دونوں اکٹھے رہنا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 2 جنوری 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم مودی کابل سے لاہور آئے۔ جاتی امراء میں میاں نواز شریف کی نواسی کی مہندی کی تقریب سے قبل میاں صاحب سے مذاکرات کیے۔ ان کی والدہ کے پاؤں چھوئے اور 25 دسمبر کا دن پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے روشن کر گئے۔

وزیر اعظم مودی اور میاں نواز شریف نے غیر رسمی بات چیت کی۔ خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ملاقات میں موجود نہیں تھے مگر اس ملاقات کے خوشگوار ا ثرات برآمد ہوئے۔ گزشتہ سال سے معطل جامع مذاکرات شروع ہونے کی تاریخ کا اعلان ہوا۔ اب دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ملیں گے، یوں دونوں ممالک کے سرد تعلقات ختم ہونے اور زندگی کے بیشتر شعبوں میں رابطوں کا آغاز ہو گا۔ اس دورے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کابل گئے۔

اب دونوں ممالک کے ملٹری آپریشن کے جنرلوں کے درمیان ایسی ہی ہاٹ لائن قائم ہو گئی جیسی پاکستان اور بھارت کے جنرلوں کے درمیان تھی۔2013ء پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سال تھا۔ اس سال کے شروع ہوتے ہی کنٹرول لائن پر فائرنگ شروع ہو گئی۔ فائرنگ کا سلسلہ کشمیر کی سرحد سے سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری تک پھیل گیا۔ دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے درمیان سخت الفاظ پر مشتمل دستاویزات کا تبادلہ ہونے لگا۔ ٹی وی چینلز نے سرحد کے دونوں طرف دونوں ممالک کی فوج کی گولہ باری سے ہونے والی جانی اور مالیاتی نقصانات کے مناظر پیش کرنے شروع کر دیے۔ اس ماحول میں ملک میں انتخابات ہوئے۔

مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران بھارت سے دوستی کے بارے میں اپنا واضح مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے بھارتی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ دیگر سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، اے این پی، نیشنل پارٹی اور حتیٰ کہ تحریکِ انصاف نے بھی اپنے اپنے منشور میں بھارت سے پرامن تعلقات کی اہمیت کو شامل کیا۔

عوام نے میاں نواز شریف کے مؤقف کی تجدید کی۔ پھر بھارت میں انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور نریندر مودی قائدِ ایوان منتخب ہوئے اور انھیں بھارتی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے حلف برداری کی تقریب میں میاں صاحب کو مدعو کر  لیا۔ میاں صاحب نئی دہلی گئے اور تقریب میں شرکت کی۔

دونوں ممالک کی نئی حکومتوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے حقیقی اقدامات کے بارے میں امید پیدا ہوئی، مگر بی  جے پی میں موجود ہندو انتہا پسندوں نے پاکستان دشمنی کا ایجنڈا اٹھا لیا۔ کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات کی آڑ لے کر جامع مذاکرات کو ملتوی کرا دیا گیا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ مشہور غزل گائیک غلام علی  کے پروگراموں کو منسوخ کرنے کے لیے دھمکیاں دی گئیں۔ اسی طرح دہلی کے مضافاتی علاقے گڑ گاؤں میں پاکستانی فنکاروں کے ڈرامے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوئی، بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مہم شروع ہو گئی۔

میاں نواز شریف اور نریندر مودی امن کے ایجنڈا پر مذاکرات کر کے اس خطے کو استحکام دے سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں سیالکوٹ سمیت 14 راہداریاں تجارت کے لیے کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ راہداریاں کشمیر میں کارگل، اسکردو سے میر پور کوٹلی تک ہونگی۔ ان راہداریوں سے کشمیر کے دونوں طرف بسے ہوئے خاندانوں کو آسانی سے ملنے اور کشمیر کے دونوں حصوں میں دو طرفہ تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔ پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان 2004ء میں مذاکرات کے بعد دونوں حصوں میں مسافروں کے لیے بس سروس اور تجارتی ٹرک چلانے پر اتفاق ہوا تھا، یوں بہت سے تقسیم شدہ کشمیری ایک دوسرے سے ملتے تھے اور تجارت سے علاقے میں غربت کے خاتمے میں مدد ملی تھی۔

اب اگر جامع مذاکرات میں اس تجویز پر عملدرآمد ہو سکتا ہے تو کشمیر میں خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔ وادئ نیلم سے تعلق رکنے والے سینئر صحافی ناصر محمود اس تجویز کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے وادئ نیلم امن کی وادی میں تبدیل ہو جائے گی جس سے متصل آبادی کے لیے سیکیورٹی کی صورتحال بہتری ہو گی اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

پھر اس طرح کی راہداریاں سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں قائم ہونی چاہئیں۔ بعض صحافیوں نے وزیر اعظم مودی کے دورے کی اہمیت کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ یہ نجی دورہ تھا اور وہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سخت تقاریر کر کے آئے تھے۔ جماعت اسلامی نے اس ملاقات کی مذمت کی اور کہا کہ مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔

یہ صحافی اور سیاستدان اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ پڑوسیوں کے درمیان مذاکرات، رہنماؤں کے دورے ہی صورتحال کو معمول پر لا سکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر نے اس لیے کی تھی کہ پاکستان سے دوستی ہو گی اور تجارتی روابط قائم ہونگے، بھارت میں پرامن ماحول ہو گا اور پاکستان سے تجارت کے نئے راستے کھلیں گے۔ ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی نے بھارت کی ریاست گجرات جہاں سے نریندر مودی کا تعلق ہے کے کسانوں کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی۔ گجرات کے کسانوں کا تعلق پٹیل برادری سے ہے۔ پٹیل برادری آج کل اپنے کوٹے کے لیے مہم چلا رہی ہے مگر کسان خوشحال ہیں۔

اس علاقے میں اعلیٰ معیار کا کیلا پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سے روزانہ 2 ہزار کلو کیلا پاکستان برآمد ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو پٹیل برادری کی جدوجہد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ گجرات سے مشرقی پنجاب اور پھر اٹاری کے ذریعے کیلے کی تجارت میں زیادہ وقت لگتا ہے اور قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اگر گجرات سے متصل راجھستان کی تھرپارکر سے ملنے والی سرحد سے تجارت شروع ہو جائے تو ان کی خوشحالی کا دائرہ بڑھ جائے گا۔  وہ شدت سے پاکستان اور بھارت کی دوستی کے خواہاں تھے۔ پاکستان میں سیمنٹ کی صنعت ترقی پا رہی ہے۔ بھارت میں نئے ترقیاتی منصوبے مسلسل شروع ہو رہے ہیں۔

نئی دہلی سے ممبئی تک اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع ہونے والا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی سیمنٹ کی بڑی کھپت کے امکانات ہیں۔  پاکستانی کاٹن کی مصنوعات کی کھپت کے خاصے امکانات ہیں۔ وزیر اعظم مودی کابل گئے اور انھوں نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ یہ عمارت بھارتی حکومت کی امداد سے تعمیر ہوئی ہے۔ بھارت افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان راستہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ بھارت اور افغانستان کو لنڈی کوتل سے واہگہ تک راہداری کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں ممالک اس راہداری کو مال برداری کے لیے استعمال کریں گے، پاکستان کو ٹول ٹیکس ملے گا۔ اس آمدنی سے مستقبل میں ایک نئی موٹروے تعمیر کی جا سکتی  ہے۔

جب پشتون  تجارتی روابط میں منسلک ہونگے تو سرحد کے اطراف غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ افغانستان کو پاکستان کی اس شکایت کا ازالہ کرنا پڑے گا کہ ملا فضل اﷲ جیسے دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں اور پاکستان کی مقتدرہ کو طالبان کی کمین گاہوں کے بارے میں افغانستان کے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہو گا۔ افغانستان، ترکمانستان، بھار ت اور پاکستان گیس کی نئی پائپ لائن کی تعمیر کے منصوبے پر متفق ہوئے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت ترکمانستان کے دارالحکومت سے تاپی  پائپ لائن افغانستان اور پاکستان سے گزرتی ہوئی بھارت جائے گی۔ اس منصوبے سے پاکستان کو گیس اور اس کی رائلٹی ملے گی۔ یہ منصوبہ اس وقت مکمل ہو سکتا ہے جب پاکستان، افغانستان اور بھارت کے تعلقات معمول کے مطابق ہوں اور یہ سب کچھ مسلسل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ امور جامع مذاکرات شروع کریں گے تو ایک بھاری ایجنڈا ان کا منتظر ہو گا۔

سینئر صحافی امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ اس ایجنڈے میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ اس بات چیت کی بنیاد سابق صدر پرویز مشرف کی اس مسئلے کے حل کے لیے چھ تجاویز ہیں۔ سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ ان تجاویز پر متفق تھے۔ اس وقت کی فوجی قیادت نے ان تجاویز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی  کتاب میں لکھا ہے کہ صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کشمیر کے مستقل حل پر متفق ہو چکے تھے کہ پاکستان میں چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک کی بناء پر معاملات بگڑ گئے۔

اب چین نے بھی اس مسئلے کے حل کے لیے ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان طرز معاہدے کی تجویز دی ہے۔ بھارتی صحافی جاوید نقوی دہلی سے لکھتے ہیں کہ ہندو انتہاپسند اس ملاقات سے خوش نہیں ہیں مگر جاوید نقوی 60ء کی دھائی میں امریکا اور سوویت یونین کی کشیدگی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی صدر کینیڈی اور روسی وزیر اعظم خروشیف نے اس کشیدہ صورتحال کے باوجود ہاٹ لائن پر رابطے کو منقطع نہیں کیا تھا۔ اب سرد جنگ کو ختم ہوئے برسوں بیت گئے۔ نائن الیون کے بعد  انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا، اب مسائل کا حل جنگ نہیں رہا۔ اس صورت میں مودی کا دورہ دنیا بھر کے عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ میاں صاحب کی والدہ کی نصیحت سب کے مفاد میں ہے کہ دونوں اکٹھے رہنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔