چھے سال بعد بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب

سید بابر علی  اتوار 3 جنوری 2016
مشکلات کا شکار عوام کو شہری مسائل حل ہونے کی امید ہوئی ۔  فوٹو : فائل

مشکلات کا شکار عوام کو شہری مسائل حل ہونے کی امید ہوئی ۔ فوٹو : فائل

 گذشتہ برس کو اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ اس سال ملک میں ایک عرصے سے التوا کا شکار بلدیاتی نظام بحال ہوا اور شہری مسائل کا شکار عوام کو امید ہوئی کہ اب ان کے بنیادی مسائل حل ہوں گے۔

ملک میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز بلوچستان سے ہوا۔ چھے دسمبر 2013 کو بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا انعقاد کیا گیا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات 7دسمبر 2013کو منعقد کیے گئے تھے۔ تاہم پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست کی بنا پر انہیں ایک سال سے بھی زاید عرصے تک ملتوی رکھا گیا اور 2015 میں تمام مراحل انجام پائے۔ 7190نشستوں کے لیے منعقدہ انتخابات میں 2509 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ 4168نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے جب کہ 513نشستیں خالی ہیں۔ ان بلدیاتی انتخاب میں صوبائی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کرنے والی جماعت پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی۔

خیبر پختون خوا میں ہونے والے الیکشن کو پاکستان کا سب سے بڑا بلدیاتی الیکشن قرار دیا گیا۔ صوبے کی41ہزار 762نشستوں پر 84ہزار 420 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ان انتخابات میں صوبے میں حکم راں جماعت پاکستان تحریک انصاف 259نشستیں حاصل کرکے سرفہرست رہی، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی 105، جمعیت علمائے اسلام96، پاکستان مسلم لیگ (ن) 85، جماعت اسلامی78، پیپلزپارٹی38، دیگر جماعتیں22 اور آزاد امیدوار118نشستیں حاصل کرسکے۔

صوبہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت مسلم لیگ (ن)2696 نشستوں میں سے 1193 نشستیں حاصل کرکے سرفہرست رہی۔ آزاد امیدوار 1065 اور پاکستان تحریک انصاف صرف 285 نشستوں پر ہی فتح یاب ہوسکے۔ پاکستان عوامی تحریک اور جماعت اسلامی دو، دو، پاکستان پیپلزپارٹی 47، مسلم لیگ (ق) 44 نشستوں پر کام یاب رہیں۔

غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق سندھ کے آٹھ اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی 1070نشستوں میں 720سے نشستیں جیت کر پہلے نمبر پر رہی، جب کہ آزاد امیدواروں نے 174، متحدہ قومی موومنٹ 4، مسلم لیگ فنکشنل 71، پاکستان تحریک انصاف5، جمعیت علمائے اسلام (ف) 11 اور مسلم لیگ (ن) نے تین اور دیگر سیاسی جماعتوں نے 12نشستیں حاصل کیں۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کو 821نشستوں پر کام یابی حاصل ہوئی، تاہم بدین میں مرزا گروپ نے میونسپل کمیٹی کی پوری 14نشستیں جیت کر کلین سوئپ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ 118، مسلم لیگ (ن)62، عوامی اتحاد 17، مسلم لیگ فنکشنل 22، پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کو 4اور پاکستان تحریک انصاف کو 7سیٹوں پر کام یابی حاصل ہوئی۔

بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں کراچی کے چھے اضلاع میں انتخابی معرکہ انجام پایا، جس کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ207میں سے 138 نشستیں حاصل کرکے سرفہرست رہی، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی13، مسلم لیگ (ن) 8، پاکستان تحریک انصاف 7، جماعت اسلامی 6، جمیعت علمائے اسلام 2 اور آزاد امیدوار 10نشستیں حا صل کر سکے۔

پنجاب کے 21 اور سندھ کے 16 اضلاع کے ملتوی کردہ حلقوں میں جب انتخابات منعقد ہوئے تو بالترتیب مسلم لیگ (ن) 9اور پاکستان پیپلز پارٹی53نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ غیرحمتی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق پنجاب کی 17 نشستوں میں ن لیگ 9 ، آزاد امیدوار6، پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ (ضیا) 1، 1 سیٹ پر کام یابی حاصل کر سکی، جب کہ سندھ کی 67 میں سے 65 نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی 53 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ آزاد امیدوار 6، مسلم لیگ فنکشنل لیگ متحدہ قومی موومنٹ 3، 3 نشستوں پر کام یاب رہی۔

تیسرے مرحلے کو بہت اہمیت دی گئی کیوںکہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہری نمائندوں کا چناؤ تھا۔ شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم کو سیاسی تنہائی کا شکار سمجھا جارہا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میدان میں تھیں۔ ان کا انتخابی اتحاد زور و شور سے کراچی میں سرگرم نظر آیا۔ تاہم نتائج ان کی امیدوں کے برعکس نکلے۔ شہرقائد کے مکینوں نے ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ووٹ دیے اور یوں وسیم اختر کا نام کراچی کے میئر کے طور پر سامنے آیا، جب کہ دیہی علاقوں میں پی پی پی کے امیدواروں نے کام یابی سمیٹی۔ اس کے علاوہ ن لیگ، اے این پی، سنی تحریک، مجلس وحدت المسلمین اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں بھی میدان تھیں۔

2005کے بعد سے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد متعدد بار التوا کا شکار ہوا۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں نے حلقہ بندی کے معاملے پر متفق ہونے سے انکار کیا تو دوسری طرف سابق صد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے نظام کو بھی سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے مسترد کردیا تھا۔ یاد رہے کہ 2000 میں سابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 1979کے بلدیاتی انتخابات کے قوانین میں ترمیم کے بعد شہری حکومت کا آرڈیننس جاری کیا۔ اس قانون کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے ضلعی حکومتی نظام متعارف کروایا گیا، جس کے تحت2001میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔

اس نئے بلدیاتی نظام میں عوامی نمائندوں کے اختیارات کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ضلع کی افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کے تابع کر دیا گیا تھا، جس سے مقامی حکومتی نظام مضبوط ہوا، ترقیاتی کام اپنے عروج پر رہے۔ خصوصاً کراچی میں بڑے پیمانے پر سڑکوں کی تعمیر ، کھیل کے میدان، پارک اور فلائی اوورز تعمیر کیے گئے۔ اس نظام کے تحت کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی جگہ ناظم اور نائب ناظمین نے لے لی۔

2008میں برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام کو عضو معطل بنادیا۔ ناظمین کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈز روک لیے گئے، جس کی وجہ سے بہت سے ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار ہوگئے۔ 2009میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون کے تحت 2001کے بلدیاتی نظام اور اس کے تحت بنائی گئی حلقہ بندیاں ختم کرکے ایڈمنسٹریٹرز کو مقرر کردیا تھا۔

2013 میں تیسری بار حکومت میں آنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے بلدیاتی انتخابات کے معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیا۔ 8 نومبر 2013 کو قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں ان انتخابات کو ملتوی کردیا گیا۔ اس التوا کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ 20 دنوں میں 5 کروڑ بیلٹ پیپرز چھپوانا ناممکن ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا۔

سیاسی قیادت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا فیصلہ عدالتی دبا کا نتیجہ ہے، کیوں کہ موروثی سیاست کی حامی سیاسی جماعتیں اپنے مفاداتِ پیوستہ کے باعث اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حق میں نہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، اجڑے ہوئے پارکس اور کھیل کے میدان اور کیچڑ میں لت پت گلیوں سے زیادہ دل چسپی ترقیاتی کاموں کے لیے ملنے والے فنڈز سے ہے، جو بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ارکان صوبائی اسمبلی کی جیب سے نکل کر عوامی فلاح کے لیے استعمال ہوں گے۔

٭ پاکستان میں مقامی حکومتوں کی تاریخ
قیام پاکستان کے بعد جنرل ایوب خان نے 1958 میں پہلی بار ’بنیادی جمہوریت‘ کا نظام متعارف کروایا اور 1959میں بنیادی جمہوریت کا آرڈیننس نافذ کیا۔ 1962 کے آئین میں اس نظام کو انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا۔ اس قانون کے تحت عوام کے مسائل کے حل کے لیے ملک بھر سے اسی ہزار رکن منتخب کیے گئے۔ اس بلدیاتی نظام کے ذریعے دیہات میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے۔ بیسک ڈیمو کریسی (بی ڈی) نے قصبوں، دیہات، تحصیلوں اور اضلاع میں عوامی بہبود کے ان گنت منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

ایوب خان کا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد یہ نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہوگیا۔ 1969 ایوب خان کا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد ون یونٹ کو ختم کرکے بلدیاتی نظام کو ازسرنو منظم کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے چار ایکٹ منظور کیے۔ 1972 میں سندھ اور سرحد اور 1975میں پنجاب اور بلوچستان کے ایکٹ منظور کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں علاقائی انتخابات کے ڈھانچے کو بھی بہتر کیا گیا۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے دیہی کونسلیں، میونسپل کمیٹیاں، محلہ کمیٹیاں اور ٹان کمیٹیاں قائم کی گئی۔

1979میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ایک نیا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت مقامی حکومتی نظام کو نافذ کیا گیا۔ بلدیاتی حکومت کے اس نظام نے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور لوگوں کے مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ عوام کو افسر شاہی کے روایتی ہتھ کنڈوں سے نجات دلا کر بلدیاتی اداروں کو وسیع انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے گئے۔ دیہی علاقوں میں پنچایتی نظام کو موثر بنایا گیا۔ ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی جماعت دو دو برسراقتدار رہی مگر بلدیاتی انتخابات کبھی اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ نوازشریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں 1991 میں صرف پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے ملک کے باقی صوبے اس سے محروم رہے۔ 1997میں دوسرے دور اقتدار میں نوازشریف کی زیرصدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ اگلے سال (1998) میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے، لیکن یہ اعلان محض اعلان کی حد تک ہی رہا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔