انفرادیت کو نمایاں کرنے کی وبا

محمد سعید آرائیں  بدھ 6 جنوری 2016

ملک میں بڑھتے ہوئے وی آئی پی کلچر کے ساتھ اب نان وی آئی پی افراد میں بھی خود نمائی اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کی وبا بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور عوام کے لیے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں تو سیاستدان اقتدار میں آتے ہی وی آئی پی بننے کے لیے ہیں، جب کہ وی وی آئی پیز شخصیات دہشت گردی کے خطرے کی آڑ میں اپنی سرکاری سیکیورٹی میں مسلسل اضافہ کر چکی ہیں جنھیں کرفیوزدہ ماحول، ویران علاقے اور سنسان شاہراہیں زیادہ ہی پسند ہیں جن کے روٹ لگنے سے ملک بھر کے عوام عذاب میں مبتلا ہیں مگر گزشتہ تین چار عشروں سے وی وی آئی پیز کا پروٹوکول ٹریفک بند رہنے اور عوام کی پریشانی کا اہم مسئلہ بنا ہوا ہے اور عوام اپنے ہی منتخب کیے گئے حاکموں کو کوسنے پر مجبور ہیں اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔

پہلے صوبائی وزیروں کے دوروں میں پولیس کی گاڑی ساتھ نظر آتی تھی مگر اب منتخب صوبائی وزرا ہی نہیں بلکہ مشیروں، معاونین خصوصی سے زیادہ صوبوں خصوصاً سندھ میں غیر منتخب مشیر اور معاونین خصوصی بڑی سرکاری گاڑیوں کے بغیر سفر کرنا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں اور یہ لوگ صوبائی وزیروں کی مراعات غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں جب کہ صوبائی وزیروں نے صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سرکاری گاڑیوں کے علاوہ اپنے محکموں کی گاڑیوں کو بھی اپنے لیے مختص کر رکھا ہے تا کہ ان کے قافلے میں بھی زیادہ سے زیادہ سرکاری گاڑیاں عوام کو نظر آئیں۔

ہر وزیر اور مشیر نے دفتر آنے جانے کے علاوہ اپنی رہائش گاہ پر ان کی غیر موجودگی میں بھی متعدد گاڑیاں اپنے اہل خانہ، عزیزوں اور اہم دوستوں کے لیے رکھی ہوئی ہیں اور غیر قانونی طور پر زیادہ سے زیادہ گاڑیاں رکھ کر سرکاری مراعات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انھوں نے اپنے آبائی علاقوں میں اپنی ذاتی گاڑیاں کپڑے چڑھا کر محفوظ کر رکھی ہیں اور وہاں بھی ان کے محکمے کی گاڑیاں ان کی غیر موجودگی میں استعمال ہو رہی ہیں۔ سندھ حکومت کے ایک نوجوان معاون خصوصی نے جن کی مرحومہ والدہ پی پی کی رہنما تھیں چھوٹی گاڑی لینے سے انکار کیا اور انھیں 50 لاکھ روپے کی نئی بڑی گاڑی لے کر دی گئی ہے۔

سندھ میں سرکاری ارکان اسمبلی کے علاوہ بعض اہم اپوزیشن ارکان اسمبلی کو بھی سیکیورٹی کے نام پر پولیس موبائل ملی ہوئی ہیں جب کہ تقریباً ہر رکن اسمبلی، پی پی کے اہم عہدیداروں کو پولیس اہلکار سرکاری طور پر فراہم کیے گئے ہیں جب کہ بعض علمائے کرام بھی سرکار کے فراہم کردہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہی سفر کرتے ہیں۔

اعلیٰ سول اور پولیس اہلکاروں نے بھی اپنی سیکیورٹی بڑھا رکھی ہے اور سیکیورٹی تھریٹ کی جھوٹی خبریں اڑا کر بعض اعلیٰ پولیس افسران کالے شیشوں کی گاڑیوں اور دیگر حفاظتی گاڑیوں کے ساتھ اپنے گھروں اور دفاتر سے نکلتے ہیں اور غیر قانونی طور پر اضافی سرکاری سیکیورٹی استعمال کر رہے ہیں۔ جن دولتمندوں کو سرکاری سیکیورٹی نہیں ملی۔ انھوں نے دکھاوے کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کے باوردی مسلح گارڈ اور گاڑیاں حاصل کر لی ہیں جس کا وہ معاوضہ ادا کر کے لوگوں میں اپنی بھرم بازی دکھا کر اپنی انفرادیت شو کرتے ہیں۔

پرائیویٹ سیکیورٹی کی گاڑیاں رکھنے والے ان افراد کے لیے مسئلہ الگ بنے ہوئے ہیں۔ ان نو دولتیوں کی وجہ سے نجی سیکیورٹی ایجنسیاں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں اور سرکاری طور پر موبائل اور پولیس اہلکاروں کی سیکیورٹی میسر نہ ہونے پر اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کے یہ شوقین اس طرح لوگوں پر رعب ظاہر کر رہے ہیں اور بڑی اور مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں نے اپنی گاڑیوں میں ممنوعہ ہارن بھی غیر قانونی طور پر لگوا رکھے ہیں تا کہ سڑکوں پر رش کی صورت میں اپنے لیے راستہ کلیئر کرا سکیں۔

پاکستان میں لوگ اقتدار میں آ کر سیاسی اور مالی مفادات تو حاصل کرتے ہی ہیں مگر سرکاری پروٹوکول کے بغیر وہ اپنی زندگی کو بیکار سمجھتے ہیں اور سرکاری گاڑیوں کے حصول کے ساتھ اب وہ قومی لباس سے بھی دور ہو گئے ہیں اور ان میں سوٹ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ نوجوان سیاستدان تو سوٹ کلچر میں مبتلا ہیں ہی مگر ہمارے وزیر اعلیٰ تو اکثر نظر ہی سوٹ میں آتے ہیں۔ گزشتہ دور میں حکمرانوں میں مہنگے سے مہنگے غیر ملکی سوٹ پہننے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا اور آج کے وفاق پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں نے اپنی انفرادیت ظاہر کرنے کے لیے سوٹ پہننے کو اپنا سرکاری فرض اولین بنا رکھا ہے اور وہ اپنے سرکاری عہدوں پر آ کر قومی لباس کا استعمال ترک کر چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سوٹ کے بغیر کوئی انھیں سرکاری تسلیم ہی نہیں کرے گا۔

فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے اپنے دور میں قومی لباس کو فروغ دیا تھا وہ خود بھی سرکاری تقریبات میں فوجی وردی کے ساتھ شیروانی استعمال کرتے تھے تو ان کی تقلید میں وفاقی اور صوبائی وزیر اور اعلیٰ افسران بھی سرکاری تقریبات میں سوٹ کے استعمال سے گریز کرتے تھے۔

سابق صدر غلام اسحق خان اور محمد رفیق تارڑ بھی قومی لباس پہنتے تھے مگر بعد میں جنرل پرویز کے دور میں سوٹ پہننا اپنی انفرادیت دکھانے کی نشانی بن گیا اور پی پی کے گزشتہ دور کے بعد موجودہ حکومت میں وزیر اعظم کی تقلید میں وزیر ہی نہیں صدر مملکت بھی سوٹ کے بغیر سرکاری تقاریب میں نہیں آتے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے حکمرانوں کو دیکھیں تو ان میں سوٹ کلچر کہیں نظر نہیں آتا اور وہ اپنے ملک کے علاوہ غیر ملکی دوروں میں بھی سوٹ استعمال نہیں کرتے اور باہر بھی اکثر اپنے قومی لباس ہی میں جاتے ہیں اور دنیا انھیں سوٹ میں نہ ہونے کے باوجود ان کے ملک کے نام سے پہچانتی ہے اور ان کے سادہ لباس میں بھی انھیں عزت و احترام دیتی ہے جب کہ پاکستانی حکمران سمجھتے ہیں کہ ملک کے باہر سوٹ کے بغیر انھیں عزت نہیں ملے گی۔

گزشتہ دنوں کراچی میں پروٹوکول کے باعث ایک بچی اور پنجاب میں اسی وجہ سے ایک شخص اپنی جان کھو چکا ہے مگر حکمران اپنا غیر ضروری اور دکھاوے کا پروٹوکول کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ شاہی خاندانوں کی بچیاں بھی جب ڈیڑھ درجن گاڑیوں کے جلوس میں ووٹ دینے آئیں گی اور لاہور میں حاکم اعلی کے ووٹ دینے آنے پر سڑکیں گھنٹوں پہلے بند اور پولنگ روکی جائے گی تو عوام کا کیا رد عمل ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں کی بجائے انھیں دیکھنے والوں کے پاس ہے مگر وہ دیکھ سکتے ہیں بول نہیں سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔