کوئی تو حل ہے

شہلا اعجاز  ہفتہ 2 جنوری 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

حالیہ ایک تحقیق کے مطابق کراچی بھرکے اسپتالوں میں درج زیادتی کے کیسز کی رجسٹرڈ تعداد کے تقریباً 27% کیس پولیس تھانوں میں درج کروائے جاتے ہیں، ان اسپتالوں میں کراچی شہر کے تمام سرکاری اسپتال شامل ہیں، اس کے علاوہ غیر سرکاری اسپتالوں میں اسی قسم کے کیسز کی کیا صورتحال ہے وہ اس میں شامل تفتیش نہیں، یہ ایک اندوہناک صورتحال ہے۔ 2013 میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 112تھانوں کے ریکارڈز کے مطابق صرف 106 ایف آئی آر درج کی گئیں جب کہ اس سے پچھلے برس 370 کیسز کے خلاف 109 ایف آئی آر درج کی گئیں آخر کیوں؟یہ طویل بحث پھر کبھی سہی۔

خواتین اور بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتی کی صورتحال پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں ایک کالے بادل کی مانند پھیلتی جارہی ہے، دنیا بھر میں انسانی ہمدردی اور مرد وعورت کے درمیان مساوات کا درس پھیلانے والے امریکا میں یہ حالت ہے کہ زیادتی کے کیسزکی ایک عالمی رپورٹ کے مطابق امریکا اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جارج مین یونی ورسٹی کے ورلڈ وائیڈ اسٹیٹکس کے مطابق امریکا میں تین میں سے ہر ایک عورت اپنی زندگی میں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔

RAIIN کے مطابق ہر ایک سو سات منٹ کے بعد جنسی حملہ ہوتا ہے اس حملے میں عورت، مرد اور بچے تمام شکار بنتے ہیں جن میں خواتین پہلے نمبر پر ہیں اس طرح سے دیکھا جائے تو بارہ سال اور اس سے بڑے افراد اوسطاً 293,000 افراد شکار بنتے ہیں۔ امریکا کے بعد یہ صورتحال سوئیڈن میں شدید ہے جہاں جنسی زیادتی عروج پر ہے۔

اس فہرست میں اول نمبر پر ساؤتھ افریقہ نظر آتا ہے جہاں یہ شرح بلند درجوں پر ہے۔ اس بین الاقوامی شماریات میں نمبر ایک سے لے کر دس تک میں زیادہ تر یورپ کے ممالک نظر آتے ہیں۔پڑوس کے ملک بھارت میں بھی بے حرمتی و زیادتی کے بڑھتے ہوئے مقدمات کی وجہ سے حکومتی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔ میڈیکل کی طالبہ دامنی کے اندوہناک کیس نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہیں اس کیس میں ایک نو عمر مجرم کو اس کی کم عمری کے باعث چھوٹ مل گئی تھی۔

تین برسوں کے بعد اس ملزم کو جو اب بلوغت میں داخل ہوچکا ہے قانون کے تحت رہائی کا حق دیا جارہا ہے وہیں ملزم کے والدین اس کشمکش کا شکار ہیں کہ آیا رہائی کے بعد ان کا اعلیٰ کردار کا سپوت معاشرے میں آزادی کے ساتھ زندگی گزار بھی پائیگا یا نہیں کیونکہ دامنی کے والدین اور سماجی اقدار کے علمبردار اس کی رہائی کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔

وہ اس امر کے خلاف باقاعدہ پر زور ریلی نکالنا چاہتے تھے جسے سرکاری کارندوں نے کچھ نہ کچھ کرکے فی الحال تو روک لیا ہے لیکن سرکار کو احساس دلادیا ہے کہ اب بات صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے مکمل نہیں ہوسکتی اس کا حل کسی اور طریقے سے نکالنا پڑیگا۔ ظاہر ہے متاثرہ لڑکی کے والدین اپنی لخت جگر کے قاتل کو آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھ کر کیسے جی سکتے ہیں۔ یہ ایک سوال ہے جو بھارت کے اعلیٰ حکام کے گرد گھوم رہا ہے آج دامنی کے گھر والے اٹھ رہے ہیں کل کسی اور کے گھر والے اور سماجی لیڈرکسی اور کا نعرہ لگائینگے یہاں تک کہ مودی صاحب بھی کھلے عام اس قسم کے کیسز پر لعن طعن کرنے لگے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب بات اونچی سطح پر پہنچنے لگی ہے۔

حالیہ لاہور کیس میں متاثرہ بچی کے والدین بھی سکون کا سانس کیسے لے سکتے ہیں، یہ ایک واحد کیس نہیں ہے، اس سے پہلے بھی پنجاب سے لے کر سندھ بھر میں ایسے لا تعداد کیسز درج ہیں جن میں متاثرین مظلومیت کی تصویر بنے ٹکر ٹکر اپنے جگر گوشوں کو دیکھتے ہیں جو زندگی بھر کے لیے نفسیاتی الجھنوں میں گھر کر اپنی زندگی کھوکھلی کرچکے ہیں قصور وار کون ہے؟

لیہ میں بیس بائیس برس کی لڑکی کی دلخراش موت کے بعد پورے علاقے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ یہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ایک معصوم لڑکی اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ چھت پر سوئی اورجب گھر والے اٹھے تو اپنی بیٹی کو نہ پاکر پریشان ہوگئے اور جب بعد میں بیٹی کی لاش پولیس نے جس انداز میں برآمدکی اس سے لوگوں کے دل دہل گئے۔

پہلے زیادتی پھر پھانسی کا پھندہ حالانکہ جلد ہی ملزم پکڑے بھی گئے لیکن اس مظلوم کا کیا قصور تھا جو اپنی جان سے بھی گئی اس کے بعد پانچ چھ سالہ معصوم بچی کا کیس جس کی ٹی وی چینلز پر خوب تشہیر کی گئی، پکڑنے والوں نے سب کو پکڑلیا لیکن پھر کیا ہوا؟ کراچی کے علاقے بلدیہ میں ایک نوجوان طالبہ کو اجتماعی طور پر زیادتی کا نشانہ بنایاگیا اور لاش جھاڑیوں میں پھینک دی گئی نہ اخبارات میں بڑی بڑی خبریں لگی نہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز آئیں کیوں کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بریکنگ نیوز آئے یا نہ آئے شیطانی حرکات کرنے والوں پر اثر نہیں پڑتا۔ جس کے دامن میں چھید ہوجاتے ہیں بس وہ ہی روتا رہتا ہے۔

قرآن مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے جو اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ جب لوگوں کی نافرمانیاں حد سے گزر جاتی ہیں تو اﷲ رب العزت اپنا عذاب نازل کرتے ہیں ، قوم کو اندھا کردیا، بستیاں اٹھاکر پٹخ دیں اور آسمان سے پتھروں کی بارش کیں، بحر مردار کے کھنڈرات واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہیں۔

اﷲ رب العزت نے جو سزائیں مقرر کی ہیں اس میں سزا کے ساتھ ڈروخوف بھی شامل ہے عبرت کا سامان بھی ہے، اگر تجربے کے طور پر ہی اس کو کھلے دل کے ساتھ اختیارکیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس انداز کو اپنالیا جائے کہ مالک کے ہر پیغام میں عقل وفراست کے خزانے ہیں، ذرا سوچ کر دیکھئے تو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔