شمیم اختر؛ ملک کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور

صدف آصف  پير 4 جنوری 2016
انسان چاہے، تو اپنی محنت کے بل پر ہر چیز حاصل کر سکتا ہے، بس اس میں کام کی لگن ہونا ضروری ہے، شمیم۔ فوٹو : فائل

انسان چاہے، تو اپنی محنت کے بل پر ہر چیز حاصل کر سکتا ہے، بس اس میں کام کی لگن ہونا ضروری ہے، شمیم۔ فوٹو : فائل

ٹرک چلانا ایک خالصتاً مردانہ پیشہ سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی خاتون ایسا کرنا چاہے، تو اسے خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم شمیم اختر  نے  اس کارمحال کو کر دکھایا۔ گوجراں والا سے تعلق رکھنے والی شمیم اختر کی عمر 53 سال ہے۔ وہ راول پنڈی میں رہائش پذیر ہیں۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن شمیم کا تعلق ایک زمیں دار گھرانے سے ہے۔ وہ ایک میٹرک پاس سادہ خاتون ہیں، جنہوں نے مالی مجبوریوں کے سبب ٹرک چلا کر بار برداری کا کام شروع کیا۔

شمیم  اختر کے شوہر مالی ہیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں، جنہیں وہ پڑھا لکھا کر ایک اعلیٰ شہری بنانے کی خواہش رکھتی ہیں۔ تاہم ان کے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے، شوہر کی قلیل آمدنی میں بچوں کی تعلیم کا خرچ نکالنا ایک مشکل امر ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے  اپنی آمدنی بڑھانے کا فیصلہ کیا اور ٹرک ڈرائیوربن گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ شروع میں جب وہ ٹرک لے کر نکلتی تھیں، تو بیٹا منع کرتا تھا کہ اتنی بڑی گاڑی نہ چلائیں، تاہم وہ حصول رزق حلال میں جُتی رہیں۔

شمیم  پہلے ایک کمپنی میں کام کرتی تھیں، اس کے ساتھ ایک ووکیشنل اسکول میں سلائی بھی سکھاتی تھیں، مگر وہ اسکول بند ہوگیا، جس کی وجہ سے ان کی آمدنی شدید متاثر ہوئی، چناں چہ کسی نے انہیں ڈرائیونگ سیکھنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت ان کے پاس ڈرائیونگ فیس کے پیسے بھی نہیں تھے، کسی سے ادھار لے کر ڈرائیونگ سیکھی، پھر اسی اسکول میں ڈرائیونگ سکھانے کا کام کیا۔ پھر انہوں نے وین بھی چلائی، اس کے بعد ایک دن اسلام آباد میں بڑے ٹرک چلانے کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس ہو گئیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اسلام آباد کی ٹریفک پولیس کی تربیت کو سراہا، اور کہا کہ ’’میں آج ان کی وجہ سے  اس قابل ہوئی کہ بڑی شاہ راہوں پر بہ آسانی ٹرک چلا سکوں۔‘‘

شمیم نے بتایا کہ جب انہیں لائسنس مل گیا اور وہ ٹرک چلانے لگیں، تو کچھ مہینوں بعد ہی ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد ڈرائیوروں نے ان کی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ اب تو یہ حال ہے کہ وہ نہ صرف انہیں بطور ٹرک ڈرائیور کے عزت دیتے ہیں، بلکہ اگر کسی روٹ پر ان کا ٹرک خراب ہو جائے، تو  وہ آگے بڑھ کر ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ شمیم کہتی ہیں کہ اس پیشے میں آنے کے بعد میں نے اپنے اندر کی عورت کو مار دیا۔ انہوں نے دعا کی کہ خدا سب عورتوں کی حفاظت کرے۔ شمیم کی یہ بھی خواہش  ہے کہ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں،جس کی وجہ سے خواتین کو گھر سے باہر کمانے کے لیے نکلنا  پڑے۔ تاہم اگر اس قسم کی مشکل آن پڑے، تو پھر عورت کو مضبوط اور بہادر بننا پڑتا ہے۔

شمیم نے کہا کہ خاتون ٹرک ڈرائیور کو اپنے آپ کو عورت نہیں سمجھنا  چاہیے۔ اپنی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے والی خاتون کو باہر کی دنیا میں آکر یہ بھول جانا ضروری ہوگا کہ وہ صنف نازک سے تعلق رکھتی ہے۔ انہیں مردوں کی دنیا میں صرف اپنے کام پر دھیان دینا پڑے گا۔

ان سب باتوں کے باوجود وہ اپنے اس تجربے کو اچھا قرار دیتی ہیں۔ ان کے مرد ڈرائیور  انہیں بے حد عزت دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے کہ ایک خاتون اتنے بڑے ٹرک کی ڈرائیور ہیں، تاہم کچھ ایسے بھی ہیں، جو انہیں اس شعبے میں دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ عورت ہونے کی وجہ سے وہ اس کام کو صحیح طرح سے انجام نہیں دے پائیں گی، اس لیے اگر وہ چاہیں، تو کوئی دوسرا پیشہ اختیار کریں، یا چھوٹی گاڑی چلائیں۔

شمیم اختر کی خواہش ہے کہ ان کے پاس اپنا ذاتی ٹرک ہو، وہ ذرایع اِبلاغ میں اپنی پذیرائی پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کی ایک تمنّا اسلام آباد میں میٹرو بس چلانے کی بھی ہے، وہ اس کے لیے درخواست بھی دے چکی ہیں۔

شمیم پہلی بار باقاعدہ ڈرائیور کی حیثیت سے، اپنا ٹرک راول پنڈی سے آزاد،جموں و کشمیر تک گئیں۔ اس وقت ان کے ٹرک پر اینٹیں لدی ہوئی تھیں۔

خواتین ٹرک ڈرائیور کو ایک بڑی مشکل کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب رات میں طویل سفر درپیش ہو۔ اس سلسلے میں ڈرائیوروں کی ایک ایسوسی ایشن  خواتین  ڈرائیور کو متنبہ کرتی ہے کہ ’’خواتین اپنا ٹرک پارکنگ کے عقب میں کھڑا نہ کریں، نہ ہی ٹرکوں کے درمیان سے گزرنے کی غلطی کریں۔‘‘

شمیم کا خیال ہے کہ انسان چاہے، تو اپنی محنت کے بل پر ہر چیز حاصل کر سکتا ہے، بس اس میں کام کی لگن ہونا ضروری ہے۔ اس شعبے میں آنے کے لیے تھوڑا سخت جان اور محنتی بنیں گے، تو منزل آسان ہو جائے گی۔ ان کے مطابق خواتین کو  قدرت نے بے تحاشا صلاحیتیں عطا کی ہیں، بس انہیں بروئے کا لانے کی دیر ہے۔ عورت جسمانی طور بڑی گاڑیاں چلانے کے لیے ناموزوں لگتی ہے، تاہم اس بارے میں اب رائے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔