لاحاصل کوپ21

شیخ جابر  بدھ 6 جنوری 2016
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

دسمبر میں موتیے کے کھِلتے کھِلکھِلاتے پھول کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ ایسی ہی حیرانی کا سامنا مجھے گزشتہ ماہ نومبر میں بھی ہوا، جب بیگم صاحبہ نے موتیے کے تازہ پھولوں کا مژدہ سنایا۔ یہ اُن کے پسندیدہ پھول ہیں۔

میں نے فوراً ہی اُن کی اصلاح کرنی چاہی کہ نومبر میں کہیں یہ پھول بھی کھِلتے ہیں؟ لیکن اُس وقت شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے بہ چشمِ خود وہ پھول دیکھے اور اب دسمبر میں … یہ منظر دوبارہ دیکھنے کو ملا۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں موسم بہت تیزی سے تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھارت کے شہروں اور کراچی میں پڑنے والی شدید گرمی نے جہاں نئے ریکارڈ قائم کیے، وہیں ہزاروں خاندان بھی خانما برباد ہوئے۔ کینیڈا سے ایک عزیز کا فون آیا وہ بتا رہے تھے کہ وہاں اب تک موسم میں حدت ہے۔

ایک عرصے کے بعد وہاں ’’گرین کرسمس‘‘ منایا جا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ غیر معمولی طور پر وہاں اِس برس اب تک برف نہیں پڑی۔ ورنہ ہر کرسمس سے قبل ماحول برف کی سفید چادر اوڑھ چُکا ہوتا ہے اور وائٹ کرسمس کہلاتا ہے۔ کینیڈا اور امریکا کو چھوڑیں خود ہمارے پیارے پاکستان میں، کراچی میں دسمبر کی آخری رات سرد ترین راتوں میں شمار ہوا کرتی تھی۔

اِس برس یہ حال ہے کہ دسمبر کا اخیر 30 درجے سینٹی گریڈ سے بھی زائد تک چلا گیا۔ ملک کے ایک حصے میں لوگ برف باری کے مزے لے رہے ہیں تو دوسرے حصے میں لوگوں کو پسینے آ رہے ہیں۔ یہ ہی حال اِس سے گزشتہ ماہ یعنی نومبر کا تھا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر نومبر معلوم تاریخ کا گرم ترین مہینہ گزرا ہے۔ یہ صرف نومبر یا خزاں ہی پر منحصر نہیں رہا 2015ء کی بہار بھی گرم ترین بہار تھی۔

این او اے اے، کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق2015ء کی گرمیاں بھی معلوم تاریخ کی گرم ترین گرمیاں تھیں۔ نومبر ساتواں مسلسل گرم ترین مہینہ تھا اور مجھے خدشہ ہے کہ دسمبر کہیں آٹھواں مسلسل گرم ترین مہینہ نہ ہو۔ اعداد و شمار کے مطابق 11 میں سے9 ماہ گرم گزرے۔ اِس موسمی تغیر و تبدل نے جہاں ایک جانب انسانوں کو شدید پریشانیوں اور ہلاکتوں سے دوچار کیا وہیں، نباتات، حیوانات اور جمادات بھی اِس سے شدید طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

بے موسم پھولوں کا کھِلنا اِس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جِس کی طرف کسی کی توجہ ہی مبذول نہیں ہوتی۔ آج کسی کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ وہ فطرت کے مظاہر کی طرف توجہ دے سکے۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ لوگوں کو اور ہمارے بچوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ کون سے پھول کِس موسم میں ہوتے ہیں اور کس پھول کی خوشبو کیسی ہے۔

ہمارے بچوں نے کبھی تتلیاں نہیں پکڑیں، جگنو نہیں دیکھے۔ وہ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے دور ہیں۔ وہ نہیں جانتے شفق کیا ہے، چاندنی رات کیسی ہوتی ہے۔ تاروں بھرا آسمان کیسا لگتا ہے۔ کوئل کیسے کُوکتی ہے ، پَپیہا کیسے بولتا ہے، چاندنی راتوں میں چکور کی اونچی اُڑانیں ہمارے بچوں نے کبھی نہیں دیکھیں اور تو اور شاید ہی کِسی نے غور کیا ہو کہ شہروں میں ہمارے بچوں کو کھیلنے کو تو کُجا دیکھنے کو بھی زمین نہیں ملتی ہے۔ یہ جدید دور ہے اور ہم ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن اِس ترقی نے ہمیں فطرت سے دور کر دیا ہے۔

بات ہو رہی تھی2015ء کے موسمی شدت کی۔ اِس برس کم از کم دو خطرناک مظاہر ظہور پزیر ہوئے۔ ایک تو عالمی سطح پر کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی کثافت400 پارٹس فی ملین تک جا پہنچی۔ دوسرے برطانوی محکمہ موسمیات کے مطابق اوسط زمینی درجہ حرارت جب سے کہ ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، پہلی مرتبہ ماقبل صنعتی دور سے 1درجے آگے بڑھ گیا ہے۔

ماحولیاتی سائنس دانوں کے نزدیک یہ ایک تشویش ناک امر ہے۔ اُن کے نزدیک مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ کیے چلے جا رہے ہیں۔ اِس ضمن میں اقوامِ متحدہ بھی کاوشیں کر رہی ہے۔30 نومبر2015ء سے 21 دسمبر تک پیرس میں سالانہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اِسے کوپ21 کہا گیا۔ یعنی کانفرنس اوف پارٹیز21۔1992ء سے یہ سلسہ جاری ہے، اِس لحاظ سے یہ21 ویں کانفرس تھی۔

اگر1997ء کے کیوٹو پروٹوکول سے دیکھا جائے تو11 ویں کانفرنس تھی۔ اِس کانفرنس کا بجٹ186.87 ملین امریکی ڈالر تھا۔ اب اسے لطیفہ ہی کہا جائے گا کہ اِس بجٹ کا بڑا حصہ اُن کمپنیوں نے دیا جِن کی پھیلائی ہوئی آلودگی سے زمینی ماحول تباہی سے دوچار ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر سے سیکڑوں مندوبین نے پیرس کا رُخ کیا۔ تُند و تیز مباحثے ہوئے۔ حاصل کیا ہوا؟ بابائے۔ ماحولیات پروفیسر جیمس ہینسین اِسے ’’فراڈ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا معاملہ یہ ہے کہ جِس طرح وہ عالمی امن اور بھائی چارے کے قیام میں یکسر ناکام نظر آتی ہے، اِسی طرح ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں بھی وہ سراسر ناکام رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام سے متصلاً قبل اور آج تک جتنی جنگیں اور اُن میں جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انسانی تاریخ کی کُل ہلاکتیں اِس سے کم ہی ہوں گی۔

یہ ہی حال آلودگی پھیلا پھیلا کر زمین کو ختم کرنے کا ہے۔1992ء سے آج تک اقوامِ متحدہ کی کاوشوں کا یہ حال ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق جوں جوں ماحولیات کی بات کی گئی، زمینی ماحولیات اور آلودگیوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج بھی حال یہ ہے کہ عملی طور پر تو آلودگی میں اضافے کا کام ہو رہا ہے اور زبانی کلامی طور پر کہا جا رہا ہے کہ زمین کو بچانا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ لمحہ عالمی تبدیلی کا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ اوباما صاحب کی ماحولیات سے متعلق قابلیت معلوم۔ جب کہ پروفیسر جیمس ایڈورڈ ہینسن (29 مارچ 1941ء) کولمبیا یونیورسٹی میں شعبہ ِارض و ماحولیات میں ایڈجنک پروفیسر ہیں۔ ماحولیات سے متعلق اپنے کام اور خدمات کی وجہ سے جیسا کہ اوپر کہا گیا، بابائے ماحولیات کہلاتے ہیں۔ آپ نے ماحولیاتی کانفرنس ’’کوپ21‘‘ کو گفتند، نشستند و برخاستند سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ آپ کا کہنا ہے کہ عملی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا صرف وعدے اور باتیں ہیں، اِسی لیے وہ اِس معاہدے کو ’’فراڈ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

کانفرنس کا ہدف اقوامِ عالم کے مابین یہ معاہدہ ہے کہ زمینی درجہِ حرارت کو ماقبل صنعتی انفجار دور کے تناسب سے دو درجہ سینٹی گریڈ کمی کی جانب لایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہدف قابلِ حصول ہے؟ اِس کے حصول کے لیے ہمیں رکا زی ایندھن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پھیلاؤ کو ختم کرنا ہو گا۔ آج ہماری تمام موٹرگاڑیاں اِسی ایندھن سے چلتی ہیں۔ آج ہمارے گھر وں میں جو بجلی آتی ہے وہ کوئلہ جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑا ذریعہ یہ بجلی گھر ہیں۔

کیا ہم میں سے کوئی ’’برق اور بھاپ‘‘ مطلب یہ کہ بجلی اور گاڑی کے بغیر زندگی کا تصور کر سکتا ہے؟ آج عالمی فضائی آلودگی میں سب سے بڑی حصے دار دو بڑی طاقتیں ہیں۔ چِین اور امریکا۔ ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ علی الترتیب24 اور 14 فی صد آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ یعنی عالمی آلودگی کا 38   فی صد۔ کیایہ اپنے بجلی گھر اور کارخانے بند کرنے پر اور موٹریں روک دینے پر راضی ہو جائیں گے؟ یہ ہی سبب ہے کہ 1997ء میں کلنٹن انتظامیہ نے کیوٹو پروٹو کول پر دستخط تو کر دیے تھے لیکن یہ منظوری کے لیے کبھی سینیٹ میں پیش بھی نہیں کیا گیا۔

جب ہم اپنے ہاں کسی کو کچرا یا پلاسٹک کی تھیلیاں جمع کر کے آگ لگاتے دیکھتے ہیں تو ہمیں آگ لگ جاتی ہے۔ ہم فوراً بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ہم ہی ہیں اور ہمارے ہی لوگ ہیں جو زمین پر آلودگی پھیلانے میں مشغول ہیں۔ نیز یہ کہ ہم ماحولیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

واقعہ یہ ہے کہ سب کا یہی حال ہے۔28 ستمبر 2009ء کو برطانوی روزنامہ ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ماہرِ ماحولیات پروفیسر شیلن ہوبر کہتے ہیں کہ امریکی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور 29 جنوری2015ء کو روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ ’’کرس مونی‘‘ کی ایک رپورٹ شایع کرتا ہے عنوان ہے۔ ’’امریکی اب بھی سائنسی طور پر جاہل ہیں۔‘‘ جب حال یہ ہو تو کیا کسی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے؟

آج سائنس دان زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ اول تو وہ عالمی سیاست کاروں سے لے کر عام عوام تک پزیرائی سے محروم ہیں۔ لیکن اگر ماحولیاتی سائنس دانوں کی بات مان بھی لی جائے تب بھی میرے نزدیک یہ ایسا ہی ہو گا گویا جس کے سبب بیمار ہوئے اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لی جائے۔ جب تک عقیدے کی سطح پر تبدیلی نہیں آتی کچھ نہیں ہونے والا۔ آزادی اور ترقی پر یقین رکھنے والے کو انفرادیت سے اوپر اُٹھنا کیوں کر نصیب ہو؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو آزاد منڈی کی معیشت منہدم ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔