20 کروڑ آنکھیں 20 کروڑ عینکیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 2 جنوری 2016

کہتے ہیں ہم بت شکن تھے مگر اب ہم روایت شکن بن گئے ہیں ۔دنیا بھر کے لوگ زندگی کے تمام معاملات، حالات و واقعات کو اپنی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات، حالات وواقعات کو اپنے مفادات کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں، یعنی ہماری 20 کروڑ آنکھیں ہیں تو 20کروڑ مفادات کی عینکیں بھی ہیں۔

ہر شخص عینک لگا کراپنے فائدے اپنے مفاد اپنی خواہشات کے عین مطابق دیکھ رہا ہے اورصرف وہ ہی کچھ دیکھ رہا ہے جسے اسے دیکھنے کی خواہش اورچاہت ہے اور جس میں صرف اسی کا فائدہ ہے ہر شخص نہ صرف دوسرے کو جھٹلا رہا ہے بلکہ اسے اندھا ثابت کرنے میں بھی مصروف ہے یعنی ملک میں صرف ایک ہی شخص آنکھوں والا ہے اور باقی 19کروڑ 99 ہزار 900 سو 99 سب اندھے ہیں۔ چاروں طرف بس رسہ کشی ، کھینچا تانی،عدم برداشت کی حکمرانی ہے سب کے سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔

بالکل قیامت کی سی نفسا نفسی کا عالم ہے ہر شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے ہر شخص دوسرے کا برا سوچ رہا ہے اور چاہ رہا ہے اگر ان کا بس اور داؤ چل جائے توملک میں آدمی نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے صرف عمارات، سڑکیں، پل، دریا، سمندر، دکانیں،گاڑیاں،جانور اور پرندے باقی ہوں ۔ انسان صرف وہی کچھ ہے جو وہ سوچتا ہے یاد رہے ہم سب اپنی سوچوں میں جرائم پیشہ بن گئے ہیں۔ ہم لوگ ایک نہیں بلکہ کئی ہزار منفی سوچیں اپنائے ہوئے ہیں۔اب ہم صرف منفی سوچوں کے قیدی بن کے رہ گئے ہیں۔ سیموئیل جانسن نے کہا تھا کہ ’’عام طور پر یہ زنجیریں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ انھیں محسوس نہیں کیاجاسکتا لیکن جب انھیں توڑنے کا ارادہ کیا جائے تو وہ بہت مضبوط معلوم ہوتی ہیں۔‘‘

آئیں مل کر پاکستان میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ آج کل کیا کچھ ہورہا ہے سب سے پہلے حکمرانوں کی بات کرتے ہیں، انھیں اپنی مفادات کی عینک سے ہر طرف چین ہی چین نظر آرہا ہے ہر شخص خوشحال،آزاد اور بااختیار بنا اتراتا ہوا پھر رہا ہے لوگ دامن نہیں بلکہ کمبل اٹھا اٹھا کر انھیں دعائیں دے رہے ہیں اور ان کے درازاقتدارکے لیے سر بسجود ہیں صرف دو چار شر پسند شر انگیزی کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن لوگ ہیں جو ان کی ہر ہر سازش کو ناکام بناتے چلے آرہے ہیں، اب تو لوگوں کو ان کا ملک میں وجود ہی ناگوار لگنے لگا ہے۔

کرپشن، لوٹ مار،اقربا پروری کے جیسے الفاظ کو لوگ تقریباً بھول ہی چکے ہیں ۔ہماری دعاہے خدا ان کی عینکوں کو سلامت رکھے۔ آئیں ! اب سیاسی پارٹیوں کا جائزہ لیتے ہیں وہاں بڑا ہی مزیدار شغل میلہ لگا ہوا ہے ان میں شامل سب کے سب امید سے ہیں کہ وہ جلد بلکہ بہت ہی جلد اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اپنے برے دنوںکو کوس رہے ہونگے۔ ان جماعتوں میں لوگوں کا روزآناجانا لگا ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔

ہو یہ رہا ہے کہ 20 کروڑ میں سے ایک صاحب ایک روز صبح اٹھ کر مفاد کی عینک لگا کر ہنگامی پریس کانفر نس بلواتے ہیں اور اس میں انکشاف کرتے ہیں کہ کل رات ایک قومی سیاستدان ان کے خواب میں آئے تھے اور وہ انھیں اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے تھے کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے آپ کا تحریک انصاف میں شامل ہونا ضروری ہے۔

اس لیے میں آج ملک میں تبدیلی لانے کے لیے اس پارٹی میں شامل ہو رہا ہوں اور تبدیلی لانے کے لیے میں دن رات ایک کردوں گا اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کروںگا شمولیت کے اعلان کے بعد جب ان صاحب کا پارٹی میں آناجانا شروع ہوجاتا ہے تووہ یہ دیکھ کر سکتے میں آجاتے ہیں کہ پارٹی کا حال ریل گاڑی کے اس ڈبے کی طرح ہوا ہے کہ جس میں گنجائش سے کئی گنا لوگ سوار ہیں وہ صاحب کسی نہ کسی طرح سے تو ڈبے میں گھس جاتے ہیں لیکن بیٹھنے کی جگہ تو دورکی بات ہے ان کے لیے تو کھڑا ہونا ہی دشوار ہوجاتا ہے اور پھر لوگوں کے دھکے کوہنیاں کھا کھا کر ان کا بھرکس نکل جاتاہے اس ساری کھینچا تانی میں ان کی مفاد کی عینک چکناچور ہوجاتی ہے اوروہ صاحب کسی نہ کسی طریقے سے اگلے اسٹیشن پر ڈبے سے اترنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ جان بچی لاکھوں پائے گھرکی طرف چل دیتے ہیں ۔

اور اگلے روز صبح اٹھتے ہی دوبارہ ہنگامی پریس کانفر نس بلواتے ہیں اور یہ انکشاف کرتے ہیں کہ پچھلے دنوں پریس کانفر نس میں، میں نے اپنے خواب میں جن سیاستدان کے آنے کا جو ذکر کیا تھا اصل میں اندھیرے اور روشنی کم ہونے کی بنا پر مجھے پہچانے میں غلطی ہوگئی تھی جس کی معافی چاہتاہوں دراصل میرے خواب میں وہ سیاستدان نہیں بلکہ قائداعظم آئے تھے اور وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں جا۔لہذا میں ان کے ارشاد کا احترام کرتے ہوئے آج مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کررہاہوں اور میں قائداعظم کے مشن کو اپنی جان پر کھیل کر بھی پورا کروں گا۔ اب جب بھی مسلم لیگ (ن) اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوگی تو انشاء اللہ وہ صاحب اگلے ہی روز اپنی عینک لگا کر ایک اور پریس کانفر نس میں اپنے خواب میں بھٹو صاحب کے آنے کا ذکر کررہے ہونگے ۔ اور بھٹو صاحب کی فرمائش کا بھی اعلان کررہے ہوں گے۔

اب بات کرتے ہیں علماء اور ملاؤں کی ان پر جتنی بھی باتیں کی جائیں کم ہیں لیکن فتوی کے ڈر سے آپ سے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ آپ پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی جو تمام اخبارات میں چھپی ہے پہلی ہی فرصت میں پڑھ لیں۔ آگے آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار اور ہوشیار ہیں۔

اب رہی بات بیوروکریسی، بزنس مین ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی تو ان کا حال نہ جاننے میں ہی عافیت ہے، جس کا جہاں داؤ چل رہا ہے وہ دوسروں کو زخمی کر رہا ہے مفاد پرستی کی جتنی بھی اقسام دنیا میں پائی جاتی ہے، سب کی سب ان میں بھی پائی جاتی ہیں یہ سب حضرات سوتے میں بھی مفادکی عینک اتارنا نہیں بھولتے، آج کل ہم سب اورکچھ بھی نہیں کررہے ہیں بس اپنے فائدے اپنے مفادکی خاطر دوسروں کو روند رہے ہیں کچل رہے ہیں زخمی کررہے ہیں۔ آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر شخص دوسرے شخص کے دیے گئے زخموں کی مرہم پٹی میں مصروف اس کو برابھلا کہہ رہاہوتاہے اس کو کوس رہا ہوتا ہے اس پر لعنت ملامت کررہا ہوتا ہے معاف کیجیے گا، یہ بتانا بھول گیا تھا کہ مفادکی عینک اس وقت بھی لگی ہوئی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔