جمود و خود پسندی کا عارضہ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 7 جنوری 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

آئین پاکستان 1993ء کے تحت اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے، ہر شہری کو اس کے اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق عبادت گاہیں اور ادارے قائم کرنے کی آزادی ہے، کسی شہری سے اس کے مذہب و عقیدے کے برعکس کسی دوسرے عقیدے کی تبلیغ و ترویج کسی قسم کا ٹیکس یا کنٹری بیوشن وغیرہ وصول کرنے پر بھی پابندی ہے، تعلیم و روزگار کے حصول کے سلسلے میں بھی رنگ و نسل اور مذہب کا امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

نہ ہی کسی تعلیمی ادارے میں کسی شہری کو اس کے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے و مذہب کی تعلیم حاصل کرنے یا اس کی مذہبی یا روحانی تقریبات و رسومات میں شرکت پر مجبور کیا جا سکتا ہے، آئین کے تحت پہلے سے موجود قوانین کو قرآن و سنت کی روح کے مطابق ڈھالا جائے گا اور تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے۔

غیر مسلموں کے پرسنل لاز متاثر نہیں ہوں گے، ایک صحت مند اسلامی معاشرے کے قیام اور موجود قوانین کو اسلام کی روح کے مطابق ڈھالنے اور اس کے لیے اقدامات، تجاویز اور سفارشات تجویز کرنے کے سلسلے میں 1993ء کے آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جس کے قیام کا مقصد حکومت و پارلیمنٹ کو ایسی سفارشات و تجاویز اور راہنمائی فراہم کرنا تھا جن کے ذریعے پاکستان کے مسلمان قرآن و سنت کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیاں گزار سکیں۔

اسمبلیاں صدر اور گورنر کسی مسئلے پر کونسل سے رائے و راہنمائی بھی طلب کر سکتے ہیں اور ان کو کونسل کی تجویز پر عمل درآمد کرنے کا پابند بھی کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ ہزاروں سفارشات عمل درآمد نہ کیے جانے پر محض ردی میں اضافے کا باعث بنی پڑی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں مختلف مکاتب فکر، ججز اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔

ممبران کونسل کو تین سال کے لیے نامزد کیا جاتا جن کی اہلیت کے بارے میں آئین میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلامی اصول و فلسفہ قرآن و سنت کے مطابق علم و دانش رکھتے ہوں یا پاکستان کی معیشت، سیاست، قانونی و انتظامی امور سے بخوبی آگاہی رکھتے ہوں، رویت ہلال کمیٹی تو عرصے سے سیاست زدہ تھی ہی لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران اور چیئرمین کے تقرر کے سلسلے میں سیاسی عوامل کار فرماں نظر آتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں اس کے اسلام آباد اجلاس کے دوران اس کے چیئرمین اور ایک ممبر کے درمیان ہونے والی جھڑپ نے زہد و تقویٰ تو دور کی بات ہے اخلاقیات، متانت و شائستگی کا دامن بھی تار تار کر دیا، اور اتحاد و اتفاق کا یہ ادارہ نفاق و دھینگا مستی کا شکار نظر آیا جو لوگ حیرت زدہ و رنجیدہ بھی ہیں جب کہ کچھ خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں یہ واقعہ ایک بڑی عوامی بحث بن چکا ہے۔

جس پر ہر شخص اپنی ذہنی سطح، عقل اختراع اور مفاد اور عزائم کے تحت رائے زنی کر رہا ہے جس سے مذہب گریز اور مذہب بیزاروں کو اچھا موقع میسر آ گیا ہے کہ وہ عام لوگوں میں مذہب بیزاری کی سوچ ابھاریں اور تخلیق پاکستان کے مقصد اور آئین پاکستان میں طے کردہ امور کو بھی متنازعہ اور قابل بحث بنا کر اپنے عزائم کی تکمیل کر سکیں۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں ملک چاروں طرف سے جغرافیائی و نظریاتی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔

معاشرے سے اسلامی اور اخلاقی اقدار تیزی سے ختم ہو رہی ہیں، علما کا بڑا طبقہ میڈیا زدہ، نمائش زدہ، خود پسند، خود پرست، خود سر اور شہرت و مفادات کا خوگر ہو چکا ہے، علما کی خاصی تعداد فروعی و مسلکی اختلافات میں مگن ہے کسی دوسری جانب ان کی نظر ہی نہیں جاتی، علمائے حق فقہی جمود کا شکار ہیں، عام لوگ لا علمی، غلط فہمی اور ابہام کا شکار ہیں، ان کی صحیح راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، نام نہاد مولوی، مذہبی اسکالر اور دانشور اپنی اپنی منطق اور خواہشات کے مطابق مذہب، انسانی حقوق، روشن خیالی اور لبرالزم کے نام پر مذہب بیزاری اور انارکی پھیلا رہے ہیں۔

ایسے عناصر اور تنظیمیں قریہ قریہ موجود ہیں جو پر فریب ناموں سے نئی نسل کو بگاڑ رہی ہیں جن کے پشت پر ملک دشمن اور بیرونی طاقتیں موجود ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ایسی سفارشات و اقدامات تجویز کرنا ہیں جن سے ایک فلاحی اسلامی معاشرہ قائم کا جا سکے، ملک میں امن و امان اور بھائی چارہ ہو، مسلمانوں پر شریعت درست طور پر نافذ ہو سکے۔

جس میں اقلیتوں کو بھی تحفظ اور حقوق حاصل ہوں تمام مسلکی و فقہی اختلافات، فہم، دانشمندی، اخلاص اور خوف خدا سے حل کیے جا سکیں، لیکن یہاں پر تو علما (اور وہ بھی ایک ہی مسلک کے) کا جو رویہ سامنے آیا وہ حکمرانوں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس، پولیس، وکلا اور ڈاکٹر تنظیموں اور کسی عوامی بھیڑ کے رد عمل سے مشابہ نظر آتا ہے، ملک کے تمام اداروں کا تو بیڑا غرق ہو چکا ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل جس کو حکومت اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے انتشار کا شکار ہو گیا تو ملک و معاشرہ کہاں جائے گا اس پر ہم سب کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ہمارے ملک میں ویلنٹائن ڈے، بسنت ڈے، نیو ایئر نائٹ، اپریل فول، فیشن شوز، مغربی و بھارتی کلچر اور اقدار کو اپنانے کا رجحان دن بہ دن جڑ مضبوط کر رہا ہے اب تو پاکستانی ہندوستان کی شہریت بھی حاصل کرنے لگے ہیں اور بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے بہت سی درخواستیں زیر التوا ہیں وہاں کے سیکریٹری داخلہ نے کئی ضلعی مجسٹریٹس اور پولیس سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ ان پاکستانیوں کے معاملات کا جائزہ لیں جنھوں نے بھارت میں شہریت کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں لیکن اب تک شہریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ریاستی حکومت نے خصوصی کیمپ بھی قائم کیا تھا نوجوان نسل انڈین فلموں اور کلچر کی دلدادہ ہے، سینماؤں سے لے کر ٹی وی چینلز تک انڈین فلموں، ڈراموں اور کلچر کی بھرمار ہے، شہر میں جگہ جگہ آئسکریم پارلر، نیٹ کیفے اور شیشہ بار سینٹر آباد ہیں صبح ہوتے ہی نوجوان طلبا اور ملازمت کرنے والے ان کا رخ کرتے اور اپنی تعلیم، وقت، صحت، پیسہ مستقبل اور اخلاقیات تباہ و برباد کرتے ہیں، مجاز حکومتی ادارے ان کا تدارک کرنے کے بجائے ان کے تحفظ اور فروغ میں مدد دیتے ہیں۔

جس سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اخلاقی تنزلی اور اقدار سے دوری کی بنا پر سماجی برائیوں اور اخلاقی جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اس صورتحال کے تناظر میں یہ بات ضروری اور ناگزیر ہو جاتی ہے کہ ملک و معاشرے کے استحکام و بقا کی خاطر اصلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے حکومت نظریاتی کونسل اور تمام مسالک کے علما کو معاشرے کی بہتری اور مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا مثبت و بھرپور کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔