کیوبا، ایک زندہ انقلاب…

مشتاق علی شان  جمعـء 1 جنوری 2016

یکم جنوری 1959ء کو فیڈل کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میںکیوبا میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ اپنے طرز کا ایک ایسا انوکھا انقلاب تھا جس نے قومی جمہوری انقلابی تحریکوں کی سمت کا درست تعین کرتے ہوئے، اشتراکیت کی جانب پیشرفت کی۔ یہ قومی جمہوری انقلاب ایک ایسے سوشلسٹ انقلاب کے قالب میں ڈھل گیا جس نے اپنی تقدیر خود بنائی اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دھائی میں بھی زندہ وپایندہ ہے۔

گزشتہ صدی کی نویں دھائی میں عالمی کمیونسٹ تحریک کے بحران کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس نے نہ صرف بڑے بڑے سوشلسٹ قلعوں میں شگاف ڈال دیے بلکہ اس کے بعد قومی آزادی کے حامل سوشلسٹ رخ رکھنے والے ممالک میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

اس تناظر میں اگرکیوبا کا انقلاب سلامت ہے اور اشتراکیت سے اشتمالیت کی جانب پیشرفت کر رہا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ یہاں کے انقلابی قائدین نے مارکس ازم، لینن ازم کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے اپنے خطوں کے معروضی حالات کیمطابق اس کا تخلیقی اطلاق کیا ہے، نہ کہ کوئی میکانیکی عمل۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں ہے کہ باقی جگہوں پر سوشلزم کا اطلاق کوئی میکانیکی عمل تھا، البتہ اس کے قیام کے بعد جو طریقہ ہائے کار اور لائحہ عمل اختیار کیے گئے یہ ان کے معروضی حالات سے مطابقت اور افادیت کا سوال ہے۔

آج اگر کیوبا یا پھر کوریا میں سوشلسٹ نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو اس کی وجہ انقلابی کیڈرز کی تعمیر کا وہ عمل ہے جو انقلاب کے آغاز سے مسلسل جاری ہے اور انھوں نے خود تنقیدی اور اجتماعی تنقید کا راستہ اختیارکرتے ہوئے سابقہ سوشلسٹ ممالک کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سوشلزم کے قیام کا مقصد محض ایک نئے سماج کی تخلیق کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ناگزیر فریضہ ایک نئے انسان، یعنی سوشلسٹ انسان کی تخلیق بھی ہے، جس کے بغیر اس کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اس تناظر میں اگر ہم ان انقلابات کا جائزہ لیں توکیوبا اورکوریا وہ ممالک ہیں جہاں نئے سماج کے قیام کے بعد نئے انسان کی تخلیق کا انقلابی فریضہ بخوبی سرانجام دیا گیا ہے اور آج یہ نیا سوشلسٹ انسان انقلابی مادر وطن کی تعمیر وترقی میں مصروف ہے۔ کوریا ہو یا کیوبا ان انقلابات کے بچ جانے کی وجہ ہی یہی ہے کہ یہاں سوشلسٹ عوام مکمل طور پر سیاسی عمل کا حصہ ہیں اور انھیں سوشلسٹ حاصلات کا بخوبی فہم و ادراک ہے۔

کیوبا کا انقلاب اپنے پہلے دن سے ہی عالمی سامراج کے سرخیل ’’ یانکی سامراج‘‘ کے حملوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی زد پر ہے اور اس انقلاب نے آئزن ہاورسے لے کر جان ایف کینڈی، لنڈن بی جانسن، رچرڈ نکسن، جیرڈ فورڈ، جمی کارٹر، رونالڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور بش جونئیر سے پنجہ آزمائی کی ہے اور اب بارک اوباما کے نئے داؤ پیچ کے مقابل ہے۔ وہ بے آف پگز پر CIA کے جلو میں کیوبن بھگوڑوں کے حملے ہوں یا میزائل بحران کے ایام ہوں، وہ فیڈل کاسترو پر سیکڑوں قاتلانہ حملے ہوں یا کیوبن طیاروں کے اغوا کی وارادتوں سے لے کر سخت قسم کی تجارتی معاشی پابندیاں اور ناکہ بندیاں ہوں، کیوبا کا انقلاب ہرکڑے امتحان پر پورا اترا ہے۔

اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے’’سرد جنگ‘‘ سے لے کر ’’گرم جنگ‘‘ تک کون سے حربے اور نسخے ہیں جو استعمال نہیں کیے گئے، لیکن سب میں اسے ذلت، ناکامی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کیونکہ اس انقلاب کے پیچھے لافانی عوام کی ناقابل شکست قوت ہے۔ کیوبا نے صرف اپنے انقلاب کی قیمت ہی نہیں ادا کی ہے بلکہ اس کے 57 سال اس امر کے گواہ ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی ضرورت پڑی ہے اس نے اپنا بین الاقوامی فریضہ ادا کیا ہے۔

انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے کے سلسلے میں بھی کیوبا دنیا بھر میں معروف ہے۔ 1970ء میں جب لاطینی امریکا کے ملک پیرو میں تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا تو وہاں کی حکومت سے شدید سیاسی اختلافات کے باوجود کیوبا نے ڈاکٹرز، نرسوں اور دیگر میڈیکل اسٹاف پر مشتمل ٹیم روانہ کی۔ کیوبا کی انقلابی حکومت نے دنیا بھر میں ناگہانی آفات کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہزاروں ڈاکٹرز، نرسز، دیگر میڈیکل اسٹاف اور اساتذہ پر مشتمل خصوصی دستے قائم کیے، جو آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نظام صحت کو فعال بنا رہے ہیں۔

اکتوبر 2005ء کو پاکستان میں آنیوالے بدترین زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کیوبا کے 2558 ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے نے مسلسل 8 ماہ تک کشمیر اور پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں مصیبت زدہ عوام کو طبی امداد فراہم کی۔ 2005ء سے کیوبا کے ڈاکٹرز بولیویا میں ہر سال پچاس ہزار نادار افراد کی آنکھوں کا مفت آپریشن کرتے ہیں۔ کیوبا نے دنیا بھر میں ایڈز اور دیگر موذی امراض کے خلاف غریب اقوام کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کو بھی ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، جب کہ اس وقت صرف افریقہ میں اس کے تین ہزار ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

کیوبا کی تاریخ میں پہلی بار انقلابی حکومت نے دور دراز کے دیہاتوں میں کلینک اور اسپتال قائم کر کے وہاں نہ صرف علاج کی سہولیات فراہم کیں بلکہ انھیں پہلی مرتبہ ان سے روشناس بھی کرایا۔ خود ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ نے کیوبا کے نظامِ صحت کو دنیا بھر کے لیے ایک بہترین مثال قرار دیا ہے اور اس کے مطابق کیوبا میں ڈاکٹر اور مریض کا تناسب 1/170 ( 170 افراد کے لیے 1 ڈاکٹر) ہے جب کہ امریکا میں یہ تناسب 1/188 (188 افراد دکے لیے 1 ڈاکٹر) ہے۔کیوبا دنیاکا واحد ملک ہے، جس کا بجٹ خسارے میں نہیں ہوتا اور اس نے 97% خواندگی کی شرح تک رسائی حاصل کرلی ہے، جو یورپ کے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے برابر ہے۔

کیوبا کے انقلاب نے آٹھ لاکھ ایسے دانشوروں کو جنم دیا جن کا تعلق سماج کے انتہائی کم مراعات یافتہ طبقے سے تھا، جنھوں نے کیوبا میں تعلیم کی انقلابی کایا پلٹ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت کیوبا بھر میں 958 یونیورسٹیاں اور 169 میونسپل کیمپس ہیں۔ گنے کے سابقہ کھیتوں میں 84 یونیورسٹیاں ہیں اور دنیا میں اپنے طرز کی انوکھی ترین 18 یونیورسٹیاں مختلف جیلوں میں قائم کی گئی ہیں۔ 169 یونیورسٹیوں میں صحت کی تعلیم دی جاتی ہیں جب کہ اس مقصد کے لیے 1352 پولی کلینک، ہیلتھ یونٹ اور بلڈ بینک ہیں۔ اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے لیے کیوبا کے پاس ایک لاکھ کے قریب اساتذہ ہیں، ان میں اکثریت سابقہ بیورو کریٹس کی ہے۔

کیوبا میں صرف ایک سیاسی جماعت ہے جو ’’کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا‘‘ کے نام سے معروف ہے جوکاسترو کے اس قول کی مظہر ہے کہ ’’انسانیت جتنی زیادہ مہذب ہوگی اتنا ہی وہ وحدت پر انحصار و اصرار کرے گی۔‘‘آج جب دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام پے درپے بحرانات کا شکار ہو کر مرض الموت میں مبتلا ہے اور خود امریکا کے 23 فیصد عوام اپنے مسائل کا حل سوشلزم کو سمجھتے ہیں، ایسے میں سوشلسٹ کیوبا ایک مینارۂ نور ہے، وہ نہ صرف لاطینی امریکا بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کی امیدوں کا مرکز و محور ہے، جو انھیں مارکس ازم، لینن ازم کی مشعل تھامے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام پر ابھار رہا ہے اور انھیں مزید تقویت دے رہا ہے۔

سوشلسٹ کیوبا اکیسویں صدی میں انقلاب کی سب سے بڑی علامت اور اس عہد کا سب سے بڑا سچ ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں جھٹلا سکتی۔ کامریڈ فیڈل کاسترو کے الفاظ میں ’’ہم امریکی عوام کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی کیوبائی عوام کی تعلیم وتربیت جنونی شاؤنسٹوں کے طور پر ہوئی ہے بلکہ ان کی تربیت درست اور مناسب آدرشوں سے ہوئی ہے، اگر ہم سچے نہیں ہوتے تو ایک دن بھی زندہ نہیں رہ پاتے۔ آپ ایک انقلاب کو اپنے آدرشوں کے بل بوتے پر ہی قائم و دائم رکھ سکتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔