مئیر تو آیا نہیں، کمشنر کو بھی ہٹادیا گیا!

سید سبط حسان رضوی  منگل 5 جنوری 2016
ایک جانب پنجاب میٹرو بس سے لیکر دیگر نئے ترقیاتی منصوبوں میں مصروف عمل ہے اور دوسری جانب کراچی میں اب تک بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہی طے ہو کر نہیں دے رہا۔ فوٹو: فائل

ایک جانب پنجاب میٹرو بس سے لیکر دیگر نئے ترقیاتی منصوبوں میں مصروف عمل ہے اور دوسری جانب کراچی میں اب تک بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہی طے ہو کر نہیں دے رہا۔ فوٹو: فائل

ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ میرا کمشنر کراچی کے آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شعیب احمد صدیقی اخبار کے صحافیوں سے ملاقات کرنے کے خواہشمند تھے۔ میں بھی اپنے اخبار کی نمائندگی کے لیے موجود تھا۔ کمشنر کراچی پرنٹ میڈیا کے تمام صحافیوں کو ناموں سے جانتے تھے۔ اس غیر رسمی ملاقات میں شہر کراچی کو موضوع ہونے کی بناء پر شہر قائد سے متعلق کئی معاملات زیر بحث آئے۔ مسائل کا انبار تھا لیکن کمشنر صاحب خاصے پُرامید دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے صحافیوں کی رائے لی اور بتایا کہ اب میں اِس عہدے کا حق ادا کرکے دکھاؤں گا۔ اُن کی باتوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کی تقرری سے کئی کرپٹ عناصر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

شعیب احمد صدیقی جب کمشنر کراچی بنے تو اُن کے سامنے عجیب الجھا ہوا سا کراچی موجود تھا۔ اِن بے پناہ مسائل میں سے بیشتر کا حل وہ ڈھونڈ سکتے تھے لیکن اگر وہ نہیں ہورہا تو اُس کی وجہ نااہلی نہیں بلکہ فنڈز کی کمی تھی۔ کمشنر کراچی کے مطابق سٹی گورنمنٹ کے پاس یوں تو بہت سے ادارے ہیں البتہ اگر صرف کے ایم سی کو ہی بہتر انداز میں چلایا جائے تو انہیں حکومتِ سندھ سے بھیک کی ضرورت نہ پڑتی۔ اب ایسی صورت میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی ترقی کرے؟

یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ روز کمشنر کراچی کو عہدے سے ہٹا کر سید آصف حیدر شاہ کو کمشنر کراچی کا چارج دے دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت نے اپنی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے؟ ایک جانب پنجاب میٹرو بس سے لیکر دیگر نئے ترقیاتی منصوبوں میں مصروف عمل ہے اور دوسری جانب کراچی میں اب تک بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہی طے ہو کر نہیں دے رہا۔ میئر کراچی کو اختیارات کا ایسا لولی پاپ پکڑایا گیا ہے جو صرف نام سے اچھی لگتی ہے۔ کراچی کی بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم مینڈیٹ حاصل کر لینے کے بعد بھی سندھ حکومت کے اشاروں پر ہی ناچے گی۔ گویا ہر معاملے پر اگر سندھ حکومت ہی نے برسرِ اقتدار رہ کر اپنی من مانی کرنا ہے تو عوام کی جانب سے ووٹ دیکر چنے گئے کاؤنسلرز اور چیئرمین کا فائدہ کیسا؟

یہی نہیں بلکہ سندھ حکومت کراچی سمیت سندھ بھر کی ترقی کو بالائے طاق رکھ کر وفاق سے رسہ کشی میں مصروف ہے۔ گزشتہ دنوں رینجرز اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان چپقلش نے میئر کراچی کے معاملے کو مزید دیوار سے لگا دیا ہے۔ دوسری طرف کمشنر کراچی کو عہدے سے فارغ کرنے کا فیصلہ تو سمجھ سے بالا تر ہے۔ 2 روز سے شاہراہ فیصل اور اطراف میں بد ترین ٹریفک جام رہا۔ اس دوران کمشنر کراچی مسلسل مرمتی کام کو جلد مکمل کرنے کے احکامات جاری کرتے رہے۔ خدا جانے کہ سندھ حکومت کس روش کو اختیار کئے ہوئے ہے۔ کبھی وفاق اور سندھ حکومت تو کبھی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم۔ ان تمام تر باتوں کا براہِ راست اثر کراچی کی ترقی پر پڑ رہا ہے۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والا شہرِ قائد اس وقت اپنے نئے نامزد میئر کی راہ تک رہا ہے۔ یوں تو شعیب احمد صدیقی کے دور میں مکمل ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تعداد اچھی خاصی ہے لیکن کچھ اہم کاموں پر نظر ڈال لیتے ہیں۔

ڈرگ روڈ پر ٹریفک جام کا مسئلہ

کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے اپنے عہدے سے برطرفی سے قبل عرصے سے ڈرگ روڈ کے مسئلے کو 2 روز کے ترقیاتی کام کے ذریعے حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر بدقسمتی سے اگلے ہی روز ان سے یہ عہدہ چھین لیا گیا۔

مہران انڈر پاس کی تعمیر

یہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مہران ہوٹل کے قریب انڈر بائی پاس کو سندھ حکومت کے ساتھ موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا۔

ایڈل جی ڈنشا روڈ کی تعمیر

صدر میں 1000 اسکوائر فٹ پر محیط ایڈل جی ڈنشا روڈ کا حالیہ قیام بھی کمشنر کراچی کی مرہون منت ہے۔ جہاں برقی قمقموں اور بیٹھنے کی جگہ فراہم کرکے روشنیوں کے شہر کا اصل چہرہ واضح کیا گیا ہے۔

صدر پارکنگ پلازہ کی بحالی

گوکہ اس بحالی کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ البتہ شعیب صدیقی کی اس کاوش کو ضرور سراہنا پڑے گا کہ پارکنگ پلازہ میں کھڑی کی جانے والی گاڑیوں کے مالکان کی آسانی کے لیے صدر تک فری شٹل سروس کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل اس معاملے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔

چارجڈ پارکنگ کا نظام

شہر بھر میں غیر قانونی پارکنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ جسے کمشنر کراچی نے فوری طور پر قانونی رنگ دیا اور کسی بھی چال بازی سے بچا جاسکے اس غرض سے کے ایم سی کے عملے کو مخصوص جیکٹس بھی فراہم کی گئیں۔

کیا آپ سندھ حکومت کی جانب سے کمشنر کراچی کو ہٹائے جانے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

سید سبط حسان رضوی

سید سبط حسان رضوی

سبط حسان نجی ٹی وی چینل میں بطور رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انٹرٹنمنٹ اور ہلکے پھلکے موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی فیس بک آئی ڈی ہے www.fb.com/sibteHR ، جبکہ ٹوئٹر پہ انہیں twitter.com/sibteHR پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔