سانحہ منٰی؛ 2431 شہادتیں، حج کی تاریخ کا بڑا حادثہ

بشیر واثق  اتوار 3 جنوری 2016
حاجیوں کی اجتماعی تربیت کے پروگرام سے ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے ۔  فوٹو : فائل

حاجیوں کی اجتماعی تربیت کے پروگرام سے ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

مسلمان ہر سال فریضہ حج ادا کرنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں۔ 2015ء میں حج کے دوران منیٰ کے میدان میں رمی جمرات یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران ایسا سانحہ ہوا جس سے ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔ حج کے دوران کئی مرتبہ حادثات ہوئے ہیں مگر اس بار ہونے والا حادثہ سب سے المناک تھا۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعدادتقریباً 789 ہے جبکہ میڈیا رپورٹس اور متاثر ہونے والے 42 ممالک کے مطابق 2431 حاجی شہید ہوئے اور ابھی تک 400 سے زائد افراد لاپتہ ہیں ۔

اس سانحہ میں سب سے زیادہ ایران کے حاجی شہید ہوئے جن کی تعداد 464 ہے۔ افریقی ملک مالی کے 312 حاجی شہید ہوئے۔ نائیجیریا کے 274، مصر کے 190، بنگلہ دیش کے 137، انڈونیشیا کے 129، بھارت کے 114، کیمرون کے106، پاکستان کے 83 اور نائیجیر کے 78حاجی شہید ہو ئے، اس کے علاوہ بنگلہ دیش، الجیریا ، بینن، برکینا فاسو، برونڈی، چاڈ، چین، ایتھوپیا، جیبوتی، گیمبیا، گھانا، عراق، آئیوری کوسٹ ، اردن، کینیا، لبنان ، لیبیا، ملائشیا، ماریشش، مراکو، میانمر، ہالینڈ، اومان، فلپائن، سینیگال، صومالیہ، سری لنکا، سوڈان، تنزانیہ، تیونس، ترکی اور یوگنڈا کے حاجی شہید ہوئے۔

سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ یوں پیش آیا کہ حاجیوں کے دو ہجوم جمرات پل پر ایسے مقام پر آپس میں ٹکرا گئے جہاں پر دو تنگ راستے آپس میں ملتے تھے ، راستہ نہ ملنے اور پیچھے سے آنے والے حاجیوں کے دباؤ کی وجہ سے حاجی کچلے گئے ۔ سعودی حکومت کی جانب سے حج کے انتظامات پر غیر معمولی توجہ دینے کے باوجود ہجوم کو کنٹرول کرنے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں حج کے انتظامات پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

منٰی میں1997ء میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد ایسے خیموں کا بندوبست کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا جن کو آگ نہیں لگتی۔ خادم حرمین الشریفین شاہ سلمان نے اس افسوسناک سانحہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے حج کے انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے اور حادثے کی وجوہات جاننے کے لئے مکمل چھان بین اور تفتیش کے احکامات جاری کر دیئے تھے۔

سعودی حکام نے حادثے کی جو وجوہات بیان کیں ان کے مطابق افریقی ممالک سے آئے ہوئے حاجیوں نے ان احکامات کی پیروی نہیں کی جو آمدو رفت کے لئے جابجا رہنمائی کے لئے لگائے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ سانحہ پیش آیا۔ حادثہ اتنا بڑا تھا کہ ریسکیو کے ہزاروں کا رکن اور سینکڑوں گاڑیاں رات گئے تک کام میں مصروف رہے جبکہ سکیورٹی پر مامور ہزاروں کارندوں کو حادثے کے باوجود مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف حاجیوں کو دیکھ بھال اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔

سانحہ منیٰ میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے اس حادثے کو کچھ اس طرح بیان کیا۔

منیٰ کے سانحے میں زندہ بچ جانے والے مصری شہری عبداللہ الطیفی کے مطابق ’’میں نے دیکھا ایک شخص ایک وہیل چیئر (معذوروں کے لئے استعمال ہونے والی کرسی) پر پھسل کر گرا اور پھر بہت سے لوگ اس کے اوپر گرنے لگے۔ صورتحال اتنی بگڑی کہ لوگ سانس لینے کے لئے ایک دوسرے کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انسان لہروں کی طرح حرکت کر رہے تھے، اچانک آپ آگے کی جانب لڑھکنے لگتے تھے اور پھر اچانک ہی واپس پیچھے کی جانب گرتے چلے جاتے تھے۔‘‘

بھگدڑ سے بچ نکلنے والے ایک اور حاجی ڈاکٹر عبدالرحمن نے بتایا ’’میں نے دیکھا کہ اچانک لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے ہیں اور کچلے جا رہے ہیں، بزرگ اور خواتین کی چیخ و پکار سنی جا رہی تھی، وہ مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ میں نے اس جگہ سے نکلنے کی سرتوڑ کوشش کی، اور بالآخر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میری کوشش تھی کہ میں خیمہ بستی میں داخل ہو جاؤں لیکن یہاں سکیورٹی اہلکاروں نے راستہ روک لیا، وہ کسی کو بھی خیمہ بستی میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے جس کے باعث بحران اور زیادہ گھمبیر ہو گیا۔‘‘

برطانیہ میں مقیم حج کے دوروں کے انتظامات کی مشاورت فراہم کرنے والے کارکن مسٹر جعفری نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ منٰی میں پیش آنے والا سانحہ ایک وی آئی پی کی آمد پر دو راستوں کو بند کرنے کے باعث پیش آیا۔اسی طرح کی اطلاعات سعودی نیوز ایجنسیوں کے حوالے سے بھی سامنے آئی تھیں۔ نیوزایجنسی الدیار کے مطابق نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان السعود کے قافلے کو گزارنے کے لیے راستے بند کئے گئے تھے۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرائع نے ان اطلاعات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا تھا ۔ جس وقت سانحہ منیٰ پیش آیا تو پاکستانی حکام کا رویہ کچھ اس قسم کا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں وہ تو جب ایک غیر ملکی اخبار نے خبر شائع کی کہ سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والے حاجیوں میں 236 پاکستانی حاجی بھی شہید ہوئے ہیں تو پہلے تو سرکاری حکام نے اس خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا مگر جب عوام نے اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے پر شور مچایا تو تب معاملہ کی سنگینی سامنے آئی، حتیٰ کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو خصوصی احکامات جاری کرنا پڑے کہ لاپتہ حاجیوں کا فوری پتہ چلا یا جائے، پھر بھی کئی دن بعد جا کر اصل صورتحال سامنے آئی۔

مگر سرکاری حکام کے اس رویے کی وجہ سے عوام کو بہت دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم حکومت نے اچھا اقدام یہ کیا کہ شہید ہونے والے حاجیوں کے ورثاء کو پانچ لاکھ روپے فی کس اور زخمی ہونے والوں کے لئے دو لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان کیا۔

جب بھی اس قسم کے سانحات رونما ہوتے ہیں، ان پر کئی قسم کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ایران کے حکام نے اس واقعے کو سعودی حکام کی نااہلی قراردیا جبکہ ایرانی ردعمل کو خطے کی سیاست میں ایران، سعودی عرب تعلقات کے تناظر میں دیکھا گیا۔

آج تک حج کے موقع پر ہونے والے سانحات میں سے غالب اکثریت منیٰ کے میدان اور شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران ہوئی جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کن جگہوں اور کن شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی بڑا اہم ہے کہ حج کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں سے آنے والے لوگوں کو نظم و ضبط کے یکساں معیار پر کس طرح لایا جائے۔ حج کی ادائیگی کے لیے ایشیاء اور افریقہ کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے آنے والے عازمین حج کی معلومات اور تربیت معیاری نہیں ہوتی جس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ وہاں مجموعی معیار زندگی بہت پست ہے۔

ہم اپنے ملک کودیکھ لیں تو ملک کے اندر فہم و ادراک کے عمومی معیار میں بہت فرق ہے۔ اگر ہم حج کے دوران ہونے والے سانحات کا تجزیہ کریں تو سب سے اہم بات مسلمانوں میں نظم و ضبط کا فقدان ہے حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی نقطہ ہی نظم و ضبط ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات کا وقوع پذیر ہونا مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ہم عوام الناس میں نظم و ضبط پیدا کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ اگر ہر انسان خود ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کرے گا تو لاکھوں افراد کے اجتماع میں چھوٹی سی بے قاعدگی کو ایک بڑے سانحے میں بدلنے میں دیر نہیںلگے گی۔

جب حج کے لیے 20لاکھ سے زائد لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہونے کے باوجود آپ کو سو فیصد محفوظ حج کی ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ اتنے بڑے ہجوم کو طاقت کے زور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ سو فیصد محفوظ حج کی ضمانت اسی صورت میں فراہم کی جاسکتی ہے جب پوری مسلمان دنیا مل کر اسے محفوظ بنانے کے اقدامات نہیں کرتی۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ پوری دنیا میںعازمین حج کی تربیت کا یکساں نظام رائج کیا جائے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حج کرنے والے تمام افراد مناسک حج کی ادائیگی میں پوری طرح سے ماہر ہوں اور اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ کسی خطرے کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔

اس کے لئے پوری مسلم دنیا کے ماہرین اور اہلکاروں کو حج کے انتظامات سونپے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے ممالک سے آنے والے عازمین حج کی تعداد کا تعین کرنے کے بعد کسی بھی صورت زائد افراد کو اجازت نہ دی جائے ۔ مقامی افراد کے لئے بھی قانون بنایا جائے کہ وہ ایک مرتبہ حج کرنے کے بعد ایک خاص مدت کے بعد ہی حج کر سکیں گے یعنی انھیں دس، پندرہ سال کا وقفہ دینا ہو گا۔ اس سے بھی حاجیوں کی ایک مخصوص تعداد کا تعین کرنا آسان ہو گا۔

حج کے دوران ہونے والے حادثات:
ہر برس دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت کیلئے بیس لاکھ سے زائد افراد کے اس عظیم الشان اجتماع کے لئے ضروری انتظامات بجا طور پر ایک عظیم چیلنج ہوتا ہے جس سے سعودی حکومت بڑے اچھے طریقے سے عہدہ برا ہوتی ہے۔

عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کے لئے بہترین انتظامات کے باجود ہجوم میں بھگدڑ کااندیشہ لاحق رہتا ہے۔ حج کے دوران اب تک ہونے والے بڑے حادثات منیٰ کے میدان میں وقوع پذیر ہوئے۔ 24 ستمبر 2015ء کے علاوہ حج کے دوران ہونے والے سانحات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

٭ 11 ستمبر2015 کو مناسک حج کے آغاز سے کچھ روز قبل حرم شریف میں نصب کرین خراب موسم اور طوفان بادوباراں کے باعث نیچے آ گری جس کی وجہ سے 107افراد شہید اور 400 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ٭ 12جنوری 2006 کو منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران حاجیوں میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث 360 حاجی شہید ہو گئے۔

قبل ازیں مناسک حج کے آغاز سے ایک روز قبل حرم شریف کے قریب واقع ایک آٹھ منزلہ ہوٹل گرنے سے 73 افراد شہید ہو گئے جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو حج کے لئے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ٭ 22 جنوری 2005ء کو منٰی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ کے باعث 3 افراد شہید ہو گئے۔ ٭ یکم فروری 2004ء کو منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے 250 افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔٭ 11فروری 2003ء کو منٰی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے چھ خواتین سمیت 14حاجی شہید ہو گئے۔٭ 5 مارچ 2001ء کو منیٰ میں ہی بھگدڑ مچنے کے باعث 35 حاجی شہید ہو گئے۔

٭ 9 اپریل 1998ء کو منیٰ میں بھگدڑ سے 118حاجی شہید 180زخمی ہوئے۔٭ 15اپریل 1997ء کو منٰی کی خیمہ بستی میں آگ بھڑک اٹھنے کے باعث 343 حاجی شہید اور 1500سے زائد زخمی ہو گئے۔٭ 2 جولائی 1990ء کو منٰی میں حاجیوں کے لئے بنائی گئی سرنگ میں ہوا کی آمد ورفت کو کنٹرول کرنے والے نظام میں خرابی کے باعث 1426 حاجی دم گھٹنے کے باعث شہید ہو گئے جن میں غالب اکثریت ایشیائی باشندوں کی تھی۔

٭ 10 جولائی 1989ء کو حرم شریف اور اس کے بیرونی حصے میں دو حملوں کے دوران ایک شخص شہید اور 16 زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کے ذمہ دار 16 کویتی باشندوں کو گرفتار کر کے چند ہفتوں بعد سزائے موت دے دی گئی۔٭31 جولائی1987ء کو سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز نے ایرانی حاجیوں کی جانب سے غیر قانونی احتجاجی مظاہرے کو فرو کرنے کے لئے کارروائی کی جس کے نتیجے میں275 ایرانی باشندوں سمیت 400 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔٭دسمبر1975ء کو گیس سلنڈر کے باعث آگ بھڑک اٹھنے سے حاجیوں کی خیمہ بستی میں 200 سے زائد حاجی شہید ہو گئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔