سندھ کے ڈوبتے ڈیلٹا میں اونچی لہروں سے بچانے والے خاص مکانات

سہیل یوسف  اتوار 3 جنوری 2016
گاؤں صدیق ڈبلو کے محمد اکرام اپنے نئے مکان کے ساتھ جو کئی فٹ بلند پلیٹ فارم پر بنایا گیا ہے۔ اسی مکان نے انہیں نانوک سمندری طوفان سے تحفظ فراہم کیا تھا۔ فوٹو:  سہیل یوسف

گاؤں صدیق ڈبلو کے محمد اکرام اپنے نئے مکان کے ساتھ جو کئی فٹ بلند پلیٹ فارم پر بنایا گیا ہے۔ اسی مکان نے انہیں نانوک سمندری طوفان سے تحفظ فراہم کیا تھا۔ فوٹو: سہیل یوسف

 کراچی: دریائے سندھ اور سمندر کے سنگم پر رہنے والے غریب مچھیرے اور عوام کبھی خوشحال تھے لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں، سمندر کی طرف سے خشکی ہڑپ کرنے اور مچھلیوں کی کمی سے ان کا ہردن مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ڈیلٹا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں دریا اور سمندر باہم ملتے ہیں اور دنیا کے ساتویں بڑے سندھ ڈیلٹا کا یہ حال ہے کہ یہاں سمندری طوفان اور پانی کے بے یقینی بہاؤ سے جزیروں اور دریا کنارے رہنے والے انتہائی غریب افراد کے گھر بہہ جاتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے جب وہ اپنا جھونپڑی نما گھر پیچھے کرتے ہیں تو پانی رینگتا ہوا دوبارہ ان تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اب ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تعاون سے ان افراد کی زندگی میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے پانی سے بچاؤ کے لیے اپنے سادہ گھروں کو لکڑی کے چبوتروں پر منتقل کرلیا ہے اور اب تک کئی مکانات کو لکڑی کے ستونوں پر 3 سے 4 فٹ بلند کیا گیا ہے تاکہ پانی ان کے نیچے سے بہہ جائے اور مچھیروں کی جان و مال محفوظ رہ سکے۔

کراچی سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود انڈس ڈیلٹا کبھی خوشحال، شاداب اور مالدار ہوا کرتا تھا۔ یہاں اگنے والا سرخ چاول غذائیت سے بھرپور ہوا کرتا تھا لیکن یہ بات اب قصہ پارینہ ہوئی اور ڈیلٹا کی زرخیزی کو سمندر کے کڑوے پانی نے نگل لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دریا کا بہاؤ کمزور ہونے سے سمندر دریا کے راستے 50 کلومیٹر تک اوپر چڑھ آیا ہے اور ڈیلٹا کے 17 بڑے کریکس (دراڑیں) سمندری پانی سے بھر چکے ہیں جس سے زمینی کٹاؤ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

صدیق ڈابلو نامی جزیرے کے رہائشی کئی برس سے سمندری طوفان اور طغیانی کا سامنا کررہے ہیں اور ان کی زمین بہت تیزی سے سمندر کی نذر ہورہی ہے۔ اب انہوں نے اپنے مکانات لکڑی کے پلیٹ فارم پر بلند کرلیے ہیں تاکہ غیرمتوقع اونچی لہروں سے اپنے گھروں کو محفوظ رکھ سکیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اس گاؤں میں ایسے کئی مکانات تعمیر کرکے اس گاؤں کو اونچے مکانات کا ماڈل ولیج بنایا ہے اور اب تک ایسے 10 گھر بنائے جاچکے ہیں جن میں سے کچھ اب بھی زیرِ تعمیر ہیں۔ ان گھروں میں سب سے واضح محمد اکرم کا مکان ہے جو لکڑی کی جھونپڑیوں اور مینگرووز کی جھاڑیوں میں نمایاں ہے۔ ایک اونچا گھر بنانے پر 1 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جن میں سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے 70 ہزار روپے فراہم کیے ہیں جس سے لکڑی کا مضبوط چبوترا اور ستون بنائے جاتے ہیں جب کہ مکان کی سیڑھیاں، چھت اور دیوار پر چٹائی کی دیوار مچھیرے بناتے ہیں جس پر کم ازکم 30 ہزار روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے۔

مکان کو تارپین لکڑی کے 12 ستونوں پر کھڑا کیا جاتا ہے جو کھارے پانی کی وجہ سے یہ فریم 15 سال کا عرصہ ہی گزار سکتا ہے۔ اس گاؤں میں دیگر بہت سے افراد بھی ایسے ہی اونچے مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن 30 ہزار کی رقم بھی ان کے لیے کسی پہاڑ سے کم نہیں کیونکہ ماحولیاتی تباہی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے وسائل کے باعث یہ پاکستان کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں لوگ روزانہ مشکل سے 100 روپیہ بھی نہیں کماپاتے۔

اکرم اپنی دلہن کے ساتھ اس نئے گھر میں بہت خوش ہے۔ اکرم نے بتایا کہ یہاں اونچی لہروں اور سمندری طوفان کی وجہ سے بہت سے گھر متاثر ہوئے اور ان کا سامان بہہ گیا تھا لیکن 2014 میں نانوک سمندری طوفان کے باعث پورا گاؤں ڈوب گیا تھا لیکن اونچا ہونے کی وجہ سے میرا گھر محفوظ رہا تھا۔

پاکستان میں آب وہوا میں تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق بحیرہ عرب میں سمندری طوفانوں کے واقعات اور شدت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، یہاں 1999، 2007، 2009، 2010، 2011 اور 2014 میں سمندری طوفان آئے تھے جن میں نیلوفر، نانوک اور فیٹ قابلِ ذکر ہیں۔

پیاسا ڈیلٹا

سندھ ڈیلٹا کے شہروں کھاروچھان، کیٹی بندر اور دیگر علاقوں میں بسنے والے اکثر مچھیروں کا یہی کہنا تھا کہ گزشتہ ایک عشرے سے مچھلی کا شکار کم سے کم ہوتا جارہا ہے، یہاں ایک زمانے میں لذیذ ’پلا‘ وافر مقدار میں موجود تھی جو اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ دوسرا سانحہ یہ ہوا کہ کھارا پانی زمین میں جذب ہو کر زراعت کو مشکل بنا رہا ہے اور یہاں کی زرخیزی تیزی سے کم ہورہی ہے۔

پاکستان فشر فوک کے ایک عہدیدار کے مطابق یہاں آم کے درخت تھے جو اب ختم ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب گاؤں سجن واری کے ایک مچھیرے جاڑو نے بتایا کہ بااثر افراد ممنوعہ بھولا جال لگا کر مچھلیاں پکڑ رہے ہیں جس سے علاقے میں تباہی آگئی ہے۔ ایک اور مچھیرے نے بھولا کو خودکش جال قرار دیا۔

سال 1932 سے 1976 تک دریائے سندھ پر 9 بڑے ڈیم اور چھوٹے بیراج بنائے گئے ہیں جس سے ڈیلٹا تک پہنچنے والا پانی قریباً صفر ہوچکا ہے اور اس سے سمندر اوپر چڑھ آیا ہے۔ ڈیموں نے مٹی بھی روک لی جو ڈیلٹا میں اضافے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور پہلے ڈیلٹا کا رقبہ 6200 کلومیٹر تھا جو اب سکڑ کر صرف 1200 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ سمندر دریا کی حدود میں جانے سے اب اس کے 17 زرخیز کریکس کھارے پانی سے بھر چکے ہیں۔ اگرچہ یہ مقام دریا کا حصہ ہیں لیکن سمندری پانی کی وجہ سے دنیا کا زرخیز ترین علاقہ اب بیابان بن چکا ہے۔

محمد اکرم نے اداسی سے پانی کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا ’میں نے سنا تھا کہ کبھی یہاں کا پانی میٹھا ہوتا تھا لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہے یہاں سمندری پانی ہی دیکھا ہے‘۔ اس کا کہنا تھا کہ سمندر نے یہاں کا رہن سہن، خوراک، زراعت، ماہی گیری اور یہاں تک کہ جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔  گاؤں صدیق ڈابلو بظاہر تو جزیرہ لگتا ہے ہے لیکن یہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے کیونکہ سمندر بڑھنے سے اس کا بڑا حصہ پانی میں جا چکا ہے اور ایک وقت آئے گا یہ جزیرہ غائب ہو جائے گا۔

ایک اور شہری اسماعیل نے بتایا کہ تمام تکلیف کے باوجود گاؤں صدیق ڈابلو میں رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں باقی علاقوں کے مقابلے میں کچھ  ذیادہ مچھلی مل جاتی ہے۔ لیکن ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے 2005 کے ایک سروے میں یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ صرف 10 سال میں ڈیلٹا میں پاپلیٹ، بارا کوڈا، سرمئی اور دیگر مچھلیوں میں 60  فیصد کمی  جب کہ پلا مچھلی بالکل غائب ہوچکی ہے۔

سندھ ڈیلٹا شدید موسموں، آب وہوا میں تبدیلی، طغیانی، طوفان اور میٹھے پانی کی کمی سے بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ دریائے سندھ کے معاہدے کے تحت اسے کم ازکم 10 ملین ایکڑ فٹ ( ایم اے ایف) پانی کی اشد ضرورت ہے تاکہ سمندر کو دور رکھ کر اسے کسی حد تک بحال کیا جائے۔ یہاں موجود وسائل اور زراعت کو بچانے کا ایک واحد یہی راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔