2015 میں ایران اورعرب ممالک کی صورت حال

انوار فطرت  اتوار 10 جنوری 2016
 فلسطین کے معاملات پر نظر ڈالیے تو وہ 2015  میں بھی دو مختلف طاقتوں کے درمیان معلق رہا ہے۔:فوٹو : فائل

فلسطین کے معاملات پر نظر ڈالیے تو وہ 2015 میں بھی دو مختلف طاقتوں کے درمیان معلق رہا ہے۔:فوٹو : فائل

فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو وہ الجھاووں کو سلجھانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اسے اپنی طاقت اور عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کا گھمنڈ ہے۔ فلسطین کے معاملات پر نظر ڈالیے تو وہ 2015  میں بھی دو مختلف طاقتوں کے درمیان معلق رہا ہے۔ ایک طرف سیکیولر الفتح ہے تو دوسری طرف اسلام پسند حماس۔ پہلی تنظیم کو مغربی کنارے پر اور دوسری کو غزہ پر اثر و نفوذ حاصل ہے۔

اسرائیل جس قدر طاقت ور ہے اسی قدر اپنے عرب ہمسایوں سے خوف زدہ بھی ہے۔ یہ ہی خوف ہے، جو اسے کسی ہم سائے پر اعتماد کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایران اس کا سب سے بڑا اور اہم خوف ہے، سو وہ فلسطینیوں کو کوئی رعایت دے کے حق میں نہیں۔ مغربی کنارے میں اس کی ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیرات کا عمل بدستور جاری اور غزہ کا محاصرہ ساری ہے۔

امن کا نوبل انعام پانے والے امریکی صدر اوباما، چاہیں بھی تو معاملات کو کسی مثبت رخ پر ڈالنے کے اہل نہیں۔ وہ بس اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان میں قیام امن کا گیت اسی راگ میں الاپتے رہیں، جیسا ان کے پیش رو کرتے رہے کیوںکہ ان کی میز پر کوئی متبادل سفارتی طریقہ یا منصوبہ ہے ہی نہیں۔

جیسا کہ کہا گیا کہ فلسطینی سیکولر اور مذہبی دو طاقتوں کے درمیان میں کھڑے ہیں، ایک کا رخ اگر جنوب کی طرف ہے تو دوسرا شمال کی طرف نماز نیتے کھڑا ہے سو فی الحال تو فلسطین کا نہ کوئی مشرق ہے، نہ مغرب۔ آس پاس کے عرب ممالک کو بھی اس معاملے سے کوئی خاص دل چسپی نہیں بل کہ بعض صاحبِ رسوخ عرب رہنماؤں کے ذہن میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو رہا ہے۔

دو تین قریبی ریاستیں شام، لبنان، مصر کو تو ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ وہ بہت سی دہائیاں خود کش حالت میں گزاریں گی۔ اردن کو تو بہت پہلے ہی ’’جی حضور!‘‘ کی ایسی تربیت دی گئی ہے کہ وہ اب بہت دیر میں اس حالت سے نکلے تو نکلے۔

شام: شام کا حکم ران طبقہ محض اپنی طاقت کے بل بوتے پر اور کچھ روس کا اتحادی ہونے کی وجہ سے اپنے کس بل دکھاتا تھا لیکن اس کا حکم ران طبقہ، جسے شاہی خاندان کہنا زیادہ مناسب ہوگا، ملکی معیشت اور قومی معاشرت سے بے گانہ رہا ہے لہٰذا اسے خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑا، جس کی وجہ سے وہ سب کچھ بھول بھال کر داخلیت کا شکار ہے۔ شام پر بظاہر بعث پارٹی کی حکومت ہے تاہم اصل طاقت اسد خاندان اور چند علوی جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔

اس کی حزبِ اختلاف جلاوطن سیاسی گروہوں پر مشتمل ہے۔ اندرونِ ملک مسلح گروہوں نے گوریلا جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ باہر سے ایران اور لبنان کی حزب اللہ اور روس کو برسراقتدار گروپ سے ہم دردی ہے۔ شام آغاز ہی سے روسی بلاک کا اتحادی رہا ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد شام واحد ملک ہے، جس نے روس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ روس کے لیے تاہم شام کی صورتِ حال کچھ دشوار سی ہے۔ اس کی کوشش ہو گی کہ مسائل کا کوئی سفارتی سیاسی حل نکالا جائے سو 2015 کے سال میں یہ پیش رفت ہوئی کہ ماسکو اور واشنگٹن، اس فساد گزیدہ ملک میں یمن کی طرز پر کوئی عبوری انتقال اقتدار کا فارمولا تلاش رہے ہیں، اسد حکومت کا استعفیٰ بھی اس فارمولے کا حصہ بنایا جائے گا۔

اس کے بعد کوئی ایسا سیٹ اپ بنانے کا ارداہ ہے، جو ملک کو بتدریج جمہوریت آشنا کر سکے۔ بظاہر یہ فارمولا دلکش لگتا ہے لیکن عملی طور پر یہ شاید کام نہ آ سکے کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ بشار الاسد حکومت ایسے کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ 21 اگست 2015 کو جب دمشق کے مضافات میں کیمیائی حملہ کیا گیا تھا تو امریکا، شام میں فوجی کارروائی پر تل گیا تھا لیکن عین موقع پر ماسکو نے وہاں مصالحے کی پیش کش کرکے اسے روک لیا۔ روس کے اس اقدام کو بجا طور پر دنیا بھر میں اس کی سفارتی فتح قرار دیا گیاتھا۔

یہ تمام تگاپو اپنی جگہ لیکن شام، خوب صورت شام، خاک ہوتا چلا جا رہا ہے، بچوں اور عورتوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، شہری ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں۔ کہیں انہیں سرکاری فوج کے استبداد کا سامنا ہے، کہیں داعش کی فرعونیت کا اور کہیں القاعدہ کی چنگیزیت کا۔ نہ آسمان ان کا دوست بنتا ہے اور نہ زمین پر کہیں جائے اماں ملتی ہے۔

مصر: مصر میں حسنی مبارک خاندان کی آمریت کے خاتمے کے بعد انتخابات میں اخوان المسلمین کے امیدوار محمد مورسی صدارتی انتخابات بڑی واضح اکثریت سے جیت گئے تھے لیکن ابھی صدارتی کرسی پرجم کر بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ فوج نے ایک سال بعد یعنی 2013 میں ان کا تختہ الٹ دیا اور نتیجے میں السیسی برسرِ اقتدار آ گئے۔ یہ ملک بھی دو فریقوں کی زد پر ہے، ایک سیکولر اور دوسرا مذہبی۔ بائیں بازو کا گروپ بھی کسی نہ کسی صورت اپنی موجودی کا احساس دلاتا ہے۔

ان میں سلفی گروہ، اخوان المسلمین سے برسرپیکار ہے جب کہ جمہوریت پسند محرکین ان انقلابی اقدامات کے طالب ہیں، جن پر تمام گروہوں نے حسنی مبارک کے خلاف جدوجہد کے دوران میں صاد کیا تھا۔ یہاں کے فوجی حکم ران جنرل سیسی ان کے روابط امریکا اور اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے ہیں جب کہ محمد مورسی، اس حوالے سے کسی قسم کی رو رعایت کے روادار نہیں تھے۔

عراق: عراق کی حالتِ کرب و بلا 2015 میں بھی گذشتہ برسوں جیسی ہی رہی۔ یہ ملک بھی اسرائیل کا ہم سایہ ہے۔ یہاں کے صدر صدام حسین کو دنیا کے سامنے ایک انتہائی عجیب و غریب اور نفسیاتی مریض حکم ران کے طور پر پیش کیا جاتا رہاہے۔

عراق کو مغرب اور اس کے پٹھووں نے انتہائی مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے دنیا کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھنے کے الزام میں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لاکھوں کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا، یہاں کی معاشرت، معیشت اور سیاست کے پرزے اڑا دیے۔ غرض ایک بے بنیاد الزام عاید کرکے یہاں انسانیت کی بے دریغ توہین کی گئی۔

اس وقت یہ ملک مشرقِ وسطیٰ کا کم زور ترین ملک ہے۔ بے روزگاری، افراطِ زر اور آئے روز دھماکوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں نے عوام کی زندگیاں عذاب کر رکھی ہیں۔ دجلہ و فرات کی یہ سرزمین باہر کے تخریب کاروں کے علاوہ مسلمانوں کے دو فرقوں شیعہ، سنی کے مابین بھڑکائی گئی نفرت کی آگ میں بھی سلگ رہی ہے۔

یہاں تشیع کی تعداد لگ بھگ 60 فی صد اور سنیوں کی تعداد 40 فی صد کے قریب ہے۔ دارالحکومت بغداد پر مرکزی حکومت تشیع کے زیرنگیں ہے تاہم حکومت میں سنیوں کی بھی شمولیت موجود ہے۔ شمال عراق میں کردوں کی مضبوط خود مختاری ہے، ان کی اپنی حکومت اور حفاظتی فوج ہے۔ یہ کرد مرکزی حکومت سے تیل کی آمدنی کے معاملے پر سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔

صدام حسین کے بعد سے عراق ابھی تک معمول پر  نہیں آیا۔ ایک کے بعد دوسرا معاملہ سر اٹھا لیتا ہے۔ ابھی یہ بھی طے نہیں پایا تھا کہ صدام کے بعد طرز حکومت کیا ہونا چاہیے کہ ایک اور عذاب داعش نے برپا کرکے رہا سہا ملک بھی غارت کر دیا۔ یہ بد ترین دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے۔ ان کا ارادہ خلافت قائم کرنے کا ہے، جس کی ابتدا کے لیے انہوں نے عراق کو اس کے ابتر حالات کی وجہ سے چنا ہے، صوبہ انبار ان کی تگ و تاز کا مرکز ہے اور ان کا غیر اعلانیہ صدر مقام ملک کا تیسرا بڑا شہر موصل ہے۔

کرد: کردوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کی خواہش ہے کہ ملک کو وفاق قرار دیا جائے، جب کہ ایسے بھی ہیں جو الگ کردستان کا قیام چاہتے ہیں۔ برزانی اور طالبانی ان کردوں کے بااثر خاندان ہیں۔  نور المالکی کے بعد عراق کے حیدر العبادی وزیراعظم ہیں۔ نور المالکی، داعش کے موصل اور فلوجہ کی مکمل فتح اور شمالی عراق پر جزوی قبضوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو کر مستعفی ہونا پڑا تھا۔ واضح رہے کہ فوأد معصوم عراق کے صدر ہیں۔

لبنان: شام میں خانہ جاری خانہ جنگی اور اس سے اٹھنے والے شعلوں کی لپیٹ میں لبنان بھی آیا ہوا ہے۔ یہاں دو گروہ ہیں۔ ایک شامی حکومت کا حامی ہے اور دوسرا اس کا مخالف۔ حامیوں میں عرب ڈیموکریٹک پارٹی، حزب اللہ، لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور دیگر گروہ شامل ہیں، جب کہ مخالفین میں عبداللہ عظام بریگیڈ، النصر فرنٹ، جند الاسلام، فتح الاسلام اور سعودی حمایت یافتہ فیوچر موومنٹ کے نام آتے ہیں۔ 2015  میں بھی یہ تمام گروہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے ہیں اور آئے روز غیر ملکیوں کے اغواء کی وارداتیں جاری رہیں۔

ایران: ایرانی جب تک شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی رعایا رہے، ایران ایشیاء کی تھانیداری کے منصب پر فائزہ رہا لیکن جوں ہی اس ملک کے عوام نے غلامی سے نجات حاصل کی تو اپنوں اور غیروںکی نظر میں کھٹکنے لگا۔عرب ممالک کو اس سے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنا 1979ء کا انقلاب ان کے عوام کو برآمد کرے گا اور یورپ اور امریکا کو اپنے ایک بہت ہی ’’جی حضور‘‘ کے قسم کے اتحادی سے محروم ہونا پڑا جبکہ سیکیولر طاقتوں کو اس کی مذہبی قیادت سے خوف آتا ہے۔

اس طرح ایران نے یہ سارے برس تنہائی میں گزارے تاہم  اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔2013ء کے صدارتی انتخابات میں حسن روحانی، محمود احمدی نژاد کے بعد اس عہدے پر متمکن ہوئے ۔ انہیں اپنے پیش رو کے برعکس میانہ رو شخصیت قرار دیا جاتا ہے ۔

2015ء کا سال جدید ایران کی تاریخ میں اہم رہا۔ اس سال جولائی میں تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین ایران کے ایٹمی پروگرام پر ایک معاہدہ ہوا۔ اس سودے کے تحت ایران ایٹم بم بنانے سے باز رہے گا۔مغربی ذرائع کے مطابق اس کے پاس کم از کم 8یا 10ایٹم بم بنانے کے لیے کافی یورانیم ہے۔

اس معاہدے کے تحت وہ اپنے یورانیم کے ذخیرے کو 98  فی صد کم کرے گا اور اس کی افزودگی کی شرح بھی3.67  فی صد پر لائے گا، جو ایٹم بم بنانے کے کام نہیں آسکتی۔ اس معاہدے کے تحت ایران یورانیم افزودہ کرنے میں کام آنے والے سنٹری فیوجز کی تعداد بھی کم کردے گا۔ ایران کے پاس 20000 سنٹری فیوجز ہیں، جنہیں اس معاہدے کے تحت کم کرکے6104 کرنا پڑے گا۔ اس معاہدے کی صورت گری میں ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

مغربی طاقتیں اور خودایران کے عوام اور قیادت اس معاہدے کو خوش آئیند قرار دیتی ہے تاہم اسرائیل اور بعض عرف ممالک اس معاہدے پر چیں بہ جبیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اس معاہدے سے در پردہ روگردانی کرے گا۔ صدر اوباما بھی اس معاہدے کو بڑی پیش رفت قرار دیتے ہیں لیکن ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس معاہدے کی بنیاد اعتماد نہیں پر نہیں رکھی گئی۔ بہرحال فریقین اس معاہدے کو نہ صرف ان کے اپنے لیے بل کہ دنیا بھر کے عوام کے حق میں بہتر قرار دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔