ نویسی اور ٹی وی کا حوالہ اپنی جگہ، مگر ہمارے لیے وہ خالص فکشن نگار۔ ”بہاﺅ“ ان ہی کے قلم سے نکلا، جو ہمارے دل کو بھایا۔ اس برس انھوں نے ہمیں ایک اور تحفہ دیا۔ ”15 کہانیاں“ کے عنوان سے شایع ہونے والا ان کا افسانوی مجموعہ۔ عہد حاضر کا کرب اس سے جھلکتا ہے۔ سانحہ ِ پشاور کے پس منظر میں لکھا افسانہ ”اے مرے ترکھان“ ایک شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے۔ قابل مطالعہ کتاب۔

موجودہ عہد کے ادیبوں میں جن اشخاص نے متاثر کیا، ان میں ایک نام محمد حمید شاہد کا بھی ہے۔ باکمال فکشن نگار۔ تنقید بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان کا نوویلا ”مٹی آدم کھاتی ہے“ بڑا اچھا لگا۔ افسانوں کے بھی ہم دل دادہ۔ اس برس ان کے افسانوی مجموعہ ”دہشت میں محبت“ کی صورت شہر اقتدار سے ہمیں ایک بیش قیمت تحفہ موصول ہوا۔ گیارہ افسانے۔ انتساب، سانحہ ِ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے نام۔ یہ افسانے جنگ اور بارود میں سانس لیتی زندگی کی بپتا ہیں۔ صاحبو، ہم ما بعد نو گیارہ کے عہد میں زندہ ہیں۔ ایسا عہد، جو جھلسا ہوا ہے اور اس عہد کی ترجمانی صرف وہ نسل کرسکتی ہے جو اس کے کرب سے گزر رہی ہے۔ محمد حمید شاہد بھی اس کرب سے گزرے ہوں گے کہ اس مجموعے کی کہانیاں اسی ظالم اور لایعنی عہد کی کرب ناک منظر کشی کرتی ہیں۔ ایک تلخ احساس اجاگر کرتی ہیں۔

نثری ادب کی دو اور کتب ہمیں پسند آئیں۔ ایک تو محمد امین الدین کا افسانوی مجموعہ، آدم اور خدا، پھر مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانیاں۔ امین الدین تین دھاگوں سے کہانیاں بُنتے ہیں، عصری شعور، شہری زندگی اور جدید تکنیک۔ مبشر زیدی سے تو سب ہی واقف۔ اردو کہانی میں انھوں نے نئی طرح ڈالی، گنے چنے الفاظ کی کہانی۔ اس برس سوشل میڈیا میں ان کی کتاب کا بڑا تذکرہ ہوا۔ اُن سے بڑی امیدیں ہیں۔

نان فکشن میں جس کتاب نے لبھایا، وہ تھی ڈاکٹر شاہ محمد مری کی، مستیں توکلی۔ اپنی محبوبہ سمو کے عدسے سے دنیا کو دیکھنے والے ایک منفرد شاعر پر ایک سچے محقق کی انتہائی دل کش کتاب۔ ”عشاق کے قافلے“ کے زیر عنوان ڈاکٹر صاحب نے اجلے انسانوں کے قصّے بیان کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس مالا کا یہ کتاب سب سے بیش قیمت موتی۔

چار اور کتب کا تذکرہ، جو اس برس کی تو نہیں، مگر ہم نے اس بار پڑھیں۔ دوستو فسکی کی ”کراماز وف برادران‘‘، جین آسٹن کی ”تکبر اور تعصب“، مارکیز کا ناول ”وبا کے دنوں میں محبت“ اور Paula Hawkins کی کتاب، The Girl on the Train۔ کچھ ادبی جراید بھی۔اور ہاں، وکٹر ہوگیو کے لازوال اور ضخیم ناول Les Misérables کا ”مضراب“ کے عنوان سے ہونے والا ترجمہ، جو کاوش ہے جناب باقر نقوی کی۔

یہ تھیں 2015 کی وہ کتابیں، جو آنکھوں کے رستے ہمارے دل میں اتر گئی۔ آپ کے شیلف میں اس برس کیا معجزے رونما ہوئے؟

کیا آپ کو بھی اِن کتابوں نے متاثر کیا ہے جن کے بارے میں بلاگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

iqbal khursheed

اقبال خورشید

اقبال خورشید فکشن نگار، صحافی اور کالم نویس ہیں۔ اُن کے نوویلا ”تکون کی چوتھی جہت“ کو محمد سلیم الرحمان، ڈاکٹر حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی جیسے قلم کاروں نے سراہا۔ انٹرویو نگاری اُن کااصل میدان ہے۔ کالم ”نمک کا آدمی“ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔