نیا سال، پرانے مسائل؟

مقتدا منصور  جمعرات 7 جنوری 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

2016ء شروع ہو گیا ہے بلکہ ایک ہفتہ بھی بیت چکاہے مگر نظام مملکت جس انداز میں چل رہا ہے یا چلایا جارہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات و مسائل سالہائے گذشتہ کی طرح امسال بھی منہ چڑاتے رہیں گے۔

اس صورتحال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حکمران اشرافیہ اس سیاسی عزم اور تزویراتی بصیرت(Strategic vision) سے عاری ہے، جو امور مملکت کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی اور عجلت پسندی اپنی جگہ مسلمہ مگر اسٹبلشمنٹ بھی ان کی آزادانہ کارکردگی کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالتی رہتی ہے۔ یہ دعویٰ تسلسل کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اہم قومی امور پر سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحہ (Page) پر ہے، لیکن امور مملکت جس انداز میں چل رہے ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

2015ء اس لحاظ سے قابل ذکر رہا ہے کہ اس برس دہشت گردی کے خلاف منظم کارروائیوں کا آغاز کیا گیا اور قبائلی علاقوں میں موجود لشکری جتھوں کی کمر توڑنے میں نمایاں حد تک کامیابیاں حاصل ہوئیں۔پارا چنار اورپھر مردان میں ہونے والے خود کش حملے شاید ان عناصر کی جانب سے اپنے موجود ہونے کا اظہار ہو سکتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی تعداد اور شدت میں واضح طور پر کمی آئی ہے جس سے ان عناصر کے بکھر جانے کی بہر حال تصدیق ہوتی ہے۔

وہ سیاسی و مذہبی جماعتیں جو 2014 کے آخیر تک شدت پسند عناصر سے مذاکرات کرنے پر زور دیتی رہی تھیں، APS پشاور کے سانحہ کے بعداپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ موقف میں تبدیلی محض دکھاوا ہے یا حقیقی، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرسکے گا۔

البتہ یہ تاثر غلط ہے کہ شدت پسندی کا محور و مرکز صرف قبائلی علاقوں میںموجود ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شدت پسند اور متشدد فرقہ واریت کے ماسٹر مائنڈ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی موجود ہیں جہاں ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے لوگ شدت پسند کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ توقع یہ تھی کہ قبائلی علاقوں کے ساتھ یا پھر اس کے فور اًبعد ضرب عضب کو پنجاب تک پھیلادیا جائے گا مگرایسا کرنے سے گریزکیاگیا۔

اس فیصلہ کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے، یہ منصوبہ ساز ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی عوامی حلقوں میں گردش کر رہاہے کہ ڈاکٹر عاصم کو تو دہشت گردوں کے علاج ومعالجہ کے الزام  میں گرفتار کیا گیا جب کہ پنجاب میں ایسے بااثر افراد جن پر  کالعدم تنظیموں سے روابط کا الزام عائد کیا جاتا رہا مگرنہ حکومت اور نہ کسی ریاستی ادارے کو یہ توفیق ہوئی کہ ان پر لگے الزامات کی تحقیق کرے۔

اسی طرح سہولت کاری کے نام پرچھوٹے صوبوں کی مقبول سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو تو پابند سلاسل کیا جاتا ہے لیکن حکومتی بااثر افراد کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے، جو ایک شدت پسند مولوی کو وفاقی دارالحکومت میں تحفظ فراہم کرکے دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس طرز عمل سے ریاستی دہرے معیار کا کھلا اظہار ہو رہا ہے۔

پیر کو قبل خبر آئی کہ وزارت داخلہ نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے وزارت قانون سے رائے طلب کرلی ہے۔اس قسم کے اقدامات سے حکومت اور حکومتی ادارے شہری سندھ کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟حلقہNA246کے ضمنی انتخاب اور حالیہ بلدیاتی انتخابات نے تمام تر ریاستی اقدامات اور میڈیا ٹرائیل کے باوجود یہ ثابت کردیا کہ ایم کیوایم اربن سندھ کی مسلمہ سیاسی قوت ہے، جس کی قیادت الطاف حسین کرتے ہیں۔

مگر سندھ کے وسائل پر قبضہ کی خواہش نے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کردیا ہے۔ یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کے سوا اپنا وجود نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ (ن) میاں صاحباں کے بغیر صفر ہے۔ اسی طرح ایم کیوایم الطاف حسین کے بغیر کچھ نہیں۔ کم از کم یہی سوچ لیا جائے کہ 1992میں حقیقی بناکر کون سے تیر مار لیا، جو اب مارا جا سکے گا مگر ذہنوں میں بھری غلط سوچ کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔

جہاں تک دہشت گردوں، بھتہ مافیا اور سماج دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کا تعلق ہے، تو کوئی بھی ذی ہوش متوشش شہری مخالفت نہیں کرسکتا۔ لیکن جب یہ محسوس کیا جانے لگے کہ بڑے صوبے میں موجود ہر قسم کی شدت پسندی اور خطرناک جرائم سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف چھوٹے صوبوں میں کارروائی کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر اس صوبے کی مقبول قیادتوں کو مختلف الزامات لگاکر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہو، تو حکومتی اقدامات کا مشکوک ہوجانا لازمی امر ہے۔ یہ بات حکمرانوں کو سمجھنا ہوگی کہ پاکستان صرف ایک صوبے کا نام نہیں ہے۔ اگر کسی ادارے میں ایک صوبے کے لوگوں کی اکثریت ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ادارہ اسی ایک صوبے کے مفادات کے تحفظ پر کمربستہ ہوجائے۔

اسی حوالے سے حالیہ چند مہینوں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بعض ریاستی حلقے مخصوص قلمکاروں، تجزیہ نگاروں اور ٹیلی ویژن اینکروں کے ذریعہ ایک طرف 18ویں آئینی ترمیم کو متنازع بناکر ختم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں جب کہ دوسری طرف صدارتی نظام کے حق میں پروپیگنڈا کروایا جارہا ہے تاکہ صوبوں کو جو تھوڑی بہت خود مختاری میسر آئی ہے، اسے ختم کیا جاسکے۔

اس میں شک نہیں کہ18ویں آئینی ترمیم میں بعض اسقام پائے جاتے ہیں جنھیں پارلیمان کے ذریعہ دورکیا جا سکتا ہے مگر ہر وہ اقدام جواس ترمیم کو مکمل یا جزوی طور پر اس طرح ختم کرنے کا موجب بنے کہ صوبوں کو حاصل تھوڑی بہت خود اختیاری بھی سلب ہوجائے تو اس اقدام سے ملک کے وجود اور سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ 1955میں قائم کیے جانے والا پیریٹی کے اصول وطن عزیز کو دولخت کرنے کا باعث بنا۔ اسی طرح مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے ایڈونچر نے چھوٹے صوبوں کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حیثیت کو ختم کرکے ان پر ایک صوبے کی اجارہ داری مسلط کردی تھی۔ جس کے نتیجے میں ملک میں قومیتی اور لسانی تقسیم گہری ہوئی تھی۔ آج ملک جس زد پذیر صورتحال سے دوچار ہے،اس کا سبب بھی ماضی کے وہی غلط فیصلے ہیں جو بدروحوں کی طرح اس مملکت کا پیچھا کررہے ہیں۔

پھر عرض ہے کہ اس تاثر کو ختم کیاجائے کہ ملک کے بعض حصوںمیں جاری آپریشن صرف چھوٹے صوبوں کی خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی ملکی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا قلع قمع کیے بغیر دیگر جرائم پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔

یہ بات اب ایک جہان پرآشکار ہے کہ پنجاب مذہبی شدت پسند گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ جہاں سے صرف کالعدم تنظیمیں اپنے مراکز نہیں چلاتی ہیں بلکہ داعش جیسی تنظیموں کے لیے ریکروٹمنٹ بھی کی جاتی ہے۔ دیہی اور شہری سندھ کے عوام کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا  مگر انھیں پنجاب میں شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح نظر نہیں آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کے لیے نہ تو کوئی Apexکمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔

موجودہ منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے، 2016میں کسی قسم کی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کراچی میں ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں جہاں سوا دو برسوں کے دوران کچھ قابل ستائش اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔ وہیں بعض حکومتی حکمت عملیوں اور اقدامات کے باعث اس آپریشن کی حیثیت مشکوک بھی ہوئی ہے۔

خاص طور پر مذہبی شدت پسند عناصر کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی قیادتوں کے خلاف میڈیا ٹرائل نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ایک عام تاثر یہ پیدا ہوچکا ہے کہ حکومتی اقدامات کا مقصد کراچی سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ صوبے کی دونوں مقبول سیاسی جماعتوں کو سیاسی منظرنامہ سے ہٹا کرشہر پر سیاسی اور انتظامی طور پر قبضہ جمانا ہے۔ پاکستان میں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیاں شروع کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اچھے خاصے قابل ستائش اقدامات بھی متنازع ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔