نئے سال کا اکلوتا کارڈ

انتظار حسین  جمعـء 1 جنوری 2016
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

’’بیسٹ وشز فار دی نیو ایئر‘‘ نئے سال کی مبارکباد۔ از کجا می آید ایں آواز دوست۔ منجانب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ امینہ سید مینجنگ ڈائریکٹر۔

کارڈ کو جلدی سے آنکھوں سے لگایا۔ نئے سال کی مبارک باد کا اکلوتا کارڈ۔ ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا جب کرسمس کی گہما گہمی کے بیچ ہی سے نئے سال کی مبارک باد کے کارڈ موصول ہونے شروع ہو جاتے تھے۔ یاران عزیز کی طرف سے۔ اپنے ناشرین کی طرف سے‘ علمی ’تہذیبی اداروں کی طرف سے‘ کسی کسی اخبار کی طرف سے‘ اکا دکا سرکاری ادارے کی طرف سے۔ مگر جب کرسمس پر اوس پڑی تو پھر نئے سال کی مبارک بادیوں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑتا چلا گیا۔ غنیمت ہے کہ ایک ادارہ اس وضعداری کو نبھا رہا ہے کم از کم ہماری حد تک یہی ایک ادارہ اپنی وضع پر قائم ہے۔ ہمارے حساب سے یہی بہت ہے ع

دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

مال روڈ کے کتنے ریستوراں اب بند ہو چکے ہیں جو باقی رہ گئے تھے انھوں نے ہوا کا رخ دیکھا اور نئے سال کے چراغاں سے توبہ کر لی۔ ہاں نوجوانوں کے اس غول نے ہوا کے رخ کو نہیں پہنچانا اور نئے سال کی شب آئی اور وہ نکل پڑے۔ لیجیے اسکوٹروں کی ریس شروع ہو گئی۔ تب ایک لٹھ بردار گروہ چلاتا ہوا نمودار ہوا کہ یہ نیو ایئر ہمارا نہیں ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے۔ لیجیے سر پھٹول شروع ہو گئی۔

ارے نیک بختو‘ پھر تمہارا کونسا برس ہے۔ ہجری سن۔ اسے تو تم کب کا فراموش کر چکے۔ اب ایک رمضان کا مہینہ۔ باقی چنیدہ دن۔ عید‘ بقر عید‘ شب برات۔ اور ہاں ماہ محرم۔ باقی سارا سال عیسوی سن کے سہارے بسر ہوتا ہے۔ ہاں ایک دیسی کیلنڈر بھی تو تھا۔ بکرمی کیلنڈر۔ وہ تو ساون بھادوں کے زور سے اپنے آپ کو منواتا ہے۔ باقی کسان کاشتکار جانیں۔

تو جب عیسوی کیلنڈر ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ تو خوشی اور غمی بھی تو ہم اس کے سہارے منائیں گے۔ مگر کون سنتا ہے۔ تعصب بہرا ہوتا ہے۔ سوچا تو تھا کہ ہم اپنے ہجری سال کا پہلا دن کیوں نہ منائیں۔ یکم محرم۔ صدیوں سے جسے یوم غم کا مرتبہ حاصل ہو‘ وہ بھلا یوم تہنیت کیسے بن جائے گا۔ تو یہ کارڈ نہیں چلا۔

عجب وے لوگ ہیں کہ بڑوں کو تو کیا بچوں کو بھی خوش ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ بچے ایک شب برات ہی کی چکا چوند میں زیادہ خوش ہوتے تھے۔ انھوں نے ان بچوں کے ہاتھوں سے پھلجھڑی چھین لی۔ دھماکے والے پٹاخوں کے خلاف تو ان کا استدلال یہ تھا کہ اس کھیل میں جانوں کا زیاں ہے۔ مان لیا۔ مگر پھلجھڑی‘ مہتابی‘ انار‘ ناشپال‘ سرّی‘ ٹونٹا‘ ایسی چھوٹی چھوٹی آتش بازی۔ وہ تو چٹ پٹ کا کھیل تھا۔ رنگا رنگ مہتابی اور پھلجھڑی اس میں کونسا لہو و لعب ہے اور کہاں جانوں کا زیاں ہے۔ مگر حکومتیں اس طبقہ کے سامنے کس طرح جھکتی ہیں۔ جیسے ان کا کہا آیت حدیث ہے۔ پھر پولیس ان سے بڑھ کر کام دکھاتی ہے۔ تیوہار دوسروں کے ہوں یا خود اپنے ہوں انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کسی سے کفر کی بو آنے لگتی ہے۔ کسی میں بدعت کا رنگ نظر آ جاتا ہے۔

خیر ذکر سال کے نئے دن کا تھا۔ نیو ایئرز ڈے۔ مگر لیجیے وہ دن تو آن پہنچا۔ یہ دن کیسا گزرے گا۔ وہ بھی پتہ چل جائے گا۔ سال کے نئے دن نے آنے سے پہلے زمانے نے ایک اور رنگ دکھایا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے جی میں عجب سمائی کہ کابل سے دلی جاتے جاتے اچانک بلکہ کہئے کہ اچانک پاکستان میں اتر پڑے کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے گلے مل لیا جائے۔ واہ کیا خوب نیا گل کھلا ہے؎

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

یاروں نے اس سے نتیجہ نکالا کہ یہ آنے والے برس کے لیے نیک شگن ہے بلکہ ایک پیشین گوئی بھی کر ڈالی مگر تھوڑے سے شک کے ساتھ؎

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ یہ جنوبی ایشیا کی دھرتی‘ اس کا باوا آدم نرالا ہے۔ گھڑی میں رن میں گھڑی میں بن میں۔ ہم نے اسی شہر میں وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ 47ء کے خون خرابے کو ایسے کونسے برس گزرے تھے کہ بیچ ہندوستان اور پاکستان کے ایک میچ آن پڑا۔ کرکٹ کا یا ہاکی کا۔ ان دنوں راجہ غضنفر علی خاں ہندوستان میں پاکستان کے سفیر کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ میچ میں ہندوستان کے شوقینوں کا ذوق و شوق دیکھ کر انھوں نے اعلان کر ڈالا کہ پاکستان کے دروازے کھلے ہیں۔ کہاں کا پرمٹ‘ کیسا ویزا۔

جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

لیجیے ادھر سے آمد شروع ہو گئی۔ آمد سی آمد۔ یار قطار اندر قطار چلے آ رہے ہیں اور بچھڑے ہوئے یاروں سے گلے مل رہے ہیں۔ بس وہ منظر تھا کہ ع

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

بلکہ ایک تقریب میں مولانا صلاح الدین احمد نے اس مصرعہ کے ساتھ مہمانوں کو خوش آمدید کہا تھا۔

مگر اس دھرتی پر موسم کو بدلتے دیر تھوڑا ہی لگتی ہے۔ آخر یہ ساون بھادوں کی دھرتی ہے۔ کتنی جلدی 65 ء کی جنگ آن کھڑی ہوئی۔ پھر کیا تھا۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ پان ان دنوں ہندوستان سے آتے تھے۔ یاروں نے پان کھانا چھوڑ دیا۔ نہیں کھائیں گے ہم بنارسی پان۔ اٹھا لوں پاندان اپنا۔ پنواڑی انھی دکانوں پہ رکھے ہوئے ٹرانسسٹروں کی سوئی گھما کر لاہور پر لے آئے۔ نہیں سنیں گے ہم لتا منگیشکر کا گانا۔ اور واقعی دو ہفتوں تک کسی پنواڑی کی دکان سے کسی تھڑے سے لتا کی آواز سنائی نہیں دی۔ پھر سیز فائر۔ توپیں خاموش ہو گئیں۔ لتا کی آواز واپس آ گئی۔

تب سے اب تک کتنے موسم آئے‘ کتنے موسم بیت گئے۔ جنگیں بھی ہوئیں۔ میل ملاپ کی باتیں بھی ہوئیں لیکن

دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

کتنے خاندان فسادات کی آندھی میں بٹ گئے تھے۔ پھر ان کے دلدر تو دور نہ ہوئے‘ نہ جنگ کے زمانے میں نہ امن کے زمانے میں۔ اس موسم کے بچھڑے پھر کسی موسم میں نہیں مل سکے۔ یہ جو موسم اب چڑھا ہے اسے بھی دیکھ لیں گے۔ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ تیل دیکھو تیل کی دھار۔ شاعر کیا کہتا ہے۔ وہ بھی سنو۔ اصغر ندیم سید کی نظم 14 اگست کے مسافر ؎

مسافر ساٹھ برسوں کے ابھی تک گھر نہیں پہنچے
کہیں پر بھی نہیں پہنچے
کہ صبح نیم وعدہ میں دھندلکا ہی دھندلکا ہے
کہ شام درد فطرت میں کہیں پر ایک رستہ ہے
نہیں معلوم وہ کس سمت کو جا کر نکلتا ہے
مسافر ساٹھ برسوں کے بہت حیران بیٹھے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔