سامراجی و اشرافیائی غلامی سے آزادی (دوسرا حصہ)

خالد گورایا  بدھ 6 جنوری 2016
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

باہر زیادہ سے زیادہ سستی اشیا فروخت کرو اور اپنے ملک میں ان کم ڈالروں پر سڈمڈ CDMED کے لگنے کے نتیجے میں اپنے اپنے ملکوں میں مقامی کرنسی زیادہ سے زیادہ حاصل کر کے ڈالر نفع کماؤ۔ (4) جن جن ملکوں میں سڈمڈ CDMED لگتا اور بڑھتا گیا ان ملکوں میں لاگتوں کے مسلسل بڑھنے سے صنعتی کلچر تباہ ہوتا گیا اور ساتھ ہی سامراجی ملکوں اور امریکا نے اپنی اشیا کو ایسے معاشی غلام ملکوں میں تیزی سے داخل کرنا شروع کر دیا۔ (CDMED) سڈمڈ لگنے سے لاگتیں بڑھنے کے نتیجے میں ملکی اشیا کی قیمتیں بیرونی اشیا کے مقابلے میں زیادہ ہوتی گئیں۔

ان متاثرہ ملکوں میں سامراجی درآمدات بڑھتی گئیں اور ایکسپورٹ (برآمدات) کم ہوتی گئیں۔ (5) سڈمڈ لگنے سے باہر سے آنے والی تمام اشیا پر مقامی کرنسی کی زیادہ ادائیگی ہونے سے وہ ادارے زیادہ خسارے میں چلے گئے جن کا انحصار توانائی یا پٹرولیم مصنوعات اور مشینی پرزہ جات، کیمیکل کی اشیا پر تھا۔ ریلوے، حکومتی پیداواری یونٹ، پی آئی اے، اسٹیل ملز، فیکٹریاں، کارخانے خسارے میں دھکیل کر امریکی سامراج نے IMF کے پلیٹ فارم سے تجارتی خساروں سے نکلنے کے لیے قرضے دینے شروع کر دیے۔ 1990ء کے بعد سوویت یونین کے تحلیل ہو جانے کے بعد سامراجی امریکا مادر پدر آزاد ہو گیا۔ اس نے IMF کے پلیٹ فارم سے حکم دیا۔ (1) قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرض دیا جائے گا۔

(2) خسارے میں جانے والے غیرپیداواری اور پیداواری یونٹوں کی نجکاری کر کے بجٹ خسارے پورے کیے جائیں۔ (3) حکومتی کردار پیداواری شعبوں سے ختم کیا جائے۔ (4) اداروں سے ملازمین کی چھانٹی کی جائے۔ (5) حکومتی اداروں میں نئی ملازمتیں پیدا نہ کی جائیں خالی ہونے والی جگہوں پر نئی بھرتیوں پر پابندی لگائی جائے۔ (6) حکومت کی طرف سے عوام کو دی جانے والی اعانتوں Subsidises کو بتدریج ختم کیا جائے۔ (7) ملکی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم کر کے ایکسپورٹ بڑھائی جائے۔ یاد رہے کہ کسی بھی زرعی اور صنعتی ترقی سے بینکنگ کلچر فروغ پاتا ہے۔

جب ترقی کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے ساتھ بینک بھی خسارے میں چلے جاتے ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کے دور سے نج کاری میں تیزی آئی اور بینکنگ کلچر بھی تباہی کا شکار ہوتا گیا۔ امریکا نے 1950ء سے بیرونی ملکوں کو ہتھیاروں کی طاقت سے بھی معاشی غلام بنانے آغاز کر دیا تھا۔ ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا، شمالی کوریا، انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک میں یہ جارحیت کبھی نازی ازم سے دنیا کو بچانے کے لیے کی گئی کبھی سوشلزم سے ملکوں کو بچانے کے لیے کی گئی۔

سوویت یونین، افغان جنگ میں پاکستانی جنرل ضیا الحق کو استعمال کر کے جہادی کلچر پیدا کیا اور پھر 1999ء میں پاکستان میں فوجی حکومت لا کر ان جہادیوں کا صفایا کرنے کے لیے پاکستانی ہوائی اڈوں کا استعمال کر کے اپنے ہی پیدا کردہ جہادیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اسی دوران امریکا نے خفیہ فنڈنگ کر کے مسلم دنیا کے خلاف خود کش بمبار تیار کر کے تحریک پاکستان طالبان، القاعدہ اور داعش بنا کر عراق ، شام و دیگر ملکوں میں کھلی مداخلت کر کے حکومت کے چند مخالفین کو فنڈنگ کر کے اس پورے خطے کو آگ کا ڈھیر بنا دیا۔

عراق پر کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا۔ برطانیہ کو ساتھ ملا کر معصوم شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس کے بعد شام اور پورے خطے میں اپنی داعش کو متحرک کیا گیا۔ ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو صحیح انسان بھی اس کے خلاف بھڑک اٹھتا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا نے پورے یورپ کو بھی امریکی ہاتھوں سے غیر محفوظ بنا دینے کا بھرپور شیطانی کردار ادا کیا ہے۔ یاد دلا دوں 26 نومبر 2011ء کو امریکی جنگی ہیلی کاپٹرز نے مہمند ایجنسی بارڈر پر پاکستانی فوجی چوکی سلالہ پر اچانک حملہ کر کے 24 فوجی جوان شہید اور 13 فوجی شدید زخمی کر دیے تھے۔ پاکستان میں مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، عوامی اجتماعی جگہوں، اسکولوں، فوجی چوکیوں، فوجی قافلوں، پولیس پر لاتعداد خودکش حملے، فائرنگ کی گئی، بم پھینکے گئے اور سارا الزام دہشت گردی کے حوالے سے ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو ٹھہرایا گیا۔

اب تک ان حملوں میں 60 ہزار سے زیادہ جانیں شہید کی جا چکی ہیں۔ اس انتہا پسندی کو سامراجی امریکا اس کے حمایتی ’’ڈالروں‘‘ سے پروان چڑھا رہے ہیں۔ جس کا اشارہ روسی صدر نے بھی کیا ہے۔ یہ ایک خطرناک ’’امریکا شیطان‘‘ کی بھیانک جھلک ہے۔ اب اس شیطان کی عالمی معیشت کی تباہ کاریوں کے مزید ثبوت اور ہتھکنڈے دیکھتے ہیں۔ جب امریکی جنگی و مالیاتی جرائم نے امریکی ڈالر کے پیدا کردہ غیر پیداواری اخراجات کا بوجھ یورپی ملکوں کے معیشت دانوں نے محسوس کیا۔ اور فرانس و دیگر ممالک نے اندازہ کر لیا کہ امریکا جنگوں اور جارحیت پر بے تحاشا ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

اس کا سارا ملبہ یورپی معیشت پر گر رہا ہے جس سے یورپی معیشت تباہ ہوتی جا رہی ہے اس پر فرانس کی حکومت نے مارچ 1971ء کو امریکا سے 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی سوئٹزرلینڈ، نیدر لینڈ، بیلجیم نے بھی ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ 3 مئی 1971ء سے 5 مئی 1971ء کے دوران جرمنی بینکوں نے مقامی کرنسی Deutsche Mark عوام کو 2 ارب ڈالروں کے بدلے ادا کیے۔ اس کے بعد جرمنی پر مزید دباؤ بڑھنے پر جرمنی نے اسٹاک ایکسچینج بند کر دی۔ نیدر لینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، آسٹریا نے بھی اسی طرح اسٹاک ایکسچینجز بند کر دیں۔ امریکا پر ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا دباؤ بڑھنے پر امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 15 اگست 1971ء کو ڈالر اور سونے کے تعلق کو توڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سونے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت گرتی چلی گئی۔

IFS کی کتابیں جو IMF ہر سال شایع کرتا ہے ان کے مطابق 1949ء میں پوری دنیا کے ملکوں کے پاس گولڈ ریزرو 238.56 ملین اونس تھا۔ جس کی قیمت 35 ڈالر فی اونس کے حساب سے 8349.6 ملین ڈالر بنتی تھی۔ 1949ء میں امریکا کے پاس گولڈ 701.80 ملین اونس تھا۔ جس کی 35 ڈالر فی اونس کے حساب سے 24563.0 ملین ڈالر قیمت تھی امریکا تمام ملکوں سے 194 فیصد زیادہ (گولڈ) سونا رکھتا تھا۔ 1949ء میں تمام ملکوں کے پاس گولڈ ریزرو اور فارن ایکسچینج ریزرو سب کا ٹوٹل 19288.55 ملین ڈالر تھا۔ امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 24563.0 ملین ڈالر تھا۔ اس طرح ٹوٹل گولڈ ریزرو اور فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر جو تمام ملکوں کے پاس تھے۔ امریکا پھر بھی ان تمام ملکوں سے 5274.45 ملین ڈالر گولڈ زیادہ رکھتا تھا اور 1970ء میں امریکا بے تحاشا جنگی محاذوں پر اخراجات کرتا گیا۔

اس کے نتیجے میں1970ء میں تمام ملکوں کے پاس گولڈ ریزرو 743.4 ملین اونس جمع ہو چکا تھا۔ جس کی مالیت 37.36 ڈالر فی اونس سونے کے حساب سے 27773.404 ملین ڈالر تھی تمام ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 45465.0 ملین ڈالر تھا۔ دونوں کا ٹوٹل 73238.424 ملین ڈالر تھا۔ 1970ء میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 316.34 ملین اونس تھا۔ جس کی مالیت ڈالر میں 37.36 ڈالر فی اونس سونا کی قیمت کے حساب سے 11818.4624 ملین ڈالر بنتی تھی۔ اس طرح امریکا تمام ملکوں سے ٹوٹل ریزرو 73238.424 ملین ڈالر کے مقابلے میں 61419.9616 ملین ڈالر سے ڈیفالٹر ہو چکا تھا۔ یعنی تمام ملکوں میں پھیلائے گئے امریکی ڈالر جس کی پشت پر گولڈ کو کھڑا کیا گیا تھا اتنا گولڈ امریکا کے پاس نہیں تھا۔

امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں بھی یورپ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا تھا اور 1930ء کا عالمی معاشی بحران اسی امریکا کے پیدا کردہ مردہ ڈالر کے غیر پیداواری اخراجات کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ یورپی ملکوں کی معیشت میں غیر ملکی کرنسی مردہ ڈالر کا پھیلاؤ اپنے حجم و مقدار کی نسبت سے یورپی ملکوں کے صنعتی کلچر کو سڈمڈ CDMED کی شکل میں ختم کر رہا تھا۔ امریکی سرمایہ کاری، قرضے نفع لے جا رہے تھے۔ یورپی ممالک امریکا کو قرضے ادا کر رہے تھے۔

صرف جون 1931ء کو امریکا نے قرضوں پر سود و اصل زر کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ ڈالر وصول کیے تھے۔ امریکا نے یورپی تقاضوں سے بچنے کے لیے مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کر کے 22 اکتوبر 1933ء سے 31 جنوری 1934ء تک 20.67 ڈالر سے 35 ڈالر کا فی اونس سونا کر دیا۔ اور جو لوگ 20.67 ڈالر کے بدلے سونا مانگ رہے تھے وہ اب زیادہ ڈالروں کے بدلے سونے دینے لگے تھے۔ مارکیٹ معیشت میں یہ پہلو قابل غور ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔