رینجرز معاملہ کا کوئی حل نکالیں

ایڈیٹوریل  جمعـء 1 جنوری 2016
سندھ میں رینجرزاختیارات پر تنازع کے خاتمہ کی کوششوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ فوٹو: فائل

سندھ میں رینجرزاختیارات پر تنازع کے خاتمہ کی کوششوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ فوٹو: فائل

سندھ میں رینجرزاختیارات پر تنازع کے خاتمہ کی کوششوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی ملاقات بظاہر بے نتیجہ رہی، میڈیا کی اطلاع کے مطابق فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہے، ابتدائی نتائج کے طور پر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان ملاقات میں رینجرز اختیارات سے متعلق وفاق کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن برقرار جب کہ کراچی آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

تاہم ملاقات میں رینجرز اختیارات پر دلائل اور استدلال کے دوران کسی قسم کی تلخی کا پیدا نہ ہونا خوش آیند ہے، فریقین نے بعض قانونی معاملات پر بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کراچی آپریشن اور رینجرز اختیارات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے سندھ کی صورتحال اور آپریشن کے تسلسل کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائم علی شاہ سے کہا کہ وہ کراچی آپریشن کے کپتان تھے ، ہیں اور آیندہ بھی رہیں گے، اور ساتھ ہی انھوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہدایت کی وہ کراچی جاکر اس معاملہ کا کوئی حل نکالیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی آپریشن کا فیصلہ تمام سیاسی شراکت داروں کے اتفاق رائے سے شروع کیا تھا اور اس کے ذریعے رینجرز نے آتش فشاں اور لاقانونیت کے شعلوں سے جھلستے شہر کو تباہی اور جرائم سے بچانے کے لیے جو بے مثال کارکردگی دکھائی اس سے جب کسی کو انکار نہیں تورینجرز کے اختیارات میں کمی کا تنازع پوائنٹ آف نو ریٹرن تک  ہر گز نہیں جانا چاہیے نیز کرپشن ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے نیٹ ورک میں موجود مالیاتی گٹھ جوڑ کو تہس نہس کیے بغیر سندھ میں امن قائم کرنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہونگی۔

یہ وسیع تر معنوں میں کراچی کی بقا کی جنگ ہے جب کہ کامیابی کا سہرا وزیراعلیٰ سندھ کی حکومتی ٹیم ہی کے سر جاتا ہے۔ مصروف عمل رینجرز وفاق کے زیر انتظام ہے لیکن اسے کراچی میں تعیناتی کا آئینی اختیار اسی سندھ حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے کامیابی سے استعمال کیا ہے تو اب کیا مشکل درپیش ہے کہ اختیارات کا تنازعہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ سیاست اور جرم کو الگ کرنا ناگزیر ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے لیے رینجرز کو بعض سیاسی مصلحتوں کے تحت ناگزیر اختیارات سے محروم کرنا ایسا ہی اندوہ ناک اقدام ہوگا جیسے دوران جنگ فائٹنگ حکمت عملی میں اچانک تبدیلی لائی جائے، ظاہر ہے اس کے پورے آپریشن پر منفی اثرات مرتب ہونگے جس کا فوری ادراک فریقین کو کرنا چاہیے۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور صورتحال کی بہتری کے لیے آئینی پوزیشن پر رہتے ہوئے حل کی جلد کوئی صورت نکالی جائے۔ ملاقاتوں اور اجلاسوں کو پنگ پانگ کھیل یا شٹل ڈپلومیسی میں ضایع کرنا سود مند نہیں ہوگا۔ نہ کوئی اس مقولہ پر کاربند ہو کہ ’’اگر کسی کو قائل نہیں کرسکتے تو اسے کنفیوزکر دو‘‘۔ وزیراعلیٰ کے نزدیک وفاقی مداخلت اگر صوبائی خود مختاری کے خلاف ہے تو اس مسئلہ پر بھی حکمت و تدبر سے مفاہمت ہونی چاہیے۔

وفاق مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرے ۔ سندھ میں کرپشن، دہشتگردی ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اسٹریٹ کرائم اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے خلاف آپریشن سے کسی کو انکار نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بجا کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان قومی ایجنڈا ہے اس پر سیاست نہ کی جائے۔ کراچی کے بہتری کی جانب رواں دواں حالات دو طرفہ قانونی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔