اس آگ سے مت کھیلو

اوریا مقبول جان  پير 4 جنوری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے آزاد کہلانے والے اور کارپوریٹ سرمایہ سے جنم لینے والے میڈیا کی عمر دس سال کے لگ بھگ ہے۔ گیارہ ستمبر کے طوفان، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کے بعد اس میڈیا کا ظہور ہوا۔ چونکہ اس وقت مغرب کے میڈیا، دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کی نفرت کا صرف اور صرف ایک ہی موضوع تھا۔ طالبان۔ دنیا کا ہر ظلم، جہالت، جبر اور بربریت ان کے ساتھ وابستہ کردی گئی۔ عالمی برادری کے ساتھ کا نعرہ سب سے مقبول نعرہ تھا۔ اس عالمی برادری میں عزت حاصل کرنے کو کامیابی قرار دیا جاتا تھا۔

پاکستان میں میڈیا نے جس کسی کو مطعون کرنا ہوتا اسے طالبان کا خیر خواہ اور ایجنٹ کہہ کر پکارا جاتا۔ یہاں تک کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو بھی نفرت کا نشانہ بنانا مقصود ہوتا تو یہ کہہ کر بات بڑھائی جاتی کہ ان میں طالبان کے حمایتی موجود ہیں جو انھیں اپنا اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ دوسرا اہم تصور جو پاکستانی میڈیا نے لوگوں کو سکھایا کہ اگر ہم امریکا یا عالمی برادری کا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔

شیخ رشید جیسے وزیراطلاعات اور اسی طرح پرویز مشرف کے ہمنواؤں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی آوازیں آج بھی میڈیا کے سرد خانوں میں محفوظ ہوں گی کہ اگر ہم امریکا کا ساتھ نہ دیتے تو ہمارا تورا بورا بن جاتا۔ امریکی پالیسی کا ساتھ دینے کے بعد جو ہم پر بیتی وہ ایک نہیں کئی سو تورا بورا بناچکی ہے اور ہم آج بھی آگ و خون کے اس کھیل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی میڈیا نے دنیا کا ایک بہت بڑا ولن تراشا تھا جس کا نام طالبان تھا۔ گزشتہ دس سال افغانستان کی ہر تباہی، بربادی، جہالت، گمراہی، کم علمی، حکمت کی کمی اور ہٹ دھرمی سے پوری قوم کو جنگ میں جھونکنے جیسے تمام الزامات ملا محمد عمر اور طالبان پر لگائے گئے۔

امریکا، عالمی برادری اور ٹیکنالوجی کے قصیدے گائے گئے۔ اس دوران اگر معدودے چند لوگ افغانستان کی تاریخ بیان کرتے، دو عالمی طاقتوں کی شکست کا منظر دہراتے تو انھیں طالبان کا ایجنٹ اور سرپرست ہونے کے الزامات کا سامنا ہوتا۔ میڈیا کا یہ حملہ اسقدر شدید تھا کہ بڑے بڑے علمائے کرام اور مفتیان عظام بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمیں طالبان والا اسلام نہیں چاہیے۔ کسی کو یہ عالمی اصول تک یاد نہ رہا کہ غیر ملکی فوج کے خلاف لڑنا کسی بھی قوم کا بنیادی اخلاق حق ہے جسے افغان طالبان ادا کررہے ہیں۔

وقت کروٹ بدلتا ہے، ٹیکنالوجی اور عالمی برادری کی زبان پر صرف ایک فقرہ باقی رہ جاتا ہے کہ ’’پورے خطے کے امن کی کنجی طالبان کے پاس ہے‘‘ وہ جو طالبان کی پاکستان میں موجودگی پر سیخ پا ہوتے تھے، گز گز لمبی زبانوں سے انھیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی بتاتے تھے، انھیں کے روبرو طالبان قیادت اور حقانی نیٹ ورک سمیت سب کے سب مری کے قریب مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں۔

کسی ’’عظیم‘‘ تجزیہ نگار کی آنکھیں حیرت سے نہیں پھٹتیں۔ قطر کے دفتر سے لے کر قندوز اور ہلمند کی فتح تک اور روس کے صدر پیوٹن کی ملا اختر منصور سے ملاقات تک، سب کچھ بیت جاتا ہے، لیکن ایسے لگتا ہے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس نے دس سال جس ایجنڈے اور پس منظر کے ساتھ ایک زہر آلود بیانیہ اختیار کیے رکھا آج کس طرح امن کی تمام امیدیں طالبان سے لگائے بیٹھا ہے۔ یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ عالمی میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔

اس لیے کہ گزشتہ دس سالوں میں عالمی اور مقامی میڈیا نے جس طرح اپنے آقاؤں کی پالیسی کا ڈھول بجایا، اب اسی طرح انھیں واپس بھی لوٹنا پڑا۔ یہ واپسی کیسے ہوئی؟ طالبان محبوب کیسے ہوگئے؟ اس لیے کہ اب دنیا کے سامنے پیش کرنے اور دنیا کو خوفزدہ کرنے کے لیے بڑا خطرہ داعش وجود میں آگیا ہے۔ طالبان تو ان کی بنائی ہوئی قومی ریاستوں کی حدود کو مانتے تھے۔ دفتر خارجہ بھی رکھتے تھے اور سفارت خانے بھی، عالمی طاقتوں سے کاروبار بھی کرتے تھے اور کسی عالمی ایجنڈے کے طور پر اپنی سلطنت کی حدود بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ داعش نے ان سب تصورات کے خلاف کام کیا تو سب کو طالبان یاد آگئے۔ اب دہشت گرد صرف ایک ہے اور وہ ہے داعش، اسے نیست و نابود کرنا ہے۔

امریکا، روس، سعودی عرب اور ایران، چاروں بظاہر ایک دوسرے کے دشمن لیکن دولت اسلامیہ کو تباہ کرنے کے لیے متفق۔ کسی بھی قسم کی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد ہے۔ لیکن اس اتحاد کے اندر دو چھوٹے اتحاد بھی ہیں۔ ایک سعودی عرب اور اس کے 34 حواری اور دوسری جانب ایران اور روس کے زیر اثر ممالک۔ یہ دونوں اتحاد دراصل مردہ جانور کے گوشت پر قبضہ کرنے کے لیے بنے ہیں۔

یعنی لڑائی تو بنیادی طور پر داعش کے خلاف ہے جس کے پاس اس وقت عراق اور شام کے تیس فیصد علاقے ہیں لیکن ہدف یہ ہے کہ شام کی حکومت کس کے پاس رہے گی۔ اس قدر شدید لڑائی جس میں کروڑوں بے گھر اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہو، وہاں فتح کے بعد کا سماں مردہ جانور کے گوشت جیسا ہی ہوگا جس پر قابو پانے کے لیے دونوں گروہ لڑیں گے۔

لیکن اس لڑائی میں جس خوفناک روش کو میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ اس قدر خطرناک ہے کہ اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو گھر گھر لڑائی پھیل جانے کا شدید خطرہ ہوگا۔ میڈیا کے وہ سب ’’عظیم‘‘ لکھاری جو افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک بیانیہ اپنائے ہوئے تھے کہ یہ امن کے دشمن ہیں، اسلام کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جہالت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، ظالمانہ سزائیں ان کا طریق کار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود بھی لوگ ان کے ہاں جاکر لڑتے رہے اور دنیا بھر سے ان کا ساتھ دیتے رہے۔

اس معاملے میں امت میں مسلکی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں تھی کیونکہ طالبان میں شیعہ اور سنی موجود تھے اور برسراقتدار افغان حکومت میں بھی۔ لیکن جو لوگ اس حقیقت سے آنکھیں چرا کر اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ داعش دراصل عراق کی ایک شیعہ حکومت کے مظالم کی ردعمل تھی اور اس ردعمل کے نتیجے میں وہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کرگئی ہے، وہ لوگ اس امت کو اس بری طرح تقسیم کریں گے کہ پھر شاید امن کو ترس جائیں۔

سعودی عرب اور اس کے حواری ایک جانب ہیں اور وہ ہر اس گروہ کی مدد کررہے ہیں جو شام میں بشارالاسد کی حکومت گرادے، جبۃ النصرہ سے لے کر جیش الاسلام تک سب سنی ہیں جب کہ دوسری جانب ایران، عراق اور لبنان سے حزب اللہ ایک شیعہ اتحاد ہے۔ دونوں اتحاد مسلمان ملکوں سے لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں جو شام میں جاکر لڑرہے ہیں۔ ایک کو مقامات مقدسہ کے تحفظ کا نعرہ دیا گیا ہے اور دوسرے کو خلافت اسلامیہ کی سنی تعبیر کے نعرے پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں جہاں پر لڑرہے ہیں وہاں داعش وجود ہی نہیں رکھتی۔ داعش کو عراق اور شام کے لوگ صحرا کی حکومت کہتے ہیں۔ اس کے پاس کوئی بڑا شہر نہیں ہے۔ مزارات مقدسہ دمشق اور بغداد میں ہیں وہاں دوسرے گروہ آپس میں لڑرہے ہیں اور مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ بشارالاسد حکومت قائم رکھی جائے یا گرادی جائے۔ ایک جانب ایران اور اس کے اتحادی جب کہ دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ہیں۔ دونوں نے لوگوں کو اس خوفناک لڑائی میں دھکیلا ہے۔ لیکن دونوں کی منافقت یہ ہے کہ وہ اسے داعش اور دہشت گردی کا نام دے رہے ہیں۔ اس خوفناک اور خطرناک جنگ میں سچ قتل ہورہا ہے اور سچ کا قتل اس امت کو خطرناک سمت لے جائے گا۔

پاکستانی میڈیا پر چھائے ہوئے بعض لوگ اپنے مخصوص مفادات اور مخصوص تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس ملک میں ایک عجیب و غریب خوف کی فضا پیدا کررہے ہیں۔ چند افراد شام جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا اس قدر واویلا کیا گیا کہ یوں لگا کہ جیسے بہت بڑی آفت کھڑی ہوگئی۔

اس سے پہلے گزشتہ ایک سال سے مقامات مقدسہ کے تحفظ کے نام پر دوسرے گروہ کے لوگ جاتے رہے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ خاموشی اختیار کی۔ توجہ نہ دینا اور خاموشی اختیار کرنا بہت بہتر تھا۔ یہ جو چند لوگ ہوتے ہیں انھیں بہر طور اپنے پاگل پن میں جانا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کا جانا ایک بہت بڑی خبر بنتا ہے تو ایسے میں آپ ان کے لیے بھرتی کو تیز کررہے ہوتے ہیں۔ داعش کو بھرتی کے لیے کسی پراپیگنڈے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے پاکستان کا میڈیا کافی ہے۔

وہ میڈیا جو کسی اور کے مفادات کی کہانی سناتا ہے جو دس سال افغان طالبان کو شکست دلواتا رہا اور اب انھیں امن کا راستہ بتاتا ہے۔ لیکن خبردار! یہ جنگ ویسی نہیں، اسے مغربی طاقتیں اور ایران اور سعودی عرب کی حماقتیں مل کر مسلکی جنگ میں تبدیل کرچکی ہیں۔ کسی کو علم نہ ہو تو شام کے محاذ پر جاکر دیکھ لے۔ اس آگ میں اترنے کا مقصد گھر گھر لڑائی ہوگی۔ یہ طالبان نہیں کہ کل میز پر لابٹھاؤ گے۔ یہاں بدترین تعصب اور علاقائی بالادستی کی خوفناک نحوست موجود ہے۔ میڈیا کو علم ہی نہیں کہ وہ کس جنگ میں کود رہا ہے یا پھر میڈیا میں ایسے عناصر کی بہتات ہے کہ جو دانستہ یا نادانستہ امت کو اس خوفناک لڑائی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔