کرفیو زدہ راتیں

نصرت جاوید  منگل 30 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عید کے دن کچھ لوازمات، رسومات اور فرائض ہوا کرتے ہیں جنھیں صرف گھر کے مرد ہی پورا کر سکتے ہیں۔

میرا مسئلہ مگر یہ ہے کہ جب تک صبح کے اخبارات مکمل طور پر نہ پڑھ لوں خود کو سویا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ اس لیے عید کے دن خلاف معمول علی الصبح اُٹھ کر اخبارات کا انتظار کرتا ہوں اور اس عید پر مزا آ گیا، جب اس ملک کو پارسا بنانے کے خبط میں مبتلا ایک علامہ نے ایک پورا کالم میری مذمت میں صرف کر دیا۔ خبط پارسائی میں مبتلا اس موصوف نے میرا نام تو نہ لیا مگر ایک ایسا لقب ضرور دے دیا جو اس کی دانست میں کافی لوگوں کو اس بات پر مشتعل ضرور کر دے گا کہ وہ اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے پر چھری رکھنے سے پہلے میرے گھر کا رُخ کریں اور مجھے عید کے پُر مسرت موقع پر عبرت کا نشان بنا دیں۔ ہوا مگر یہ کہ بس اتنا سوچ کر ہنسی چھوٹ گئی کہ پارسائی کے فروغ کے لیے لکھنے والوں کی تحریروں کا اندازِ بیاں مجھے قبض کشا گولیوں کی افادیت کا احساس کیوں دلاتا ہے۔

فی الحال تو مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ بشارت پیر نام کا ایک لکھاری ہے۔ اس نے انگریزی کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے انگریزی نام کا آسان ترین ترجمہ ہے :’’کرفیو زدہ راتیں۔‘‘ یہ کتاب ایک ایسے کشمیری نے لکھی ہے جو اننت ناگ کے ایک گائوں میں 1977 میں پیدا ہوا۔ نوجوانی کی دہلیز پر پہنچا تو اس کے اردگرد نوجوانوں کی اکثریت ’’آزادی‘‘ کے نعرے لگا رہی تھی اور فوجی تربیت کے لیے سرحد پار کرنے کے خواب دیکھتی تھی۔ بشارت پیر کا باپ ایک سرکاری ملازم تھا اور نانا اور ماں نے ساری عمر تعلیم کے شعبے کو دے ڈالی تھی۔ اس کے گھر والوں کو اس کے اندر سلگنے والی آگ کی بھنک پڑی تو پریشان ہو گئے۔

اسے سمجھا بجھا کر علی گڑھ بھیج دیا گیا۔ اس کے والدین کی تمنا اسے مقابلے کے امتحان میں بٹھا کر ایک اعلیٰ سرکاری افسر بنانے کی تھی۔ مگر اس نے صحافی بننے کا تہیہ کر لیا اور بڑی تگ و دو کے بعد خود کو بالآخر سری نگر سے رپورٹنگ کرنے کے قابل بنالیا۔ ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ بشارت پیر کی آپ بیتی نہیں، مقبوضہ کشمیر کی ایک پوری نسل کی کہانی ہے۔ یہ تاریک راہوں میں مارے جانے والے ہزاروں نوجوانوں کی داستانِ الم ہے۔ مر جانے والے تو شہید کہلائے۔

مگر جو زندہ بچ گئے وہ اپنی حراست کے دوران ایسے ہولناک تشدد سے گزرے کہ عام زندگی کے قابل نہ رہے۔ ہر آہٹ پر خوف ان کا مقدر بن گیا۔ ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ سچی حکایتیں ہیں، ان نوجوانوں کی جنھیں بہت ہی تجربہ کار ماہرین نفسیات کی ضرورت ہے جو کشمیر تو کیا پورے بھارت میں شاذ و نادر ملتے ہیں اور اگر ملتے ہیں تو بھاری فیس مانگتے ہیں اور ایسی دوائیاں لکھتے ہیں جو نچلے متوسط طبقے کے لوگ خرید ہی نہیں سکتے۔ چند نوجوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی بحالی کے لیے بڑے پیچیدہ آپریشنوں کی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے۔ جن کے پاس یہ آپریشن کروانے کے وسائل ہیں وہ ڈاکٹروں کو اپنا دُکھ بتانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں۔

’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ پڑھنے کے بعد میرا ذہن فروغ پارسائی کے خبط میں مبتلا جنونی لکھاریوں کے بارے میں پریشان ہو گیا ہے۔ انھیں احساس ہی نہیں کہ ہمارے خطے میں کئی جگہوں پر حقیقی زندگی میں سوچنے سمجھنے والے نوجوانوں کی ایک نہیں تین چار نسلیں کس عذاب مسلسل سے گزر رہی ہیں۔ پارسائی کو فروغ دینے کے نام پر اپنا دھندہ چلانے والوں کو نظرانداز کر دیں تو پاکستان کے ان سیکڑوں نوجوانوں کا خیال آ جاتا ہے جو اپنے دن کے کئی گھنٹے انٹرنیٹ پر ضایع کر دیتے ہیں۔ مختلف ناموں سے فیس بک اور ٹویٹر پر ایسی انگریزی میں ’’پیغامات‘‘ لکھتے رہتے ہیں جہاں DID کے بعد اکثریت ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ ایسی غلطیوں کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر ان گالیوں کا کیا جواز ہے جو کسی بھی وجہ سے مشہور ہوجانے والے کالم نگاروں یا اینکر پرسنوں کو منوں کے حساب سے پہنچائی جاتی ہیں۔

ذرا سوچیے۔ اسلام آباد سے نکل کر پشاور جانے والی موٹر وے پر جائیں تو مردان آ جاتا ہے۔ وہاں سے راستے دیر اور سوات کو لے جاتے ہیں۔ 1990 کی دہائی کے آغاز تک سوات کو امن کا گہوارہ اور جنتِ بے نظیر سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کے عوام کی اکثریت سیاحوں کو اپنے درمیان پا کر ذاتی مہمانوں جیسی عزت اور محبت دیا کرتی تھی۔ مگر پھر1994 آ گیا۔ مولوی صوفی محمد آئے اور بتدریج اسی کا داماد مولوی فضل اللہ اُبھرا۔ سوات کا ذکر کرتے ہوئے کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ یہ فضل اللہ جب ریڈیو پر اپنا پیغام دیتا تو سیکڑوں کی تعداد میں مالاکنڈ کی عورتیں اپنے زیور اس کے قدموں میں نچھاور کر دیتیں۔

ہمارے بڑے شہروں کی ہر دوسری نکڑ پر آج کل Mass Communication سکھانے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والی بہت ساری تنظیمیں ہیں جو ہر دوسرے مہینے کسی نہ کسی پنج ستارہ ہوٹل میں Communication Strategy کے نام پر ورکشاپس وغیرہ منعقد کیا کرتی ہیں۔ اپنی تمام تر تلاش کے باوجود میں آج تک یہ سمجھنے سے محروم ہوں کہ مولوی فضل اللہ کے پیغام میں وہ کونسا جادو تھا جس نے سوات کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مسخر کر دیا۔ کوئی ٹھوس کتاب تو رہی ایک طرف، آج تک اس ضمن میں کوئی ایک ڈھنگ کا مضمون بھی پڑھنے کو نہیں ملا ۔ یہ بات درست ہے کہ 2009 کے آپریشن کے ذریعے مولوی فضل اللہ کو سوات سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ مگر اس کے پیغام کا کیا توڑ نکالا گیا ہے۔

اگر کوئی توڑ نکالا گیا ہے تو ملالہ پر حملہ کیوں ہوا اور اس حملے کے بعد انٹرنیٹ کو ان ظالم تصویروں سے کیوں بھر دیا گیا جن کا مقصد دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ اس پر کوئی حملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اپنے باپ کے ہمراہ پیدل چلتی ہوئی ایئر ایمبولینس میں بیٹھی تھی۔ برطانیہ سے اس کی جو تصویریں آئی ہیں، ان میں تو اس کے سرپر کوئی پٹی یا زخم کا نشان نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ عجیب سا سوال بھی کہ اگر ملالہ پر واقعی کوئی حملہ ہوا ہے تو وہ امریکنوں نے کرایا ہوگا تا کہ ’’تبدیلی کے نشان‘‘ نے اسلام آباد سے جنوبی وزیرستان کی سرحد تک پہنچ کر پاکستان کے لوگوں میں ڈرون حملوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی ہے اس کی شدت کو مٹایا جا سکے۔

انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد اسے دنیا بھر میں پھیلا دینے والوں کا دعویٰ تھا کہ ان کی تخلیقی کاوشوں کے سبب ایک Communication Revolution آگیا ہے۔ دنیا سکڑ کر اب ایک چھوٹا سا گائوں بن گئی ہے جہاں کا ہر مکین اپنے ہمسایے کو خوب جانتا ہے۔ ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ پڑھنے کے بعد میں چیخ کر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ کم از کم ہمارے ملک کی حد تک انٹرنیٹ نے فہم و دانش کو فروغ نہیں دیا۔ انسانوں کے درمیان باہمی رشتوں کو محبت بھری فہم سے گہرا کرنے کے بجائے علم کی جستجو کو ختم کردیا ہے۔ ہم دوسروں کے دلوں اور ذہنوں تک خلوص کے ساتھ پہنچنے کے بجائے انھیں گالیاں دے کر اپنے سے دور کرنا چاہ رہے ہیں۔ نفرتوں کے مارے لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو رہا ہے جو اپنے اپنے شکار ڈھونڈنے کی لگن میں مصروف ہے۔ ’’مارو۔ مارو، بچ کر نہ جانے پائے‘‘ انٹرنیٹ کے بنائے اس ’’گائوں‘‘ میں چار سو سنے جانے والی پکار ہے۔ مجھے خدشہ ہے ایسی آوازوں کو بند کرنے کے لیے کہیں ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ ہمارا بھی مقدر نہ بن جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔