فرانس کا نائن الیون

آصف زیدی  اتوار 3 جنوری 2016
جب خوشبوؤں کا شہر پیرس خون میں نہاگیا فوٹو : فائل

جب خوشبوؤں کا شہر پیرس خون میں نہاگیا فوٹو : فائل

جمعہ 13 نومبر2015 کو خوب صورت علاقوں اور مقامات کے لیے دنیا بھر میں مشہور فرانس کے شہر پیرس میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ لوگ اپنے معمولات میں مصروف تھے۔ سڑکوں، بازاروں میں بڑی گہماگمی تھی، کہیں کھیلوں کے شوقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی مہارت کا مظاہرہ دیکھ رہے تھے تو کہیں موسیقی کے دل دادہ مدھر سُروں اور گلوکاروں کی خوش نغمگی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ سب خوش تھے اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ہنستا بستا ماحول اچانک خون اور بارود کی بو اور آگ کی نذر ہوجائے گا، ایسی خوف ناک بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ خاص طور پر اُن ملکوں میں جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں اور جہاں ایک ایک آدمی کی حفاظت حکومت اپنا فرض اولین سمجھتی ہے، لیکن پھر ایسا ہی ہوا۔

دہشت گردوں کے ایک گروپ نے ٹولیوں میں بٹ کر پیرس کے باسیوں پر قیامت ڈھادی۔ کیفے، ریسٹورینٹس اور بیٹاکلان تھیٹر (Bataclan Theatre) کے کنسرٹ ہال میں موسیقی کے ایک پروگرام میں اور دیگر مقامات پر موجود سیکڑوں افراد چشم زدن میں گولیوں، دھماکوں اور آگ کی لپیٹ میں آگئے، حملہ آوروں نے نہ صرف فائرنگ کی بل کہ خودکش حملہ آوروں نے لوگوں کے درمیان خود کو دھماکوں سے اُڑادیا۔ کنسرٹ ہال میں دہشت گردوں نے 100 سے زاید افراد کو یرغمال بناکر درجنوں افراد کو ہلاک کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔ ان حملوں میں مرنے والوں میں فرانسیسی شہریوں کے علاوہ برطانیہ، چلی ، میکسیکو، اسپین، مراکش، پرتگال اور دیگر علاقوں کے باشندے بھی شامل تھے۔

دہشت گردوں کے ان منظم اور منصوبہ بندی سے کیے گئے حملوں میں کم ازکم 130 افراد لقمۂ اجل بنے، جن میں سے89 موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مارے گئے۔ کچھ میڈیا ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 160 سے بھی زیادہ بتائی ہے۔ جنگ عظیم دوم سے لے کر اب تک فرانس میں دہشت گردی کی اس سب سے بڑی کارروائی میں 368 افراد زخمی بھی ہوئے۔ پیرس کو خون میں نہلانے والے کچھ دہشت گرد تو خودکش بم باروں کی صورت میں ہلاک ہوئے جب کہ باقی کو سیکیوریٹی فورسز نے مقابلے کے بعد ہلاک کیا، اطلاعات کے مطابق 7 دہشت گردوں نے ان کارروائیوں میں حصہ لیا۔

عراق، شام اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلنے والی انتہاپسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرلی اور کہا کہ ’’یہ کارروائیاں شام اور عراق میں فرانس کی جانب سے داعش پر حملوں کا جواب ہیں۔ ہم امریکا سمیت دیگر ملکوں کے خلاف بھی حملے کریں گے۔‘‘ دوسری طرف فرانسیسی صدر اولاند نے ان حملوں کو فرانس کے خلاف اعلان جنگ سے تعبیر کیا اور کہا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی شام میں کی گئی، بیلجیئم اور فرانس میں موجود دہشت گردوں کے ساتھیوں نے حملے کی کام یابی میں کردار ادا کیا۔

اس حملے کے بعد فرانسیسی حکومت نے ملک میں ایمرجینسی نافذ کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کو سیل کردیا، کیوںکہ کچھ فرانسیسی حلقوں کی جانب سے ان شکوک کا بھی اظہار کیا جارہا تھا کہ شام اور دیگر ممالک سے آنے والے سیکڑوں مہاجرین کے ساتھ دہشت گرد بھی ملک میں داخل ہورہے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس نے شام میں داعش کے خلاف اپنا فضائی آپریشن بھی تیز کردیا اور فرانسیسی جہازوں نے داعش کے ٹھکانوں پر شدید بم باری کی۔

واقعے کے 5 دن بعد سینٹ ڈینس (Saint Denis) میں پولیس سے مقابلے میں مبینہ طور پر حملوں کا ماسٹرمائنڈ عبدالحامد (Abdelhamid Abaaoud) اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا۔

دہشت گردی کی اس خوف ناک کارروائی نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور مغربی ممالک کے لوگ زبردست خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے۔ طرح طرح کے سیکیوریٹی اقدامات کرکے کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے بچنے کی تدابیر کی گئیں اور تاحال کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف وہاں موجود غیرمقامی افراد خاص طور پر مسلمانوں کی مانیٹرنگ کا سلسلہ مزید سخت کردیا گیا۔

دہشت گردوں نے اپنی کارروائی بھر پور طریقے سے انجام دی، جدید ترین آلات سے لیس سیکیورٹی اہل کار، جگہ جگہ لگے سی سی ٹی وی کیمرے اور جاسوسی کا موثر نظام بھی ان مسلح دہشت گردوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے وقت نہ پکڑسکا۔

کنسرٹ ہال میں کی گئی خونی کارروائی کے علاوہ دہشت گردوں نے دوسرا بڑا حملہ فٹبال اسٹیڈیم کے باہر کیا۔ یہ کارروائی اس لحاظ سے بھی زیادہ سنگین تھی کہ جس وقت دہشت گردی کا واقعہ ہوا اس وقت اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان فٹبال میچ کھیلا جارہا تھا اور اسے دیکھنے کے لیے فرانسیسی صدر اپنی کابینہ کے ارکان سمیت اور جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹر بھی ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔

صدر کی کسی جگہ موجودگی پر سیکیوریٹی ویسے بھی معمول سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردوں کا حملہ اُن کے منظم ہونے کی دلیل اور سیکیوریٹی انتظامات پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دو بڑے مقامات کے علاوہ پیزا سینٹر، جاپانی ہوٹل اور کمبوڈیا کے ریسٹورنٹ بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ دہشت گردوں نے ٹولیوں میں بٹ کر کارروائی کی، کہیں خود کش بم باروں نے خود کو اُڑاکر خون بہایا تو کہیں گولیوں کی بوچھاڑ نے درجنوں افراد کی زندگی کا خاتمہ کیا۔

2015 میں فرانس میں سیکیوریٹی انتظامات پہلے کے مقابلے میں کافی سخت کیے گئے تھے، کیوںکہ عالمی سطح پر دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر فرانس عالمی اتحاد میں امریکا کا ساتھی ہے اور ملک کے اندر ہونے والی کئی وارداتوں نے بھی فرانسیسی حکام کو ہائی الرٹ رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ فروری 2015میں یہودی کمیونٹی ہال کی حفاظت پر مامور 3 اہل کار قتل کیے گئے۔ پھر جون میں سینٹ کونٹین فلاویئر (Saint-Quentin Fallavier) میں ایک فیکٹری کو اُڑانے کی کوشش کی گئی جب کہ اگست میں نامعلوم شرپسندوں نے ایک ٹرین پر حملہ کرکے مسافروں پر تشدد کیا تھا۔

دہشت گردوں کے حملے میں بیٹاکلان تھیٹر کے کنسرٹ ہال میںسب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ بیٹا کلان تھیٹر کو اس سے قبل بھی کئی بار دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔ فرانسیسی حکام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ تھیٹر گذشتہ 40 سال سے 2 یہودی بھائیوں کی ملکیت تھا، انھوں نے ستمبر 2015 میں ہی اسے فروخت کیا تھا۔

٭دہشت گردی کہاں کہاں اور کیسے ہوئی
پیرس میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ کئی مقامات بنے، بیٹاکلان تھیٹر کے علاوہ جہاں فائرنگ ہوئی اُن میں ریو ڈی ایلبرٹ(rue Alibert)  ، ریو ڈی لا فونٹین ، ریو ڈی کیرون، ایونیو ڈی لا ریپبلک شامل ہیں، جب کہ خودکُش بم باروں نے اسٹیڈ ڈی فرانس، بولیوارڈ والٹیئر میں دھماکے کیے۔

اس کے علاوہ سیکیوریٹی فورسز کے آپریشن کے دوران 2 خودکش بم باروں نے بیٹاکلان تھیٹر کے مقام پر خود کو اُڑایا۔ حکام کے مطابق جدید اسلحے کے ساتھ دہشت گردوں نے خودکش جیکٹیں بھی پہن رکھی تھیں، جن سے واردات کو تباہ کن بنانے میں مدد لی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسٹیڈیم کے باہر ایک خودکش بم بار کو سیکیوریٹی اہل کار نے روک لیا تھا، جس پر اس نے دھماکا کردیا اور یہ بھی شاید منصوبہ بندی کا حصہ تھا، کیوںکہ جب لوگ حملے کے بعد بڑی تعداد میں اسٹیڈیم سے نکلنے لگے تو مختلف مقامات پر موجود دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کو تکمیل تک پہنچانے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے میں مزید آسانی ہوگئی۔

بیٹاکلان تھیٹر میں جہاں مشہور امریکی میوزک بینڈ ’’ایگل آف ڈیتھ میٹلEagle of Death Metal ‘‘ تقریباً ڈیڑھ ہزار سامعین کو موسیقی سے لطف اندوز کررہا تھا، 3نقاب پوش دہشت گرد کلاشنکوفیں لے کر داخل ہوئے اور اندھا دھند گولیاں برسادیں۔

٭ کارروائی کس نے کی؟
مغربی میڈیا کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملے سے قبل دہشت گردوں نے ’’اللہ اکبر ‘‘ کا نعرہ بھی لگایا۔ اب یہ بات سچ ہے یا نہیں، لیکن فرانسیسی حکام نے یہ بیان دیکر اس دہشت گردی کو بھی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالنے کی تیاری کرلی۔ دوسری جانب خود کو مسلمان کہلانے والی اسلام دشمن تنظیم داعش نے بھی اس کارروائی کو اپنا ’’کارنامہ‘‘ کہہ کر دنیا بھر میں موجود پُرامن مسلمانوں کی زندگیوں میں مزید مشکلات بڑھانے کا سامان پیدا کردیا۔ اس کے علاوہ 2 دہشت گردوں کے پاس سے شام اور مصر کے پاسپورٹ بھی برآمد کیے گئے۔ تاہم مصری حکام نے وضاحت کی کہ ملنے والا مصری پاسپورٹ کسی دہشت گرد کا نہیں بل کہ نشانہ بننے والے ایک مصری باشندے کا تھا۔

٭ حملے کے بعد فرانسیسی ردعمل
دہشت گردی کی اس بدترین واردات کے بعد فرانسیسی حکام نے ملک بھر میں مشکوک افراد کی گرفتاری، چھاپوں اور تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا، جو تاحال جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کے بارے میں سیکیوریٹی حکام نے بتایا کہ یہ لوگ ممکنہ طور پر دہشت گردوں کے ساتھی ہیں یا تھے۔ ایک نقاب پوش خاتون حسنہ کی تصاویر بھی عالمی میڈیا میں آئیں کہ یہ بھی ایک خودکش بم بار تھی۔ تاہم اس کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں اور ابھی اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکی کہ کیا واقعی حسنہ خودکش بم باروں میں شامل تھی یا نہیں۔ بیلجیئم میں بھی ایک مبینہ حملہ آور ہدفی بلال کی تلاش میں چھاپے مارے گئے۔

عبدالحامداباعود (Abdelhamid Abaaoud) جسے فرانسیسی حکام نے حملے کا مرکزی ملزم قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھیوں کی تلاش میں بھی مسلسل کارروائیاں جاری ہیں۔ حامد کے والد کے وکیل کا کہنا ہے کہ عبدالحامد اباعود (Abdelhamid Abaaoud) کے والد اپنے بیٹے کی اس حرکت پر شرمندہ ہیں اور وہ اس کی مذمت کررہے ہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ حامد 13 نومبر سے قبل بھی دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کی کوششیں کرچکا تھا، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے نیٹ ورک میں بھرتیاں کرتا تھا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بناسکے۔ اس کے علاوہ ایک مسلم نوجوان صالح ابو سلام کو بھی دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبہہ میں تلاش کیا جارہا ہے۔

٭عالمی ردعمل
پیرس میں دہشت گردی کی اس کارروائی کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی۔ امریکا، پاکستان، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک نے اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت اور عوام سے اظہار ِیک جہتی کیا۔

ایک بڑے حلقے نے پیرس میں حملوں کو فرانس کا ’’نائن الیون ‘‘ قرار دیا ہے، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد جس طرح عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا، اب پیرس میں حملوں کے بعد بھی صورت حال اُسی طرف جارہی ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی نشانہ بن رہے ہیں۔

پیرس حملوں کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا یہ کارروائی شام اور دیگر خانہ جنگی سے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں مہاجرین کا راستہ روکنے کی سازش تو نہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور عالمی سطح پر سنجیدہ حلقوں کو اس طرف پوری توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔