ماتم یک شہر آرزو

انتظار حسین  جمعـء 8 جنوری 2016
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اب جو سعودی عرب اور ایران کے بیچ پہلے سے بڑھ کر ایک نئی کشیدگی پیدا ہوئی ہے، اس کی خبریں پڑھتے ہوئے ایک عجب سا واقعہ یاد آ گیا۔ ہم ہندوستان کے سفر پر تھے۔ وہ کون سے ایئر پورٹ کا سیکیورٹی گیٹ تھا‘ یاد نہیں‘ بہر حال اس سے گزرتے ہوئے سیکیورٹی چیکر نے ہمیں روکا‘ کس شہر کے باسی ہو‘ بس کچھ ایسا ہی فقرہ تھا۔ ہم نے دل میں کہا‘ الٰہی خیر‘ ہم اپنی کس ادا کی وجہ سے مشکوک ٹھہرے‘ سنبھل کر جواب دیا کہ یہاں کے باسی نہیں ہیں۔ پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے‘ وہ رکا‘ پھر آہستہ سے بولا ،

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

پھر فوراً ہی اس طرح اکڑ کر کھڑا ہو گیا جیسے اس نے سیکیورٹی کی بات کے سوا کوئی بات نہیں کی تھی۔ اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ وہ جنوبی ہند کا ہوائی اڈا۔ وہاں کے سیکیورٹی گیٹ پر یہ سیدھا سادہ  مرد مسلمان کب سے ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔

کب سے اس نے ’جواب شکوہ‘ پڑھتے ہوئے یہ مصرعہ اپنے حافظہ میں احتیاط سے رکھا ہوا تھا کہ کب کوئی پاکستانی مسلمان ادھر سے گزرے تو میں اسے علامہ صاحب کا یہ درد بھرا مصرعہ یاد دلاؤں گا کہ ہندی مسلمانوں کی طرف سے یہ تحفہ لیتا جا کہ تو اگر بھول گیا تو یاد دلا دوں ۔ اور اس وقت ہمیں یہ یاد کر کے اس کی سادہ دلی پر رحم آ رہا ہے کہ وہ دیار ہند میں کھڑا کیا سوچ رہا ہے یا کیا خواب دیکھ رہا ہے اور دنیائے اسلام کے بڑے سمجھے جانے والے مسلمانوں کو کن راہوں پر لیے جا رہے ہیں۔ اس مصرعہ سے آگے جو ٹیپ کا شعر ہے اس میں اس طرح کا اشارہ نظر آ رہا ہے

فرقہ  بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سیاسی تجزیہ نگار اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس باہمی سیاست میں فرقہ بندی کا رنگ پہلے ہی شامل تھا اب وہ پہلے سے بڑھ کر گل کھلائے گا۔

مسلمانوں کے اتحاد کا مضمون اقبال کی شاعری میں کتنی بار دہرایا گیا ہے۔ عجب بات ہے کہ اس کی درد بھری آواز جنوبی ہند کے ایک نکڑ پر کھڑے کم مرتبہ مسلمان تک تو پہنچ گئی۔ صاحب مرتبہ مقتدر شخصیتوں تک نہیں پہنچی۔ اس مضمون کا اس شاعر کا ایک شعر اور سن لیجیے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

یہ شعر اقبال کے ان شعروں میں سے ہے جو ہمارے آپ کے حافظہ میں بہت محفوظ ہیں اور بار بار زبان پر آتے ہیں۔ مگر اس کی تہہ میں جو طنز یا کہہ لیجیے کہ irony چھپی ہوئی ہے اس کا احساس ہمیں شاید  و باید ہی ہوتا ہے۔

خاک کاشغر تو دور کی خاک ہے۔ کوفۂ و بغداد دمشق تو قریب کے قریے ہیں۔ مگر ہوا کیا۔ جب ابھی پچھلے دنوں دنیائے عرب میں انقلابات کی باڑہ آئی ہوئی تھی اور بادشاہتوں کے تختے الٹے جا رہے تھے تو اسی ہلے میں عراق میں بھی انقلاب آیا۔ دنیائے عرب کے انقلابیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اب نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک بغداد ایک محاذ قائم ہو گا اور پوری دنیائے عرب کے دلدر دور ہوجائیں گے۔ مگر ہوا یہ کہ بریگیڈیئر عبدالکریم قاسم نے مسند اقتدار پر بیٹھ کر نیل کے ساحل کی طرف مڑ کر ایک نظر بھی نہ دیکھا۔

اے بسا آرزو کہ  خاک شدہ

انجام کیا ہوا۔ عبدالکریم قاسم کا تختہ الٹ گیا۔ اس کی لاش بغداد کی سڑکوں پر گھسیٹی گئی۔ پھر کیا ہوا۔ آخر میں بعث پارٹی کی بن آئی۔ اس کے بطن سے صد ام حسین نام کا ایک ڈکٹیٹر برآمد ہوا۔ صدام حسین اور خود صدام کا انجام؟

اور خاک دمشق۔ یعنی نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک دمشق۔ جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا۔

ہم نے اپنے زمانے میں اپنی کھلی آنکھوں سے اقبال کے خواب کی یہ تعبیر برآمد ہوتے دیکھی۔ لیجیے اس کے ساتھ اقبال کے ایک اور افسوس سے تعارف حاصل کیجیے۔

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ

یہ اس زمانے کی بات ہے جب سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہو رہے تھے۔ اس کلاہ لالہ رنگ کو اپنے بچپن میں ہم ترکی ٹوپی کہتے تھے۔ کالے پھندنے والی یہ لال ٹوپی بچوں کے سر پر و نیز بزرگوں کے سروں پر خوب سجتی تھی۔ مگر پہلے وہ رسوا ہوئی۔ پھر سروں سے غائب ہوتی چلی گئی۔ خیر جلدی ہی ان ننگے سروں پر جناح کیپ سج گئی۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میں ترکی ٹوپی چار سروں پر ڈولتی رہ گئی تھی۔ میاں ایم اسلم کے سر پر‘ اشرف صبوحی کے سر پر ‘ شیخ اسماعیل پانی پتی کے سر پر‘ چوتھا سر کس کا تھا‘ یا د نہیں آ رہا۔ یہ بزرگ دھیرے دھیرے اللہ کو پیارے ہو ئے تو ترکی ٹوپی کا بھی نام و نشان مٹ گیا۔

بھول جانے کی ہیں یہ باتیں مگر کیونکر کوئی

بھول جائے صبح ہوتے ہی وہ سب شب کا سماں

بزم کو برہم ہوئے مدت نہیں گزری بہت

اٹھ رہا ہے شمع سے اس بزم کی اب تک دھواں

اس دھوئیں میں کچھ چہرے مہرے‘ کچھ ملبوسات کچھ نعرے دھندلے دھندلے دکھائی پڑ رہے تھے۔ سر سید احمد خاں کی گھنی داڑھی‘ مولانا حالی کی گردن میں لپٹا ہوا مفلر‘ مولانا ظفر علی خاں کا زمیندار ‘ علامہ اقبال کا روشن چہرہ‘ علی برادران کی بی اماں ‘ بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دیدو۔ دیکھتے دیکھتے یہ صورتیں دھندلاتی چلی گئیں۔ پھر دھوئیں بیچ سے کیا برآمد ہوا۔ ایک دہشت بھرا چہرہ۔ خودکش حملہ‘ وے صورتیں الٰہی کس دیس سدھار گئیں۔ یہ کونسا چہرہ کس کھوہ سے برآمد ہوا۔

ایں چہ می بینم کہ یہ بیدار یست یارب یابخواب

ملت اسلامہ۔ مگر وہ کہاں ہے

کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے

ہاں بہتر فرقے اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہر ایک کا دعویٰ کہ اصلی تے وڈے مسلمان ہم ہیں۔ باقی بہتر کے بہتر سب کافر‘ قابل گردن زدنی۔ سو بم پھٹنے لگے مسجدوں میں‘ مقبروں میں‘ درگاہوں میں‘ امام بارگاہوں میں اور ہم کہ نہ ہیوں میں نہ شیوں میں

اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔