ہر سال یہی ہوتا ہے…

شیریں حیدر  اتوار 3 جنوری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ سب نے بھی دسمبر کا پورا مہینہ اسی کام میں صرف کیا ہو گا جس میں، میں نے کیا تھا، یعنی نئے سال کے لیے اپنے لیے مقاصد کا تعین کرنا  ( resolutions)  کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا… قراردادیں اپنے لیے خود ہی بنانا اور خود ہی منظور کرنا، یہ بھی عصر حاضر کا فیشن ہے۔

کچھ لوگ زبانی کلامی بھی طے کر لیتے ہیں، کچھ صرف دل ہی دل میں منصوبے بناتے ہیں اور کچھ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حلقہء احباب سے اپنے نئے سال کے منصوبے شئیر کرتے ہیں اور ان پر رائے مانگتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے فیس بک پر دوسروں کے نئے سال کے لیے منصوبے بناتے دیکھ کر میرے دل میں خواہش ہوئی کہ مجھے بھی اپنے لیے کچھ نہ کچھ سوچنا ہوگا۔

سال کے پہلے دن ہی میں نے سویرے سویرے اٹھ کر فیس بک کھولی کہ اپنی ڈائری پر اپنے منصوبے بنا کر پھر اپنے منصوبوں سے دنیا بھر کو آگاہ کروں تو فیس بک کے نوٹیفیکیشن سیکڑوں جمع تھے، ان میں سب سے اہم احباب میں ہونے والی لڑائی تھی جو رات بارہ بجے سے شروع ہوئی تھی اور مسلسل چلے جا رہی تھی، جس کسی نے سب سے پہلے نئے سال کی مبارک باد پوسٹ کی تھی اور اس کے بعد جن لوگوں نے اسے جوابی مبارک باد دی تھی، وہ سب زیر عتاب تھے… یہ ہمارا نہیں عیسائیوں کا نیا سال ہے … فلاں فلاں !! میں نے بھی سوچا کہ چلو اپنا ’’ حصہ ‘‘ ڈالا جائے سو گرما گرم جھگڑے کے بیچ سب کو نئے سال کی مبارک باد دے دی، توپوں کا رخ میری طرف مڑ گیا۔

آپ سب لوگ جو اس وقت ضرورت سے زیادہ مسلمانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، آپ سب کے لیے گزارش ہے کہ ایک نئے سال کے اوپر اتنی بحث انتہائی بے فائدہ ہے، آپ لوگ جب اپنی سالگرہیں مناتے ہیں، اپنے بچوں کی شادیوں کی تواریخ مقرر کرتے ہیں، اپنی چھٹیوں کے منصوبے بناتے ہیں، کہیں سفر کرتے ہیں،خریداری کرتے ہیں ، امتحانات لیتے اور دیتے ہیں، اپنے گیس پانی اور بجلی کے بل اور ٹیکس ادا کرتے ہیںتو ان سب کے لیے جو تواریخ آپ کو یاد رہتی ہیں وہ وہی ہیں جن کی رو سے یکم جنوری کو ہمارا نیا سال شروع ہوتا ہے ۔

ہم چاہے مسلمان سہی ، ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہء پاکستان سہی مگر ہمارے ہاں زبان سمیت سب کچھ بدیسی ہے ، ملک میں مستعمل کیلنڈر کی رو سے جب نئے برس کا آغاز ہو رہا ہے تو اس موقعے پر جو آپ کو نئے برس کے لیے تہنیتی پیغامات بھیج رہا ہے اسے لعن طعن نہ شروع کر دیں، بہتر ہے کہ اگر آپ مبارک باد کا تبادلہ نہیں بھی کرنا چاہتے تو خاموش ہو جائیں ، تمام قارئین کو نیا سال مبارک ہو!!!اچھا تو بات ہو رہی تھی میرے نئے برس کے لیے منصوبوں کی…

… سب سے پہلے مجھے نماز کی ادائیگی میںپابندیٔ وقت، خشوع اور خضوع اختیار کرنا ہے، ہر سال یہی تہیہ کرکے پہلے چند دنوں میں اپنے عہد پر قائم رہ پاتی ہوں، پھر لاکھ کوشش کرو، کچھ نہ کچھ ہر روز اور عین ہر نماز کے وقت پر ہوتا ہے کہ بھاگتے بھاگتے نماز پڑھی ، کبھی خالی فرائض پڑھ لیے ، کبھی بمشکل قضا کا وقت پکڑا جاتا ہے اور کبھی اگلی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، اب غفلت نہ ہو… اللہ سے دعا بھی ہے اور خود سے وعدہ بھی!!

باقاعدگی سے ورزش اور سیر ( walk) کو معمول بنانا ہے اور اپنا وزن کم کرنا ہے،اس کے لیے ظاہر ہے کہ کم اور سادہ خوراک بھی ہونا چاہیے ، سو اگلے برس کے لیے خود سے یہ وعدہ بھی کر لیا۔ ہاں مگر کچھ مواقع تو آتے ہیں جب خود کو رعایت دینا پڑتی ہے، کبھی گھر پر مہمان آ جائیں، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ بندہ مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے ان کے سامنے کچھ رکھے اور ان کا ساتھ نہ دے۔

مہینے میں دس دن تو کوئی نہ کوئی شادی یا سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے تو ان دنوں میں بھی تھوڑی بہت رعایت خود کو دینا پڑتی ہے، کبھی میکے سے کوئی سوغات آ جاتی ہے تو کبھی سسرال سے، زیادہ نہیں مہینے میں چار پانچ دن ہی ایسا ہوتا ہے، اب ایسی سوغاتوں کو کون کافر نہ چکھے؟ ہاہ… جب اتنا کچھ کوشش کے باوصف نہ چھوڑا جا سکتا ہو تو پھر وزن کیسے کم ہو گا، خود سے ہی اس سوال کا جواب نہیں ملتا، آپ کے پاس شاید کوئی جواب ہو؟

اس سال بہت سی کتابیں پڑھنا ہیں، وہ ساری کتابیں جو میں خود خرید کر خود کو تحفتاً دیتی ہوں ، وہ بھی جو مجھے مختلف اوقات میں دوست احباب سے تحفے میں ملتی ہیں اور وہ بھی جو کئی کئی مہینوں سے میرے پاس آئی پڑی ہیں اور ان پر اپنی رائے دینا ہے۔ دن تو کوئی لاکھ چاہے، چوبیس گھنٹوں سے زیادہ کا نہیں ہو سکتا مگر اب کے مجھے اپنی ترجیحات ذرا دوبارہ اور احسن طریقے سے سیٹ کرنا ہوں گی، اپنے دماغ کی تراوٹ کی خاطر کتب بینی کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت نکالنا ہو گا، میرے کمرے کے دروازے کے عین سامنے کتابوں کا شیلف ہے جس پر ’’ ان پڑھی ‘‘ کتابوں کا ڈھیر بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔

امید ہے کہ اس سال اس ڈھیر کے قد میں کمی ہو پائے گی۔ اس برس اپنے خاندان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا ہوگا، کوشش کر کے ان بزرگوں کو بھی ملنا ہو گا جن سے ملاقات ہوئے عرصہ بیت چکا ہے، ان میں سے کئیوں کے تو اب نام بھی بھول چکے ہیں اور کئیوں کے بارے میں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ دودھیالی رشتہ دار ہیں، ننہیالی کہ سسرالی!! یہ بھی علم نہیں کہ انھیں یاد ہے کہ ہم ان کے رشتہ دار ہیں یا وہ بھی ہماری طرح بھول چکے۔  عہد کیا ہے کہ اپنے خاندان اور خاندان سے باہر بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر مستحقین کی کفالت کرنا ہے، ہر ماہ اپنے اخراجات کو کم کر کے ایک بڑی رقم ناداروں کے لیے خرچ کرنا ہو گی۔

یہ عہد بھی ہر سال ہوتا ہے مگر ہر نئے دن میں اشیائے صرف میں نیا اضافہ منتظر ہوتا ہے۔ ہر چند ماہ میں حکومت ایک نیا منی بجٹ دے دیتی ہے، نت نئے ٹیکس عائد ہو جاتے ہیں اور اپنی جیب کا حال پتلا ہو جاتا ہے، اس لیے نیکی کا اتنا بڑا منصوبہ پایہء تکمیل نہیں پہنچ پاتا۔ سوچا تھا کہ حکومت یکم جنوری کو پٹرول کی قیمت میں دو چار روپے کی کمی کا اعلان کرے گی اور بجٹ میں پٹرول کے لیے مختص کردہ رقم میں سے جو بچت ہو گی اسی سے نئے سال میں نیکی کا آغاز کریں گے… مگر ، اب کیا ڈیزل والی گاڑی لے لیں ہم؟

سوچا ہے کہ اس برس کسی ایک جاہل کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے، چاہے خود پڑھائیں یا کسی اور ذریعے سے، یہی عہد گزشتہ برس بھی کیا تھا مگر ہوا یوں کہ سارا سال اس تلاش میں گزر گیا کہ کون مستحق ہے… بلکہ یوں کہیے کہ سارا سال یہ کوشش جاری رہی کہ کوئی کم جاہل مل جائے، مگر بے فائدہ!!

ایک اہم اور خاص سوچ جو چند برس قبل تک تو صرف عورتوں کے لیے مختص تھی، اب مرد حضرات بھی ہمارا شانہ بشانہ مقابلہ کرتے ہیں، بلا ضرورت اور بے شمار لباس بنانا، ہر روز ، ہر گلی کوچے میں کھل جانے والے برانڈز کی طرف سے ہمیں روزانہ ٹیلی فون پر پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ آئیں اور ہماری دکان پر پیسے لٹائیں، عہد کیا کہ جس طرح اب بلا ضرورت کھانا نہیں اسی طرح بلا ضرورت کوئی نیا کپڑا نہیں خریدنا، گئے وقتوں میں عید کے عید کپڑے بنتے تھے یا کسی شادی بیاہ پر، اب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم سب اپنی الماری کھول کر کھڑے ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ پہننے کو کچھ نہیں اور ایک کپڑا بھی اور رکھنا پڑجائے تواس کی جگہ نہیں ہوتی۔

ابھی اپنے لیے اتنی ہی resolutions لکھ پائی تھی کہ اندازہ ہوا کہ نئے سال کے آنے سے کچھ نیا نہیں ہوتا، وہی بارہ مہینوں، باون ہفتوں اور تین سو پنسٹھ دنوں کا سال ہے، وہی گھڑیوں کی بھاگتی ہوئی سوئیاں ہیں جنھیں نہ ہم تھام سکتے ہیں نہ ان کے ساتھ دوڑ سکتے ہیں، وقت کی رفتار ہم سے کہیں بڑھ کر ہے، کہاں ہم میں اتنی قوت ارادی ہے کہ ہم خود سے وعدے کریں اور پھر انھیں نبھائیں بھی، اس سال بھی وہی سب کچھ ہونا ہے جو اس سے پہلے ہوتا رہا ہے، کیا فائدہ resolutions  بنانے کا اور اکتیس دسمبر کو بیٹھ کر کاغذ کے اس ٹکڑے کو دیکھ کر خود پر کف افسوس ملنے کا… سالوں کے ہندسے چاہے جتنے بھی بدل جائیں، ہم کہاں بدل سکتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔