سائنس بنی سرمائے کی باندی

محمد عثمان جامعی  پير 4 جنوری 2016
 آتشیں اسلحہ جتنی آسانی سے اور آزادانہ دست یاب ہوگا اتنی ہی زیادہ اموات ہوں گی۔ یوں زندگیوں کو بارود میں جلاتا یہ مسئلہ امن و امان کے ساتھ صحت سے بھی متعلق ہے. فوٹو: اے ایف پی

آتشیں اسلحہ جتنی آسانی سے اور آزادانہ دست یاب ہوگا اتنی ہی زیادہ اموات ہوں گی۔ یوں زندگیوں کو بارود میں جلاتا یہ مسئلہ امن و امان کے ساتھ صحت سے بھی متعلق ہے. فوٹو: اے ایف پی

امریکا کو دنیا میں کہیں تشدد اور دہشت گردی گوارا نہیں اور واشنگٹن کی انتظامیہ اپنے دیش واسیوں کے تحفظ کے لئے تو اس قدر حساس ہے کہ کسی کے حملہ آور ہونے کا امکان بھی اسے نیست و نابود کردینے کے لیے کافی ہے۔ چوکسی کا یہ عالم کہ اسکول کے طالب علم کی ساختہ گھڑی کو بم سمجھ کر اس 14 سالہ بچے کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ امریکا میں رہتے بستے اور وہاں پہچنتے ہر مسلمان پر خوردبین نصب کہ کہیں وہ اچانک کسی امریکی شہری پر نہ پھٹ پڑے۔ امریکی باشندے کی جان اس قدر قیمتی کہ وہ کہیں جاسوسی کرتا بھی پکڑا جائے تو رہائی اور وطن واپسی کے لیے جان لڑادی جاتی ہے مگر انہی امریکی باسیوں کی زندگی سے ایسی بے اعتنائی!

امریکا میں ہر روز 282 اور ہر سال 32 ہزار افراد ایک ایسے سبب سے ہلاک ہوجاتے ہیں جس کا سدباب انتظامیہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، لیکن جانوں سے یہ کھلواڑ روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔ یہ سبب ہے ’’گن وائیلنس‘‘ (gun violence) آتشیں اسلحے سے ہلاکتیں امریکا کا ایک اہم داخلی مسئلہ ہے۔ لیکن امریکی انتظامیہ اس سے چشم پوشی ہی نہیں کر رہی بلکہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ اس مسئلے کے تدارک کے لیے کچھ کیا جائے، کیوں؟ جواب کی تلاش سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مسئلے کے ’’تدارک کے سدباب‘‘ کے لیے کیا کیا جارہا ہے۔

عام طور پر امریکا میں صحت سے متعلق مہلک ترین مسائل سرطان، امراضِ قلب، منشیات کی لت سمجھے جاتے ہیں، مگر ایسا نہیں۔ انسانی جانوں کے لیے سب سے ہلاکت خیز مسئلہ اور صحت کا بحران ہے ’’آتشیں اسلحے سے تشدد‘‘۔ اسے امریکا کے بعض حلقے صحت کا بحران اس لیے قرار دیتے ہیں کہ یہ امریکی شہریوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس وقت امریکا کا ہر شہری پستولوں اور بندوقوں کی زد میں ہے۔ کوئی محفوظ نہیں، لیکن اس حقیقت کو ان ڈالروں نے چھپا رکھا ہے جو نیشنل رائفل ایسوسی ایشن (NRA) سیاست دانوں کی انتخابی مہمات پر لٹاتی ہے، تاکہ اس تنظیم کے وابستگان کے اسلحے کے بیوپار پر کوئی آنچ نہ آئے۔ یہ اسلحے کے بیوپاری ایسا کوئی قانون منظور نہیں ہونے دیتے جو ان کے دھندے میں رکاوٹ ڈالے۔

امریکا میں بے شمار ہاتھوں میں موجود لاتعداد بندوقیں انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں کیا ہونا چاہیے تھا؟ وہی جو امریکا میں جان لیوا ٹریفک حادثات کا سبب کاروں کی تیاری میں نقص اور سگریٹ کے سرطان کا باعث بننے کی حقیقت سامنے آنے کے بعد ہوا۔ ان معاملات پر سائنسی حقائق تک رسائی حاصل اور قانون سازی کی گئی۔ یوں سائنسی تحقیق کی مدد سے ان مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

اب آئیے آتشیں اسلحے سے تشدد کے مسئلے کی طرف، جسے مؤثر قوانین بنا کر اور آتشیں اسلحے، خاص طور پر جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے قواعد سخت کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسی کوئی قانون سازی ہتھیارساز اداروں کو برداشت نہیں۔

این آر اے نے اپنے کاروباری مفادات کی بقاء کے لیے بڑا خوب صورت نعرہ ایجاد کیا ہے، ’’اچھے لوگ بندوقوں کے ساتھ‘‘ لیکن اپنے ملک کو اسلحے سے پاک دیکھنے کے خواہش مند امریکی اس نعرے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں گلی محلوں میں مزید بندوقیں نہیں چاہئیں اور وہ کم اسلحے کے ساتھ زیادہ محفوظ ہیں۔

امریکا میں اسلحے کی فراوانی کیا رنگ لارہی ہے، اس کا ایک ثبوت حال ہی میں ریاست میسوری کے شہر فرگوسن میں ہونے والی خوں ریزی کا واقعہ ہے۔ جہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ طور پر مسلح سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد حالات خراب ہوگئے تھے۔ جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق اس واقعے کے بعد ریاست میسوری میں آتشیں اسلحے سے ہلاکت کے واقعات میں 16 فی صد اضافہ ہوگیا۔ اس معاملے میں یہ ریاست امریکا میں سرفہرست ہے جہاں اِس نوعیت کی ہلاکتوں کی شرح دیگر ریاستوں سے 13 اعشاریہ 8 فی صد زیادہ رہی ہے اور اس واقعے کے بعد یہ نسبت 47 فی صد بڑھ گئی ہے۔

سیدھی سے بات ہے کہ آتشیں اسلحہ جتنی آسانی سے اور آزادانہ دستیاب ہوگا اتنی ہی زیادہ اموات ہوں گی۔ یوں زندگیوں کو بارود میں جلاتا یہ مسئلہ امن و امان کے ساتھ صحت سے بھی متعلق ہے اور کسی نفسیاتی مرض کے شکار افراد کے معصوم لوگوں پر گولیاں برسا دینے کے واقعات سامنے رکھتے ہوئے آتشیں اسلحے کی فراوانی اور صحت کا تعلق مزید واضح ہوجاتا ہے۔ لیکن اپنے شہریوں کی جان پر جان لٹاتی امریکی حکومتیں صورت حال کو اس طرح دیکھنے پر تیار نہیں۔

یہیں وہ انکشاف ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ اپنے ملک کی سیاست اور جمہوریت کو زر خرید لونڈی بنالینے والے امریکی سرمایہ دار کتنے سفاک اور کس قدر ڈھیٹ ہیں۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ امریکا میں امراض کی روک تھام کے سرکاری اداروں پر قانوناً یہ پابندی عائد ہے کہ وہ کوئی ایسی تحقیق نہیں کرسکتے جو صحت عامہ پر آتشیں اسلحے کی بہ آسانی اور آزادانہ خرید و فروخت کے اثرات سے بحث کرتی ہو۔ یہ ہے ہتھیاروں کے سوداگروں کی طاقت۔

اس پابندی کا ’’سہرا‘‘ ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن جے ڈکے کے سر ہے، جن کی کاوشوں سے 1996 میں کانگریس نے ایک قانون منظور کیا، جس کی رو سے ایسی کوئی بھی سائنسی تحقیق ممنوع قرار پائی جو آتشیں اسلحے کی ملکیت اور لوگوں کی صحت کے درمیان کوئی تعلق ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ موصوف سے موسوم یہ قانون ڈکے ترمیم کہلاتا ہے۔ اسلحہ بنانے والوں کے دھندے کی محافظ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے زر کی چمک سے وجود پانے والا یہ کالا قانون آج کسی بھی ایسی مؤثر پالیسی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے جو امریکا میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ کو روک سکے۔

SAN BERNARDINO کے سانحے، جس میں سماجی خدمات کے ایک مرکز میں منعقدہ تقریب پر حملہ کرکے 14 افراد کی جان لے لی گئی۔ جس کے بعد جے ڈکے کا ضمیر جاگ چکا ہے اور وہ اپنی ہی تخلیق ڈکے ترمیم کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے ہیں۔

اس المیے کے بعد ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی تعداد نے کانگریس کی عمارت کے سامنے جمع ہوکر ڈکے ترمیم کے خلاف احتجاج اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر 2 ہزار سے زیادہ طبیبوں کی دستخط کردہ عرض داشت بھی پیش کی گئی، جس میں سفاکانہ ڈکے ترمیم ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امریکا میں 1996 تک، جس سال یہ ترمیم سامنے آئی، تقریباً 5 لاکھ افراد آتشیں اسلحے کا نشانہ بن کر جان گنوا چکے تھے۔ یہ ترمیم آنے کے بعد ایسی ہر تحقیق کا راستہ بند ہوگیا جو اسلحے کے، ہر پابندی سے ماورا، بیوپار پر سوال اٹھاتی ہو۔ بندوقیں بکتی رہیں، اور ان سے اگلتے شعلے زندگیاں نگلتے اور گھاؤ لگاتے رہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر Bindu Kalesan کہتے ہیں کہ بندوق کے ذریعے تشدد، سگریٹ نوشی کی طرح 100 فیصد صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف ڈکے ترمیم کے خالق جے ڈکے اپنی اس کارستانی پر ایک خط کے ذریعے اظہارِندامت کرچکے ہیں۔ ’’ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ اسلحے کے پھیلاؤ کی راہ میں حائل ڈکے ترمیم کے طفیل صرف گذشتہ سال امریکا میں آتشیں اسلحے سے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کے 353 واقعات ہوچکے ہیں۔

اسلحے اور صحت میں ناتا ڈھونڈنے کی کھوج پر پابندی امریکا میں صحت عامہ سے متعلق حکومت کی مرکزی ایجنسی Centers for Disease Control and Prevention (سی ڈی سی) کے ذیلی ادارے National Center for Injury Prevention کے 1993 میں کیے گئے ایک تحقیقی مطالعے کے بعد لگائی گئی۔ یہ تحقیقی مطالعہ بتاتا ہے کہ گھر میں اسلحے کا ہونا اندرون خانہ قتل (قصداً، حادثاتی یا خودکشی) کا خطرہ بڑھا چکا ہے۔ جیسے ہی یہ تحقیق سامنے آئی، نیشنل رائفل ایسوسی ایشن، سینٹر فار انجری پریوینشن کی بندش کے لیے سرگرم ہوگئی۔ اسی سرگرمی سے ہزاروں افراد کے خون سے رنگی ڈکے ترمیم نے جنم لیا۔
نیویارک ٹائمز کی 2011ء کی ایک اشاعت کے مندرجات کے مطابق نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سی ڈی سی آتشیں اسلحے سے متعلق کسی بھی تحقیقی مقالے کی نقل نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کو فراہم کرتا ہے۔ دیکھا آپ نے کس طرح سائنس سرمائے کی باندی بن گئی۔

ہتھیاروں کے بیوپاری امریکی صدر سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔

14 دسمبر 2012 کو ریاست کنکٹی کٹ میں واقع سینڈی ہاک ایلیمنٹری اسکول میں اس وقت قیامت برپا ہوگئی جب ایک 20 سالہ نوجوان اسکول میں گھس گیا اور گولیاں برسا کر 20 بچوں اور اسٹاف کے 6 ارکان کو خون میں نہلادیا۔ اس واقعے کے بعد صدر باراک اوباما نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے سی ڈی سی کو ہدایت کی کہ آتشیں اسلحے کے ذریعے تشدد کے اسباب پر تحقیق کی مالی اعانت کرے، مگر اس ہدایت پر اب تک عمل نہیں کیا گیا۔

اس سب سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہتھیاروں سے مال بنانے والے امریکی سرمایہ دار کتنے سفاک اور طاقتور ہیں اور ریاست کس طرح ان کی غلامی کر رہی ہے۔ امریکا ہو یا دنیا، ان سرمایہ داروں کا خریدار صرف ایک ہے ’’خوف‘‘۔ بس اِس خوف نامی گاہک کو زندہ رکھنے اور اس کی ضرورتیں بڑھاتے رہنے کے لیے یہ اجل فروش سرمایہ گر امریکا میں اور بیرون ملک کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اسلحہ کی فروخت اور امریکا سمیت عالمی طاقتوں کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔