دہشت کو پس پا کرتا، امن کی نوید دیتا برس

رضوان طاہر مبین  اتوار 3 جنوری 2016
پھانسیوں سے کراچی آپریشن تک نیشنل ایکشن پلان کا سفر ۔  فوٹو : فائل

پھانسیوں سے کراچی آپریشن تک نیشنل ایکشن پلان کا سفر ۔ فوٹو : فائل

رنج والم میں ڈوبی ہوئی تاریخ 16 دسمبر، 2014ء کو پھر لہو رنگ ہوئی، جب پشاور میں دہشت گردوں نے اسکول کے ننھے بچوں کو شہید کردیا۔ دلوں کو دہلا دینے اس واقعے کے تصور سے آج بھی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ ایک طرف متاثرہ والدین پر دل دوز غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، دوسری طرف اس ملک کے ہر باسی کو اپنے آنگن کی ننھی کلیوں کی فکر نے بے کل کردیا۔۔۔

اہل حَکم اس کا مداوا کرنے کو سر جوڑ بیٹھے۔ 24 دسمبر 2014ء کو کُل جماعتی کانفرنس کے منچ پر صلاح ہوئی، سزائے موت پر عمل درآمد، کئی سال کے غیراعلانیہ تعطل کے بعد، بحال کردیا گیا، جس کے بعد ایک سال کے دوران300 سے زاید افراد کو تختۂ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی قومی راہ ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی شکل میں سامنے آئی۔ قرارداد منظور ہوئی، جس میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سفارشات پر اتفاق رائے کیا گیا۔

ان میں نفرت انگیز مواد کی نشرواشاعت کے خلاف کارروائی، دہشت گردی میں ملوث افراد اور تنظیموں کو ملنے والی مالی امداد منقطع کرنے، مدرسوں میں اصلاحات، دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کا خاتمہ، دہشت گردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھانے، پنجاب سے شدت پسندی کے خاتمے، سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر شدت پسند تنظیموں کا پروپیگنڈا روکنے، فرقہ واریت میں ملوث عناصر کا قلع قمع، پنجاب میں عسکریت پسندی کے خلاف زیرو ٹولرنس، بلوچستان میں سیاسی مصالحت، افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی، کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات، اقلیتوں کے تحفظ اور فرقہ وارانہ نفرت کے خاتمے جیسے اقدام کے ساتھ ’کراچی آپریشن‘ کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی شامل تھا۔ کُل جماعتی کانفرنس کے اگلے روز ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔

26 دسمبر 2014ء کو ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ وزیراعظم نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ دہشت گردوں کے مالیاتی ذرایع کا خاتمہ اور شدت پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے نفرت انگیز مواد پر گرفت کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ خبردار کیا کہ اقلیتی برادری کی لڑکیوں سے زبردستی کی شادی میں ملوث افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوگی۔

6جنوری 2015ء کو قومی اسمبلی نے آئین اور آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم کی متفقہ منظوری دے دی۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی مسلم لیگ کے ارکان اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ 7 جنوری کو صدر نے اس ترمیم پر دستخط کر دیے۔ 9جنوری 2015ء کو ترجمان پاک فوج نے نو فوجی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یوں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے فیصلہ کن آپریشن ’ضرب عضب‘ کا آغاز ہوا۔ کراچی تا خیبر دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے اعلان پر عمل درآمد شروع ہوا۔ ملک بھر میں موبائل کنکشن کی ازسرنو تصدیق کا مرحلہ بھی طے ہوا۔

شہرِقائد کو گزشتہ کئی برسوں سے امن وامان کی دگر گوں صورت حال کا سامنا ہے۔ مختلف گروہ اہدافی قتل، ڈکیتی و راہ زنی، بھتا خوری اور زمینوں پر قبضوں جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی میں ان جرائم کی بیخ کنی سرفہرست رہی۔ دہشت گردی اور بدعنوانی کے درمیان تعلق کی بات کی گئی اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ’سہولت کاروں‘ پر بھی گرفت کی گئی، کیوں کہ یہ دہشت گردوں کو مالی وسائل فراہم کرتے تھے۔ مذہبی گروہ گرفت میں آئے، تو بہت سے سیاسی گروہوں سے وابستہ افراد بھی پکڑے گئے۔ رینجرز کی جانب سے متعدد مرتبہ سوک سینٹر سمیت مختلف سرکاری اداروں پر بھی چھاپے مارے گئے، سرکاری ملازمین سے تفتیش کی گئی اور سرکاری کھاتے قبضے میں لیے گئے۔

11 مارچ 2015ء کو علی الصبح متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپا مارا گیا اور کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں۔ اس دوران ایم کیو ایم کے مرکزی راہ نما عامر خان کو بھی حراست میں لیا گیا، جو آج کل ضمانت پر ہیں۔

اس کے بعد متحدہ کی رابطہ کمیٹی کے انچارچ قمر منصور اور کیف الوریٰ کو بھی حراست میں لیا، تفتیش کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ چھاپے کے ساتھ ہی قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے متحدہ کے سابق کارکن صولت مرزا کے 18 مارچ 2015ء کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیے گئے۔ پھانسی سے ایک روز قبل صولت مرزا کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں اس نے کہا کہ کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد اور چیئرمین ایم کیو ایم عظیم احمد طارق کو الطاف حسین نے قتل کرایا، جس کے بعد اس کی پھانسی پر عمل درآمد 12 مئی تک مؤخر رہا۔

رینجرز کی جانب سے درجنوں مرتبہ متحدہ کے مختلف سیکٹر اور یونٹ پر چھاپے مارے جاتے رہے۔ کارکنوں کی گرفتاری پر متحدہ کی جانب سے شدید احتجاج بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ 11 مئی کو کارکنوں کی گرفتاریوں پر کردار ادا نہ کرنے پر اپنے نام زَد کردہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی باقاعدہ لاتعلقی کا اعلان کر دیا گیا۔ کارکنوں کے قتل کے خلاف جب متحدہ نے یوم سوگ کا اعلان کیا، تو رینجرز نے شہر کی دکانیں کھلوائیں۔

12جولائی اور 2 اگست 2015ء کو قائدِ متحدہ الطاف حسین نے کارکنوں اور ذمے داروں کی گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے حوالے سے سخت بیانات دیے، جس کے بعد ان کے خلاف ملک بھر میں غداری کے بے شمار مقدمات درج ہوئے اور 31 اگست کو لاہور ہائی کورٹ نے ذرایع اِبلاغ پر ان کے بیانات اور تصاویر شایع یا نشر کرنے پر مکمل پابندی عاید کردی۔ متحدہ نے اس پابندی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خلاف شدید احتجاج کیا، ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی چناؤ کے دوران بھی الطاف حسین کی تصاویر والے تشہیری بورڈ اتار لیے گئے ہیں۔ اس سے قبل متحدہ نے بطور احتجاج 12 اگست کو سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینٹ سے استعفے دے دیے۔

آزاد کشمیر میں متحدہ کے دو وزرا کو الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی نہ کرنے پر برطرف کر دیا گیا۔ اِدھر دو ماہ تک متحدہ کے اراکین کے استعفوں کا معاملہ معلق رہا، 9 اکتوبر کو حکومت نے تحریری معاہدے کے بعد استعفے واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔نائن زیرو پر چھاپے کے دوران سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری اور نیٹو اسلحے کی برآمدگی کے دعوے کے بعد ایک نیا موڑ 24 جون کو اس وقت آیا، جب بی بی سی نے ایک رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھارت سے مالی امداد ملنے کا الزام عاید کردیا۔

26 جون کو لندن میں متحدہ کے مرکزی راہ نما طارق میر کے ایک مبینہ بیان بھی سامنے آیا، جس میں انہوں نے متحدہ کو بھارت سے رقم ملنے کا اعتراف کیا، جس پر وزارت خارجہ نے ثبوت تک رسائی کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا۔ اس دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ملزمان سے پاکستان آکر تفتیش کی۔ دوسری طرف 5 اکتوبر کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں الطاف حسین کی ضمانت میں فروری 2016ء تک توسیع دے دی گئی۔

انتخابی سیاست میں کودنے والی کراچی کی نوآموز سیاسی جماعت ’پاسبان‘ کے جنرل سیکریٹری عثمان معظم اور ان کے بیٹے محمد صدیقی بھی دہشت گردی اور دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں گرفتار ہیں۔ لیاری گینگ وار اور انتہا پسند مذہبی گروہوں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے۔

کراچی آپریشن میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب26 اگست 2015ء کو رینجرز نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو حراست میں لے لیا۔ ان پر مطلوب ملزمان کے علاج معالجے کے الزام عائد کیے گئے۔ پیپلزپارٹی نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا، تاہم ان سطور کے لکھے جانے تک ڈاکٹر عاصم بدستور حراست ہی میں ہیں۔اس سے قبل سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کے گھر سے مبینہ طور پر بھاری رقوم کی برآمدگی کی اطلاعات سامنے آئیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے بھی کارروائیوں پر سخت بیانات دیے، جس کے بعد وہ دبئی میں مقیم ہیں۔ 2 دسمبر کو شرجیل میمن سے اطلاعات ونشریات کا قلم دان واپس لے لیا گیا۔

کراچی آپریشن گو کہ پہلے سے جاری تھا، لیکن 2015ء کے دوران اس میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی۔ سی پی ایل سی کے سربراہ زبیر حبیب کے مطابق 2014ء میں اغوا برائے تاوان کے 110، جب کہ 2015میں 21 مقدمات درج ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ 2015ء کا اختتام گذشتہ سات، آٹھ سال سے دگرگوں امن کی بحالی کی طرف ہوا۔ دوسری طرف رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر وفاق سے سندھ حکومت کے نزاع نے بھی ایک نئی صورت حال پیدا کر دی ہے، جس پر صورت حال کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔

٭دہشت گردی کے بڑے واقعات
گذشتہ برس کراچی میں دہشت گردی کی کئی بڑی وارداتیں ہوئیں:
13 مئی کو صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی ایک بس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس میں 45 افراد جاں بحق ہوگئے۔ واقعے کے ملزمان گرفتار ہوئے اور ان کے مقدمات فوجی عدالت میں بھیج دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 اپریل کو ڈیفنس میں واقع T2F (دی سیکنڈ فلور) کی ڈائریکٹر سیبن محمود کو قتل کر دیا گیا۔

29 اپریل کو شہر میں اِبلاغ عامہ کے ہر دل عزیز استاد ڈاکٹر وحید الرحمٰن (المعروف یاسر رضوی) کو نامعلوم ملزمان نے شہید کردیا۔ 18 اگست 2015ء کو ایم کیوایم کے رکن قومی اسمبلی عبدالرشید گوڈیل قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ یکم دسمبر کو تبت سینٹر کے قریب ملٹری پولیس کے دو اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے ردعمل میں آرمی چیف نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد ضرب عضب کی پیش رفت کو روکنا ہے۔

٭رینجرز کے اختیارات
1989ء کے دگرگوں حالات کے بعد حکومتِ سندھ نے شہرقائد میں قیام امن کی خاطر سرحدی محافظ رینجرز کو طلب کیا تھا۔ اس دوران کراچی میں 1992ء کا فوجی آپریشن بھی ہوا اور اس کے بعد رینجرز اور پولیس کی جانب سے مختلف چھوٹی بڑی کارروائیاں کی جاتی رہیں۔ 2013ء میں حکومت کی تبدیلی اور بالخصوص نیشنل ایکشن پلان کے بعد شہر میں رینجرز کی کارروائیوں نے ایک نیا رخ اختیار کیا، جس پر پہلے شہر کی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو تحفظات ہوئے اور پھر صوبے کی حکمراں پیپلزپارٹی نے بھی آواز بلند کرنا شروع کر دی۔

اس کا مظاہرہ گزشتہ سال رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے وقت سامنے آتا رہا۔ بالخصوص دسمبر میں اس معاملے نے نزاعی صورت اختیار کی اور صوبائی اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے رینجرز کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا۔ رینجرز کے کراچی آنے کے بعد پانچ اسمبلیاں آئیں اور چلی گئیں، لیکن کبھی رینجرز کے قیام کے معاملے کو منتخب ایوان میں نہیں لایا گیا، بل کہ ہمیشہ ایک سرکاری حکم کے ذریعے اس میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔ گذشتہ برس کئی بار متحدہ کی اعلیٰ قیادت نے بھی رینجرز کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی، لیکن اس نے بھی رینجرز کے حوالے سے صوبائی حکومت کے موقف کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے قبل 6 اکتوبر کو ڈی ایس پی اورنگی ٹاؤن فخر الاسلام نے چھے افراد کی گم شدگی پر اخبارات میں رینجرز کے خلاف اشتہار شایع کرادیے تھے، جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔