مہاجرت: جنگ عظیم دوم کے بعدیورپ کا بدترین بحران

فرحان فانی  اتوار 3 جنوری 2016
ہزاروں تارکین وطن محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں جان کی بازی ہار گئے ۔  فوٹو : فائل

ہزاروں تارکین وطن محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں جان کی بازی ہار گئے ۔ فوٹو : فائل

   سال 2015ء دنیا بھر بالخصوص یورپ میں مہاجرین کی بڑی تعداد کے داخلے کے اعتبار سے اہم رہا ۔رواں برس میں شام اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے یورپ پہنچنے والوں کی مصدقہ تعداد10لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین(آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ ہجرت کے اس سفر کے دوران 3600 سے زائد پناہ گزین جاں بحق یا لاپتہ ہوئے ہیں ۔عالمی ادارے کے مطابق ان مہاجرین میں سے نو لاکھ ستر ہزار کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ میں پہنچے ہیں۔مختلف ممالک سے ہجرت کرکے پورپ آنے والے ان مہاجرین نے چھ یورپی ممالک کا رخ کیا ہے۔ ترکی سے بحیرۂ ایجین عبور کر کے یونان کے ساحل پر اترنے والے مہاجرین کی تعداد آٹھ لاکھ 31 ہزار سے زائد ہے ۔

مغربی مبصرین رواں برس ہونے والی مہاجرت کو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترین بحران قرار دے رہے ہیں ۔آئی او ایم نے کے مطابق یورپی ممالک میںہجرت کر کے آنے والے افراد میںسے آٹھ لاکھ کا تعلق مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے ہے۔ بحیرۂ روم عبور کرتے ہوئے یونان کے راستے یورپ میں  داخل ہونے والے ان مہاجرین میں سے چار لاکھ 55 ہزار کا تعلق شام سے ہے جو ملک میں جاری بدترین خانہ جنگی کے باعث اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔آئی او ایم نے یہ بھی بتایا ہے کہ رواں برس یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی تعداد 2014ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے ۔گزشتہ برس 2لاکھ 40 ہزار تارکین وطن یورپ پہنچے تھے۔

اوپر ذکر کیے گئے اعداد وشمار صرف ان تارکین وطن کے ہیں جنہوں نے پناہ کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی مہاجرین یورپی ممالک میں داخل ہو چکے ہیں جو جانچ پڑتال کے عمل سے نہیں گزرے۔ اعداد وشمار کی ایجنسی ای یو کے مطابق اس وقت تارکین وطن کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ملک جرمنی ہے۔جرمنی میں 3لاکھ 15ہزار سے زائد پناہ کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ہنگری مہاجرین کو پناہ دینے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہنگر ی میں پناہ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد 1لاکھ74ہزار55 سے زائد ہے۔

آئی او ایم کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس سال ہونے والی مہاجرت میں سب سے زیادہ تعداد تین بڑی اقوام کی ہے ،جن میں سے 50فیصد شامی ،20فیصد افغانی جبکہ تقریباً 7فیصد عراقی نمایاں ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مہاجرین میں مردوں کی تعداد 60فی صد سے زائد ہے۔

اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور ہجرت کے دوران بہت سے المناک واقعات بھی پیش آئے۔ اپریل 2015ء پانچ کشتیاں قریب دو ہزار تارکین وطن کو لیے بحیرۂ روم کے راستے یورپ کی جانب رواں دواں تھیں کہ اچانک حادثے کا شکار ہو گئیں۔ اس کے بعدمغربی میڈیا میں ’’یورپی مہاجرین کے بحران‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی۔ اس حادثے میں لگ بھگ 12 سو افراد لقمہ ٔاجل بن گئے تھے۔ یہ محض ایک حادثہ تھا جبکہ آئی او ایم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف لیبیا سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران 2800افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ بحیرۂ قلزم میں 3ہزار 4سوچھ افراد موجوں کی نذر ہوگئے۔

محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکنے والے تارکین وطن کی ناگہانی اموات پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے تشویش کا اظہار تو کیا ہی تھا لیکن ستمبر کے شروع میں ایک تین سالہ بچے ایلان کردی کی نعش کی تصویر کے منظر عام پر آتے ہی پوری دنیا ہل کر رہ گئی ۔ تین سالہ شامی بچہ ایلان کردی اپنے والدین کے ساتھ بحیرۂ روم میں سفر کے دوران اپنی ماں سمیت سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گیا تھا۔اس کی لاش ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑی پائی گئی تھی۔

ذرائع ابلاغ میں ایلان کی تصویر آنے کے بعد پوری دنیا بالخصوص یورپ میں تارکین وطن کے لیے ہمدردی کے جذبات کو فروغ ملا۔اس وقت سماجی رابطوں کی سائٹ ٹویٹر اس تصویر کے ساتھ’’انسانیت ساحل پر بہہ گئی‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈز میں رہا۔اس وقت برطانیہ کے اخبار انڈیپنڈنٹ نے سوال پوچھا کہ’’کیا اس مردہ شامی بچے کی یہ غیر معمولی پر اثر تصاویر بھی پناہ گزینوں کے لیے یورپ کے رویے اور پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکتیں تو پھر کیا چیز اسے تبدیل کرے گی؟‘‘ایک اورناگوار واقعہ ہنگری کی سرحد پر اس وقت پیش آیا جب مہاجرین ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور پولیس انہیں روک رہی تھی ۔

اس دوران ہنگری کے نجی ٹی وی چینل کی پیٹرا لاسزلونامی خاتون صحافی کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں وہ ایک مہاجر جو اپنا بچہ اٹھائے بھاگ رہا ہوتاہے،کو آگے ٹانگ رکھ کہ گرا دیتی ہے اور اس سے قبل وہ بھاگتی ہوئی ایک بچی کو زور دار لات مار کر گرا تی دکھائی دیتی ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پوری دنیا میں خاتون صحافی پر تنقید کی گئی اور پھر اسے چینل کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

شام میںگزشتہ چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے مستقبل قریب میں امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ وہاں سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ پڑوسی ممالک ترکی،لبنان،اردن اور دیگر یورپی ممالک میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔ جرمنی میںرواں سال گزشتہ برس کی نسبت چار گناہ زیادہ یعنی 8لاکھ سے زائد پناہ کی درخواستیں موصول ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

جرمنی نے پناہ گزینوںکی آباد کاری کے لیے ایک کوٹہ سسٹم متعارف کرایا ہے جس کے تحت متاثرین کو جرمنی کی مختلف ریاستوں کی آبادی اور ٹیکس انکم کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا جہاں وہ لوگ پناہ گزینوں کے لیے مخصوص کیمپوں میں زندگی گزاریں گے۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو مہاجرین کے لیے ’خوش آمدیدی پالیسی‘ کی بنا پر بہت زیادہ مقبولیت ملی ہے تاہم اب جرمنی میں تارکین وطن کی آباد کاری کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔جرمنی کے بعض قدامت پرست حلقے مہاجرین کی بڑی تعداد کے باعث اسلامائزیشن کے خوف کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق مہاجرت کا یہ سلسلہ فی الوقت رکتا نظر نہیں آ رہا۔ جرمن چانسلر کا اصل امتحان اب شروع ہو گا کہ وہ ابتدا ء میں تارکین وطن کی بحالی سے متعلق کیے گئے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کو کیسے یقینی بناتی ہیں۔

دوسری جانب یورپ کے بعض ممالک نے تارکین وطن کو خطرہ سمجھتے ہوئے ان کے داخلے پر پابندی لگانے کی کوشش بھی کی ہے ۔ہنگری نے چروع میں کچھ مہاجرین کو وصول کرنے کے بعد سربیا سے ملنے والی اپنی سرحد پرخندق کی کھدائی کے علاوہ آہنی باڑ بھی لگائی ہے تاکہ تارکین وطن کو روکا ہے جا سکے ۔

اسی طرح کے اقدامات جمہوریہ چیک نے بھی کیے ہیں۔رواں برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے اپنے ایک بیان میں جمہوریہ چیک کو مہاجرین کے خلاف ’’سسٹیمیٹک وائیلیشن ‘‘ کا مرتکب قرار دیا تھا۔جمہوریہ چیک کے صدر میلوس زیمان مسلمانوں کی اپنے ملک میں آمد کو خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مسلمان وہاں جلد یا بدیر اسلامی شریعت کا قانون نافذ کر دیں گے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہم اس طرح نسوانی جمالیاتی پہلوکی تاب سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ مہاجر خواتین سر سے پاؤں تک برقعے میں لپٹی ہوتی ہیں جبکہ ان کے چہرے پر بھی ایک جالی دار کپڑا ہو تا ہے۔ ‘‘یورپ کے سابق مشرقی ،اشتراکی ممالک کا مہاجرین کے ساتھ رویہ بھی کافی معاندانہ ہے۔

جیسا کہ سلواکیہ نے کہا ہے کہ’’ ہم صرف 200شامیوں کو پناہ دیں گے اور وہ بھی اس شرط پر کہ وہ باشندے عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ ہمارے پاس مساجد نہیں ہیں۔‘‘مبصرین کے درمیان اصطلاحوں کی ایک جنگ بھی جاری ہے۔ معتدل اور انسان دوست حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ لوگ ’’معاشی مہاجر‘‘ نہیں ہیں بلکہ ’’ پناہ گزین‘‘ ہیں جبکہ بہت سے یورپی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ جو لوگ ترکی سے ہو کرآرہے ہیں انہیں ’’محفوظ‘‘ نہیں بلکہ’’ بہتر زندگی‘‘ کی تلاش ہے۔

مسلم ممالک کی بات کی جائے تو صرف چار ممالک ایسے ہیں جنہوں نے کھلے دل سے مہاجرین کو خوش آمدید کہا۔ وہ ہیں ترکی لبنان ،اردن اور مصر۔مہاجرین کی داد رسی کے باب میں خلیجی ممالک کا رویہ انتہائی افسوسناک رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چھ انتہائی مالدار خلیجی ریاستوں قطر،عمان ،کویت،سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے شامی مہاجرین کیلئے کوئی زمین فراہم نہیںکی۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس بیان کی تردید کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق ان ممالک نے مہاجرین کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ ایران کا معاملہ تو بالکل الگ ہے کیونکہ وہ شام میں جاری جنگ کا براہ راست فریق بن چکا ہے۔

بشار الاسد کی فوج کو اسلحہ اور انٹیلی جنس کے شعبے میں بھرپور مدد کے علاوہ افرادی قوت بھی ایران کی جانب سے فراہم کی جارہی ہے۔اس کے برعکس ترکی نے پناہ گزینوں کو سہولیات کی فراہمی میں بھرپور کردارادا کیا ہے ۔دوسری جانب اردن اور لبنان کی حکومتیں مالی طور پر خلیجی ممالک سے کہیں زیادہ کمزور ہیںلیکن وہ اپنی حیثیت میں کام کر رہی ہیں۔

اس وقت لبنان کی کل آبادی کا ہر چھٹا شخص مہاجر ہے اور وہاں اب حالات یہ ہیں کہ حکومت مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث اپنے شہریوں کو بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مشکلات کا شکار ہے۔ اس سارے منظر نامے کی روشنی میں کہنا پڑتا ہے کہ دولت مند خلیجی ممالک کی مسلسل بے حسی اور عدم توجہی ان کے عالم اسلام کی سربراہی کے دعوے کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔

اب دنیا 2016ء میں داخل ہو چکی ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہر روز تسلسل کے ساتھ ہزاروں لوگ شورش زدہ علاقوں سے نکل کر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کی ان تارکینِِ وطن کی اکثریت مذہب اسلام سے وابستہ ہے ۔ان حالات میں دو بڑے سوال ابھرتے ہیں ۔ایک یہ کہ آیا مسلم ممالک روایتی بے حسی ترک کر کے اپنے بھائی بندوں کی مدد کریں گے؟ اور دوسرا یہ کہ کیایورپی یونین میں شامل ممالک اسلامائزیشن کے خوف کو مسترد کر کے مہاجرین کی انسانی بنیادیوں پر مدد جاری رکھیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔